#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ ص ، اٰیت 45 تا 54
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذکر عبٰدنا
ابراھیم واسحٰق
ویعقوب اولی الایدی
والابصار 45 انااخلصنٰھم
بخالصة ذکری الدار 46 وانھم
عندنالمن المصطفین الاخیار 47
واذکر اسمٰعیل والیسع وذاالکفل وکلّ
من الاخیار 48 ھٰذا ذکر وان للمتقین لحسن
ماٰب 49 جنٰت عدن مفتحةلہم الابواب 50 متکئین
فیھا یدعون فیھا بفاکھة کثیرة وشراب 51 وعندھم قٰصرٰت
الطرف اتراب 52 ھٰذاماتوعدون لیوم الحساب 53 ان ھٰذالرزقنا مالهٗ
من نفاد 54
اے ھمارے رسُول ! آپ اپنے کارِ نبوت کے دوران ھمارے قُوتِ دست و دید رکھنے
والے نبی ابراہیم و اسحاق اور یعقوب کے اَحوال کو بھی اپنے سامنے رکھیں
تاکہ قدم قدم پر آپ کو اُن کے عزم و حوصلے سے ایک نیا عزم و حوصلہ ملتا رہے
کیونکہ ہم نے اپنے تمام اہلِ خیر بندوں میں سے اپنے اِن اہلِ خیر بندوں کو
ایک بہت ہی اعلٰی سیرت و بصیرت کا حامل بنایا تھا اِس لیۓ ہمارے یہ اہلِ
خیر بندے سعادت و خیر میں ہمیشہ ہی سرفراز و سربلند رہے ہیں اور ہمارے بندے
اسماعیل و الیسع اور ذوالکفل بھی اپنے زمانے کے وہ اہلِ خیر و سعادت تھے
جنہوں نے انتہائی دُشوار حالات میں انتہائی خوش گوار انداز میں نبوت کا
کارِ خیر و سعادت اَنجام دیا ہے ، انسانی تاریخ کے یہی چند گنے چُنے روشنی
کے وہ مینار ہیں جن کے روشن افکار انسان کو اللہ کی اُن جنتوں کی طرف لے
جاتے ہیں جن جنتوں کے دروازے اُسی وقت اُن پر کھول دیۓ جاتے ہیں جب اعمالِ
سعادت و خیر کے بعد وہ اُن جنتوں میں جاتے ہیں اور جب وہ اُن جنتوں میں
جاتے ہیں تو وہ اپنی اُن جنتوں میں اُن اہلِ جنت کو دیکھتے ہیں جن کے تمام
مرد و زن کم عمر اور ہَم عمر ہوتے ہیں اور جو اُن جنتوں میں ایک دُوسرے کے
آمنے سامنے بیٹھے ہوۓ خوش گوار باتیں کر رہے ہوتے ہیں ، خوش ذائقہ پَھل کھا
رہے ہوتے ہیں اور خوش ذائقہ مشروبات پی رہے ہوتے ہیں اور جو اہلِ جنت اُن
جنتوں میں جا رہے ہوتے ہیں اُن کی خواہش و خیال سے اُن جنتوں کے دروازے
کُھل رہے ہوتے ہیں اور اللہ کی یہی وہ اعلٰی جنات ہیں جن کا اُن لوگوں کے
ساتھ اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے جو زمین پر اللہ کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق
زندگی گزارتے ہیں اور دُنیا سے جانے کے بعد اللہ کی اُن جنتوں میں اُن کے
لیۓ وہ کشادہ روزی ہوتی ھے جو کسی روز کم نہیں ہوتی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی جس سُورت و اٰیت کے جس مقام پر اور اِس سُورت کی اٰیاتِ
بالا کے اِس مقام پر اللہ تعالٰی نے اپنے جن اَنبیاء و رُسل کا جو ذکر کیا
ہے وہ اِس غرض سے کیا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے آخری رسُول کے ذریعے اہلِ
عالَم پر اپنے اِس اصول کو واضح کر دے کہ عظیم مقاصد کے حصول کے لیۓ اہلِ
عالَم کو جس قابلِ تقلید عزم و حوصلے کی ضروت ہوتی ہے وہ قابلِ تقلید عزم و
حوصلہ صرف اللہ تعالٰی کے اَنبیاء و رُسل کی زندگی میں ہوتا ہے اُن کی
زندگی سے باہر کہیں بھی نہیں ہوتا اور یہی وجہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے قُرآنِ
کریم کے مُختلف مقامات پر اپنے مُختلف اَنبیاء و رُسل کا ذکر کر کے اپنے
آخری رسُول کو اِس اَمر کی تاکید کی ہے کہ زندگی میں جب کبھی بھی آپ
مُنکرینِ حق کے انکارِ حق سے دل برداشتہ ہوجائیں تو اللہ تعالٰی کے اِن
اَنبیاء و رُسل کے عزم و حوصلے کو اپنے لیۓ مشعلِ راہ بنائیں تاکہ آپ کی
اُمت کے افراد بھی زندگی میں کسی رُستم و سہراب کو اپنے عزم و حوصلے کے لیۓ
مشعلِ راہ بنانے کے بجاۓ اللہ تعالٰی کے اُن ہی اَنبیاء و رُسل کے اُسی عزم
و حوصلے کو اپنے لیۓ قابلِ اتباع و تقلید بنائیں جس عزم و حوصلے کا قُرآنِ
کریم نے ذکر کیا ھے ، اٰیاتِ بالا میں جن 6 انبیاۓ کرام کا ذکر ہوا ھے اُن
میں سے پہلے چار انبیاۓ کرام کا ذکر و اَحوال اِس سے پہلے بھی قُرآن کے
