|
|
گھر داماد عام طور پر ہمارے معاشرے میں ایک گالی تصور
کیا جاتا ہےاور جو مرد حضرات کسی بھی وجہ سے اپنے سسرال میں رہائش اختیار
کر لیتے ہیں ان کو تضحیک آمیز ناموں سے پکارا جاتا ہے- |
|
گھر داماد ہونا کیوں
ناپسند کیا جاتا ہے |
عام طور پر ہمارے خاندانی رسوم ورواج ہندوستانی معاشرت
کے زير اثر ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اس انسان کو بہت زيادہ عزت دیتے ہیں جو کہ
ہماری بیٹی کا نہ صرف رشتہ مانگتا ہے بلکہ اس کو بیاہ کر اپنے گھر لے جاتا
ہے- |
|
داماد کے حوالے سے ہندوستانی معاشرت اس حوالے سے بہت
حساس ہوتی ہے کہ ان کی سوچ کے مطابق داماد کی خوشی بیٹی کی خوشی کی ضامن
ہوتی ہے داماد جتنا خودادر اور محنتی ہوگا اتنا ہی بیٹی کو خوش رکھے گا- |
|
یہی وجہ ہے اس کی عزت و احترام میں کسی قسم کی کمی واقع
نہ ہو تو اس کو مہمان کے طور پر ٹریٹ کیا جاتا ہے اس کو وی آئی پی عزت دی
جاتی ہے اور اس کو عزت کے ساتھ رخصت کر دیا جاتا ہے اور اس بات کو قبول
نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ ہمہ وقت آپ کے گھر میں گزارے۔ اس پریکٹس کو اس کی
عزت میں کمی قرار دیا جاتا ہے- |
|
اگر کسی سبب داماد سسرال میں وقت گزارنے پر مجبور ہو بھی
جائے تو اس کو لوگ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں- |
|
|
|
گھر داماد ہونا ہمیشہ
غلط نہیں ہوتا ہے |
آج کل کے دور میں اکثر ایسے والدین بھی دیکھے جا سکتے
ہیں جن کے بیٹے نہیں ہوتے ہیں یا پھر بیٹے روزگار کے سبب ملک سے باہر ہوتے
ہیں- ایسی صورتحال میں ایسے والدین اکیلے گھر میں اپنا وقت گزارنے پر مجبور
ہوتے ہیں- |
|
بڑھتی ہوئی عمر اور بیماریوں کے سبب ان کو ہمہ وقت کسی
اپنے کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی دیکھ بھال کر سکے- ایسے وقت میں اپنی اولاد
سے زيادہ کوئی اور خیال نہیں رکھ سکتا ہے مگر ہمارے قدیم رسوم و رواج کے
سبب بیٹی شادی کے بعد ماں باپ کے گھر میں نہیں رہ سکتی ہے- جس کی وجہ سے وہ
اپنے گھر میں پریشان رہتی ہے- |
|
اس کی کئی مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں کہ بیٹی
میکے اور سسرال میں تقسیم ہو جاتی ہے اور بیٹی کو اس بات کا طعنہ علیحدہ
سننا پڑتا ہے کہ ماں باپ بیٹے کی ذمہ داری ہیں جب کہ داماد بھی بیٹا ہوتا
ہے- اگر اس کے ساتھ اس کے اپنے ماں باپ کے مسائل نہ ہوں تو وہ سسرال میں
رہائش اختیار کر سکتا ہے- |
|
گھر داماد سسرال میں
اپنی عزت کیسے برقرار رکھ سکتا ہے |
گھر داماد ہونے کے باوجود بھی اپنی عزت کو برقرار رکھا
جا سکتا ہے اس کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ اپنے اندر یہ سوچ تبدیل کر دی
جائے کہ وہ بیوی کے ماں باپ کی خدمت کرتے ہوئے کوئی احسان کر رہا ہے- |
|
اپنی عزت کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ خود
کو سسرال میں مہمان سمجھنے کے بجائے وہاں کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالے اور
اپنے معاش کے لیے ان پر انحصار نہ کرے بلکہ اس گھر کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے
وہاں کے اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرتے ہوئے لڑکی کے والدین کو اپنے ماں
باپ کی جگہ پر رکھ کر ان کی خدمت کرے- |
|
|
|
گھر داماد تو بن گئے مگر اپنے والدین کا حق
کیسے ادا کریں |
کچھ گھرانوں میں ایک سے زيادہ بیٹے ہوتے ہیں جو اپنے والدین کی ذمہ داری کو
احسن طریقے سے ادا کر رہے ہوتے ہیں- ایسی صورت میں اگر ایک بیٹا بصد محبوری
بیوی کے والدین کی خدمت کر رہا ہے تو اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے
مجبوری کو سمجھنا چاہیے- |
|
مگر اس کے ساتھ بیٹے کو بھی اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جس طرح آپ کی بیوی
اپنے والدین کے لیے پریشان ہو کر وہاں شفٹ ہونا چاہ رہی ہے تو آپ بھی اپنے
والدین کی ذمہ داریوں سے منہ نہ موڑیں اور اپنی بیوی کو بھی اپنے والدین کی
عزت کا حکم دیں- |
|
یاد رکھیں |
آج جو آپ کر رہے ہیں وہی بدلے کی صورت میں آپ کے سامنے آپ کی بچوں کی صورت
میں آئے گا- اگر آپ اس بات کے خواہشمند ہیں کہ آپ کے بچے آپ کی بڑھاپے میں
خدمت کریں تو آپ کو بھی چاہیے کہ اپنی جوانی میں اس بات کا خیال رکھیں- |