ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے بعد یہ بحٹ
زوروں پر ہے کہ پاکستان ایک بدعنوان ملک ہے۔۔ اخبارات کی خبروں اور ٹیلی
ویڑن پر ہونے والے مباحثوں میں یہی موضوع زیر بحث ہے۔ اس کی وجہ عالمی
تنظیم ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نے دنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانی کے حوالے
سے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی 140 تک
پہنچ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس پر بحث و مباحثہ
قدرتی امر ہے۔ حزب اختلاف اور حکومت مخالف تجزیہ نگاروں کو تو گویا موقع
ہاتھ آگیا اور وہ اس تنزلی کی وجہ حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ حکومت مخالف
سیاسی جماعتیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو عالمی ادارے کی جانب سے
چارج شیٹ قرار دے رہی ہیں کہ ٹرانسپرنسی نے دوسری بار یہ کہا ہے کہ موجودہ
حکومت بد عنوان ہے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے مطابق ٹرانسپرنسی کی
رپورٹ حکمرانوں کے خلاف فرد جرم ہے جس نے مصنوعی ایمانداری کا بھانڈا پھوٹ
دیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کے بعد عمران کی حکومت کا کوئی جواز نہیں
کرپٹ حکمراں استعفیٰ دیں۔
اس کے جواب میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی
امور شہباز گل نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ساکھ پر تنقید کی اور اس کی
حالیہ رپورٹ کو شریف خاندان کی لکھی رپورٹ قرار دیا۔ وزیر مملکت برائے
اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے بھی نے کہا ہے کہ حزب اختلاف کا ٹرانسپرنسی
انٹرنیشنل کی رپورٹ پر واویلا، بلاجواز ہے۔ کیونکہ آٹھ میں سے سات رپورٹس
میں کوئی فرق نہیں ہے صرف ایک رپورٹ میں تنزلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس
رپورٹ میں حکومتی سطح پر کسی قسم کی مالی بدعنوانی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی وائس چئیرپرسن جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال
نے اس رپورٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون اور ریاست کی بالادستی کی
عدم موجودگی پاکستان کے کم سکور کی وجہ بنی ہے۔
یہ ساری بحث اپنی جگہ پر اور پاکستانی میں بدعنوانی کے حوالے سے مباحث سے
تھوڑی دیر کے لئے توقف کرتے ہوئے تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے جس پر مبصرین
کی نگاہ نجانے کیوں نہیں جاتی ہے۔ پاکستان میں بدعنوانی، کرپشن اور بے
قاعدگیوں کی داستانوں کے ساتھ وہاں ایک معجزہ بھی ہوا ہے جس پر اہل پاکستان
کو فخر کرنا چاہیے۔ جس ملک میں اعتبار اور اعتماد کا فقدان ہے اسی ملک میں
پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ 152 ارب روپے کے قرضے لیتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی
ضمانت اور گارنٹی کے اور پھر وہ قرضے خود ہی بغیر کسی دباؤ کے واپس بھی
کردیتے ہیں۔ کیا اس پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔ یہ معجزہ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب
کی قیادت میں اخوت فاونڈیشن کے تحت رونما ہوا ہے۔ گذشتہ بیس سالوں میں اخوت
نے قرض حسنہ دے کر لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور اپنا روزگار شروع
کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا ہے اس سے لاکھوں لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔
وہ جوکبھی کسی کے دست نگر تھے اور دو وقت کی روٹی کے محتاج تھے لیکن اخوت
کی بدولت آج نہ صرف اپنا روزگار اور کاروبار رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کی بھی
مدد کررہے ہیں۔ یہ سب اخوت کے قرض حسنہ پروگرام کی بدولت ہوا ہے۔ ضرورت مند
لوگ اخوت سے قرض حسنہ لیتے ہیں اور پھر آسان اقساط پر، بغیر کسی سود کے قرض
واپس کردیتے ہیں۔ قرض واپسی کی شرح 99.99 فی صد ہے جو دنیا کے کسی بھی
ادارے کو حاصل نہیں ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قرض دیتے وقت اخوت نہ کوئی
ضمانت یا رہن اپنے پاس رکھتا ہے اور نہ قرضہ وصولی کے لئے جبر اور عدالتوں
کا تعاون لیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معیشت اس پر حیران ہیں کہ یہ
کیسے ممکن ہے۔ برطانیہ اور امریکہ کی یونیورسٹیاں اس میں دلچسپی لے رہی ہیں
کہ یہ کیوں کر ہوا ہے۔ وہ چئیرمین اخوت ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کو دعوت دے کر
بلاتی ہیں اور یہ راز جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی سوال جب ڈاکٹر محمد امجد
ثاقب سے ان کے سویڈن کے دورہ پر ہم نے کیا جب وہ اخوت سویڈن کی دعوت پر
تشریف لائے تھے کہ پاکستان میں تو کسی کو ایک سو روپے ادھار دو تو واپس
نہیں کرتا لیکن اخوت سے لوگ ہزاروں روپے کا قرض بغیر ضمانت سے لے کر کیسے
واپس کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے کہا کہ جب ایک مرتبہ لوگوں کو
اخوت کے پیغام کہ سمجھ آجاتی ہے اور ان کا اعتماد کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے
تو پھر وہ خودبخود وقت پر اپنی قسط ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ
قرض واپس کرتے ہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر اخوت کے معاون بھی بن جاتے ہیں
تاکہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوسکے۔ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب سے یہ
سوال کیا کہ پاکستان، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں اخوت کے آٹھ سو سے
زائد دفاتر ہر روز ہزاروں قرضے جاری کرتے ہیں اور اس وقت بھی اخوت کے فعال
قرضوں کی تعداد ساڑھے ساٹھ لاکھ ہے تو ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے جو
قرضے کی قسط واپس نہیں کرتے ہوں گے، ان کے ساتھ آپ کیا سلوک کرتے ہیں۔ جواب
میں انہوں نے کہا کہ ہم قرضہ وصولی کے لئے نہ تو پولیس کی مدد لیتے ہیں اور
نہ ہی کوئی اور ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ ہم ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے
ہیں اور بہت پیار سے صرف یاد دہانی کرواتے ہیں جو کافی ہوتی ہے اور لوگ
سمجھ جاتے ہیں۔ ہمیں مشکل پیش نہیں آتی لیکن اگر پھر بھی کسی کو واقعی
دشواری پیش آرہی ہو تو ہم اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
اخوت کے ذریعے لاکھوں لوگوں نے جو تاریخ رقم کی ہے، اس پر بھی ملکی اور بین
الاقوامی اداروں کی نگاہ ہونی چاہیے۔ پاکستان کے سرکاری ادارے بھی اگر اخوت
کے پیغام کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں تو بہتری کی امید ہے۔ علامہ نے درست
ہی کہا تھا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔ ڈاکٹر محمد امجد
ثاقب کی قیادت میں اخوت نے ملک سے غربت کے خاتمہ کے لئے عظیم کردار ادا کیا
ہے اور اب اخوت یونیورسٹی کے ذریعہ جہالت ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کا
یہ کہنا ہے کہ اس یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم دی جائے گی بلکہ تربیت اور
کردار سازی بھی کی جائے گی۔ یہی وقت کہ ضرورت ہے اور ہمارا مسئلہ تعلیم کا
نہ ہونا نہیں بلکہ تربیت کا فقدان ہے۔ اخوت نے قوم کی تربیت اور کردار سازی
کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس سے وہ معاشرہ وجود میں آئے گا جس کی ہم سب تمنا
کرتے ہیں۔
|