مُختلف مقامات پر ہو چکا ھے لیکن اِن میں سے پانچویں نبی الیسع علیہ السلام
کا اِس سے قبل سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 86 میں ذکرِ اَنبیاء کے ذکر میں جو
ذکر ہوا ہے اُس ذکر کے بعد قندِ مُکرر کی طرح اِس سُورت کے اِس مقام پر بھی
ذکرِ انبیاء کے ضمن میں وہی ذکرِ مکرر ہوا ہے ، الیسع علیہ السلام کے مُیسر
تاریخی اَحوال کے مطابق آپ کا زمانہِ نبوت 857 قبل مسیح کا زمانہ ہے ، آپ
اردن کی ایک بستی ایبل محولہ میں رہتے تھے اور 743 قبل مسیح میں اپنی اسی
بستی میں فوت و مدفون ہوۓ تھے ، الیسع علیہ السلام کے بارے میں یہ بھی کہا
جاتا ھے کہ آپ وہی نبی ہیں جن کو کتابِ بائبل میں یسیعاہ نبی کہا گیا ھے
اور کتابِ بائبل میں آپ کی پیش گوئیوں کا وہ صحیفہ بھی درج کیا گیا ہے جو
بائبل کے 66 ابواب اور 62 صفحات پر مُشتمل ہے ، عُلماۓ یہود الیسع نبی کو
الیشع کہتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ آپ الیاس علیہ السلام کے شاگرد تھے
اور جب الیاس علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اُٹھالیا تھا تو آپ
نے اُن کے شاگرد و جانشین کے طور پر اُن کی جگہ سنبھالی تھی ، مُحوّلہ بالا
انبیاۓ کرام علیھم السلام میں چَھٹے نبی ذوالکفل علیہ السلام ہیں جن کا اِس
سے پہلے سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 85 میں پہلی بار ذکر ہوا ہے اور اُس کے
بعد دُوسری بار موجُودہ اٰیات میں بھی اُن کا ذکر ہوا ہے لیکن ذوالکفل آپ
کا نام نہیں بلکہ آپ کا وہ لقب ہے جس کا معنٰی فردِ بانصیب و بامُراد ہے
جہاں تک اُن کے اصل نام کا تعلق ہے تو کسی نے کہا ہے کہ ذوالکفل زکریا علیہ
السلام کا لقب ہے ، کسی نے یہ خیال ظاہر کیا ھے کہ ذُو الکفل الیاس علیہ
السلام کا دُوسرا نام ہے ، کسی نے اِن کو یوشع بن نون قرار دیا ہے ، کسی نے
الیسع علیہ السلام کا خلیفہ و جانشین ظاہر کیا ہے اور کسی نے یہ کہا ہے کہ
ذوالکفل علیہ السلام اَیُوب علیہ السلام کے بیٹے تھے جن کا اصل نام بشر تھا
لیکن اِن سارے دعوؤں میں علّامہ آلوسی کا نقل کیا ہوا عُلماۓ یہود کا وہ
دعوٰی زیادہ قرینِ قیاس نظر آتا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ذوالکفل سے
مُراد وہی حزقی ایل نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری 597 قبل مسیح کے زمانے
میں منصبِ نبوت پر فائز ہوۓ تھے اور نہر خابُور کے کنارے پر آباد ہونے والی
ایک بستی میں فرائضِ نبوت اَنجام دیتے تھے ، ذکرِ انبیاء کے بعد اٰیاتِ
بالا میں آنے والی اٰیت 52 کا وہ مضمون بھی خاصا توجہ طلب مضمون ہے جس
مضمون کے ایک لفظ { اتراب } کا اہلِ روایت نے { کمسن بچیاں } ترجمہ کیا ھے
اور پھر اپنے اِس روایتی ترجمے سے اپنا یہ مفہوم کشید کیا ھے کہ یہ کمسن
بچیاں اہل جنت کی کمس بیویاں ہوں گی جو اُن اہلِ جنت کو اُس جنت میں ملیں
گی لیکن اِس مقصدی مضمون کا ایک مُمکنہ مفہوم یہ بھی ہے کہ اُس جنت میں اُس
جنت کی وہ عورتیں آپس میں ہم سِن ہوں گی اور دُوسرا مُمکنہ مفہوم یہ بھی ہے
کہ اُس جنت کی وہ عورتیں اُس جنت میں اپنے مردوں کی ہم سِن ہوں گی اور یہ
بات اِس لیۓ بھی قرینِ عقل ہے کہ دُنیا میں جو لوگ ایک دن اور ایک تاریخ کو
پیدا ہوتے ہیں وہ سارے لوگ قُدرتی طور پر ایک دُوسرے کے ہمسِن ہوتے ہیں اور
قیامت کے دن جو تمام کے تمام مرد و زن ایک ہی دن میں مرحلہِ موت سے گزر کر
مرحلہِ حیات میں داخل ہوں گے تو اُن کے سارے اَفرادِ مرد و زن بھی ہمسِن
ہوں گے اور اُس روز اُن سب کو جو زندگی دی جاۓ گی اُس زندگی میں سے چونکہ
اُن کے بچپن اور اُن کے پچپن کی ناتوانی نکال دی جاۓ گی اور اُن کی اُس جنت
کی زندگی میں صرف جوانی کی توانائی ہی رہنے دی جاۓ گی اِس لیۓ اُس جنت کے
وہ تمام کے تمام مرد و زن اُس جنت میں ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ کم عُمر اور
ہم عُمر ہو جائیں گے !!
|