اگر مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ملی تو میں یہ نہیں بننا چاہوں گی، لتا منگیشکر نے مرنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں کیا کہا تھا

image
 
موسیقی کے چاہنے والوں کا یہ ماننا ہے کہ اس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے- یہی وجہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی سرحدیں تو پاکستان کے بننے کے بعد جدا ہوگئیں مگر گلوکار چاہے پاکستان کے ہوں یا بھارت کے دونوں ملکوں میں ان کو یکساں پسند کیا جاتا ہے اور ان کے گائے نغمے ہر خاص و عام کی زبان پر ہوتے ہیں-
 
ایسی ہی ایک گلوکارہ لتا منگشیکر بھی تھیں جو 28 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئی تھیں ان کے والد ایک کلاسیکل گائک ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی تھے- لتا اپنی چار بہنوں میں سب سے بڑی تھیں اور پانچ سال میں انہوں نے اپنے والد سے گلوکاری کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی تھی-
 
ہمت اور حوصلوں اور جدوجہد سے بھری زندگی
لتا منگشیکر کی زندگی کا پہلا دکھ ان کو اس وقت ملا جب کہ صرف چودہ سال کی عمر میں ان کے والد دل کے دورے کے سبب ان کی زندگی سے رخصت ہو گئے اور اس کے بعد گھر میں سب سے بڑی ہونے کے سبب ساری ذمہ داریاں ان کے کمزور کاندھوں پر آگئيں- جس کو اٹھانے کے لیے انہوں نے پلے بیک سنگر کے طور پر کام کی تلاش شروع کر دی-
 
اپنے کیرئير کا آغازانہوں نے 1942 میں مراٹھی فلم میں گانے سے کیا مگر ان کےاس گانے کو ان کی آواز کے پتلے ہونے کے سبب فلم سے آخری وقت میں نکال دیا گیا- دو سال تک مراٹھی فلموں میں چھوٹے موٹے رول اور کچھ فلاپ گانے والی لتا نے جدوجہد جاری رکھی اور ہمت نہ ہاری- مگر یہاں ان کو وہ پزيرائی نہیں ملی جس کی وہ خواہشمند تھیں-
 
بمبئی فلم انڈسٹری میں قسمت آزمائی
لتا نے 1945 میں بمبئی فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے یہان سکونت اختیار کر لی جہاں استاد امانت علی خان کی شاگردگی اختیار کر لی جنہوں نے ان کو کئی جگہوں پر متعارف کروایا اور ان کو کام دلوانے میں اہم کر دار ادا کیا-
 
image
 
استاد امانت علی خان کی وجہ سے لتا اور ان کی بہن کو کچھ فلموں میں مختصر کردار بھی ملے اسی دوران لتا استاد امانت علی خان کی محبت میں گرفتار ہو گئيں اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواب دیکھنے لگیں-
 
قیام پاکستان اور لتا کے خوابوں کے ٹوٹنے کا وقت
قیام پاکستان نے اس وقت کے ہر انسان کو علیحدہ طریقے سے متاثر کیا اس سے لتا بھی ایسی متاثر ہوئيں کہ جس سے ان کا دل ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ لتا منگیشکر کے استاد امانت علی خان کے ساتھ محبت ان کی کامیابیوں کے سفر کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی-
 
پاکستان بننے کے بعد استاد امانت علی خان اپنے بھائی استاد نزاکت علی خان کے ساتھ پاکستان آگئے مگر اس کے باوجود وقتاً فوقتاً ہندوستان آتے رہتے- وہ جب بھی ہندوستان آتے تو لتا کے گھر پر ہی قیام کرتے تھے اور اس دوران لتا اپنی تمام تر مصروفیات کو ختم کر کے صرف اور صرف استاد امانت علی خان کے ساتھ وقت گزارتیں جس کا براہ راست اثر بمبئی کی فلم انڈسٹری پر پڑتا-
 
یہاں تک کہ راج کپور نے استاد امانت علی خان سے ہندوستان نہ آنے کی درخواست کر دی- ایک انٹرویو میں لتا سے محبت کرنے اور شادی نہ کرنے کے حوالے سے استاد امانت علی خان کا یہ کہنا تھا کہ لتا ہندوستان والوں کے لیے ایک دیوی کا درجہ رکھتی تھیں اگر وہ ان سے شادی کر لیتے تو ہندوستان کے شدت پسند لوگ ان دونوں کو زندہ نہ رہنے دیتے اور مار ڈالتے اس وجہ سے انہوں نے لتا سے شادی نہیں کی-
 
استاد امانت علی خان کی شادی کے بعد بھی لتا ان کی دوسری بیوی بننے کے لیے بھی تیار تھیں اور اس بات پر بھی راضی تھیں کہ وہ چھ مہینے پاکستان اپنی پہلی بیوی کے ساتھ اور چھ مہینے ان کے ساتھ گزار لیں مگر یہ ہو نہ سکا-
 
image
 
یہاں تک کہ 1978 میں جب استاد امانت علی خان پر لندن میں پرفارمنس کے دوران فالج کا اٹیک ہوا تو لتا نے نہ صرف ان کی عیادت اور دیکھ بھال کی بلکہ ان کے علاج کے سارے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کیے-
 
لتا کی موت
جنوری 2022 میں لتا منگیشکر کرونا وائرس سے متاثر ہوئیں اور ان کو علاج کے غرض سے ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں ان کا مرض بگڑتا گیا اور 6 فروری کو کرونا کے سبب ان کی موت واقع ہو گئی-
 
انتہائی کامیاب کیرئير اور عروج کے باوجود ایک انٹرویو میں جب لتا سے یہ دریافت کیا گیا کہ کیا اگلے جنم میں مرنے کے بعد اگر ان کو دوبارہ موقع ملا تو کیا وہ لتا بننا چاہیں گی تو ان کے جواب نے اس سوال کو پوچھنے والے کو حیرت میں ڈال دیا- جب ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر ان کو دوبارہ زندگی ملی تو وہ لتا نہیں بننا چاہیں گی-
 
کیوں کہ لتا منگیشکر کی یہ زندگی دکھوں اور محرومیوں سے عبارت تھی اس وجہ سے ان کی خواہش ہو گی کہ اگلے جنم میں وہ کچھ بھی بن جائیں مگر لتا نہ بنیں-
YOU MAY ALSO LIKE: