ہر سال 4 فروری کو دنیا بھر میں سرطان کے عالمی دن
کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اس دن کے منانے کا مقصد لوگوں میں اس موذی مرض کے بارے میں مکمل آگاہی اور
شعور پیدا کرنا ہے تاکہ کینسر کی بروقت تشخیص اور علاج کو ممکن بنایا جاسکے
اور کینسر سے ہونے والی اموات کو ہر ممکن طور پر روکا جا سکے۔ اس دن کو
منانے کا آغاز 2005 میں یونین فار انٹرنیشنل کینسر کنٹرول(UICC) پروگرام نے
کیا۔
کینسر کے متعلق اعداد شمار:
یو آئی سی سی کے مطابق دنیا دنیا بھر میں ہر سال کینسر کی وجہ سے ایک کروڑ
سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اگلے دس سال کے اندر یہ
تعداد تین کروڑ سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔
جب کہ عالمی ادارے صحت کے مطابق دنیا بھر میں کینسر میں مبتلا افراد کی
سالانہ تعداد ایک کروڑ ترانوے لاکھ ہے اور 2030 میں تین کروڑ سے زیادہ ہو
سکتی ہے۔
دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے ہر آٹھویں شخص کے موت کی وجہ کینسر ہے۔ غریب
اور ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح ستر فیصد تک ہے۔ چھاتی کا کینسر خواتین میں
جب کہ پھیپھڑوں اور پروسٹیٹ کا کینسر مردوں میں زیادہ ہے۔
ایشیا میں کینسر کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان سب
سے اوپر ہے ۔
پاکستان میں تقریبا ہر سال تین لاکھ افراد کینسر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
چھاتی اور پھیپھڑوں، کے ساتھ یہاں منہ کا کینسر بھی عام ہے اور ہر سال صرف
چھاتی کے کینسر کی وجہ سے چالیس ہزار سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
سرطان کیا ہے اور کیسے پھیلتا ہے؟:
سرطان یا کینسر کا شمار ان بیماریوں میں ہوتا ہے جو نہایت تیزی سے بڑھتے
ہیں اور بروقت تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے یقینی طور پر جان لیوا ثابت ہوسکتے
ہیں۔
کینسر کو خاموش قاتل بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس کی تشخیص عموماً بیماری
کے دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ہوتی ہے جب اسے روکنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے
اور موت یقینی ہوجاتی ہے۔ البتہ بروقت تشخیص سے ہونے والی اموات سے کسی حد
تک بچا جاسکتا ہے۔
انسانی جسم کے خلیوں میں پائے جانے والے ڈی این اے میں ٹیومر سپریسر جینز
ہوتے ہیں جو خلیوں کی نشوونما کو کنٹرول کرتے ہیں اور اینٹی کینسر کا کام
کرتے ہیں۔
یہ خلیے عموماً ایک متناسب رفتار سے اور مقررہ وقت تک تقسیم در تقسیم کے
مراحل سے گزرتے ہیں اور پھر سیل ایجنگ کی وجہ سے تقسیم کا عمل رک جاتا ہے
اور سیل ڈیکمپوز ہونے لگتے ہیں۔ اسے خلیاتی موت بھی کہتے ہیں۔
سرطان کی بنیادی وجہ جسم میں موجود ان خلیاتی جینز میں تغیراتی عمل ہے۔
جینیاتی تغیر یا خرابی کی وجہ سے اکثر یہ ٹیومر سپریسر جینز اپنا کام نہیں
کر پاتے اور سیل کی تقسیم کا عمل مقررہ تعداد سے بڑھ جاتا ہے۔ ساتھ ہی
خلیاتی موت کا عمل بھی رک جاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ خلیے جسامت میں بھی بڑھ
جاتے ہیں۔
جسم کے کسی بھی حصے میں خلیوں کی اس تقسیم سے بہت سے سیل مل کر رسولی کی
شکل اختیار کرتے ہیں اور میٹاسٹیسز کے عمل میں کینسر کے یہ سیل بذریعہ خون
یا لیمف نوڈ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔
جس طرح ہر چیز کی زیادتی زہر کا اثر رکھتی ہے اسی طرح انسانی جسم میں موجود
خلیے بھی جب اپنی مقررہ مقدار سے بڑھنا شروع ہو جائیں تو جسم کے لیے زہر کا
اثر رکھتے ہیں اور خطرناک ثابت ہوتے ہیں اور وقت سے پہلے زندگی کا خاتمہ کر
دیتے ہیں۔
سرطان کی وجوہات:
مختلف اعداد و شمار کے مطابق کینسر کی 36 میں سے تقریباً 9 اقسام موروثی
ہیں یعنی یہ والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی بیرونی عوامل بھی
اس جینیاتی عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ان عوامل میں ماحولیاتی یا فضائی آلودگی، مختلف قسم کے تابکاری، ریڈیائی یا
سورج کی شعاعیں، کیمیکلز، آبی اور غذائی آلودگی، زرعی ادویات ، منشیات
(گٹکا، پان چھالیہ، شیشہ)، سگریٹ نوشی، الکحل، غذائی اجناس میں پایا جانے
والا افلاٹوکسن، مختلف قسم کے وائرل انفیکشنز، فوڈ کیمیکلز اور کلرز،
سٹیرائیڈ انجکشن لگے جانور کا گوشت، ساتھ ہی غیر متحرک زندگی، بڑھتی ہوئی
عمر، موٹاپا، ناکافی غذائیت بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
سرطان کی اقسام:
بنیادی طور پر رسولی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک benign جس میں خلیوں کی
نشوونما ایک مقررہ وقت میں رک جاتی ہے یہ بےضرر ہوتی ہے اور دوسری
malignant جس میں خلیوں کی تقسیم بے قابو ہو جاتی ہے اور میٹاسٹیسز بھی بڑھ
جاتی ہے۔ یہ قسم انسانی زندگی کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہے۔
کینسر کو اس کے خلیوں کی مناسبت سے پانچ مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا
ہے۔
کارسینوما:
90 فیصد کینسر کارسینوما ہوتے ہیں ۔ یہ ان خلیوں میں ہوتے ہیں جو گردوں اور
جلد میں پائے جاتے ہیں۔
لمفوما:
جسم میں انفیکشنز کو روکنے کے لیے لیمفیٹک سسٹم ہوتا ہے۔ اس کا تعلق انسانی
قوت مدافعت سے بھی ہے۔ اس نظام میں تلی، لمف نوڈز، تھائمس گلینڈ اور بون
میرو شامل ہے۔ ان کے کینسر کو لمفوما کہتے ہیں۔
سارکوما:
جسم کے مختلف حصوں میں پائے جانے والے کنکٹیو ٹشو کے کینسر سارکوما کہلاتے
ہیں۔ ان میں ہڈیاں، کارٹیلیج اور پٹھے آتے ہیں۔
لیوکیمیا:
یہ بون میرو کا کینسر ہے۔ بون میرو کا کام خون کے سفید اور سرخ خلیے اور
پلیٹلیٹس بنانا ہے۔ اس کے کینسر کو بلڈ کینسر بھی کہتے ہیں۔
مائلوما:
بون میرو میں پلازما سیل بھی ہوتے ہیں ۔جو اینٹی باڈیز بناتے ہیں اور یہ
جسم میں قوت مدافعت بڑھا کر انفیکشنز سے روکتے ہیں۔ پلازما سیل کے کینسر کو
مائلوما کہتے ہیں۔
سرطان کی ابتدائی علامات: سرطان کی ابتدائی علامات میں تھکن کا احساس ،
بخار، وزن میں مسلسل کمی، درد کی شکایت، ہاضمے کی مسلسل خرابی، کھانسی، جسم
کے کسی جگہ پہ گلٹی کا بننا، جلد پر موجود تل یا وارٹ کے رنگ میں بدلاؤ اور
غیر معمولی خون بہنا شامل ہیں۔
سرطان کی روک تھام:
کینسر کی بیماری سے بچنا ایک مشکل امر ہے مگر طرز زندگی کو بدلنے سے یہ
ممکن ہو سکتا ہے۔
* جسمانی طور پر متحرک اور مصروف رہنا اور روز مرہ کی ورزش کو اپنے معمولات
میں شامل کرنا ۔
* صحت مند، متوازن اور سادہ غذا کا استعمال۔
* روزانہ خالص دودھ اور اس سے بنی اشیاء کا استعمال۔
* پھلوں اور سبزیوں کا بہت زیادہ استعمال۔
* پروسسڈ گوشت کا استعمال کم کرنا۔
* الکوحل سموکنگ اور منشیات سے پرہیز۔
* سورج کی روشنی سے بچنے کے لیے سن سکرین کا استعمال۔
* وزن کم کرنا
* حفاظتی ٹیکے
* باقاعدگی سے معائنہ
* کم عمری میں شادی اور بچوں کی پیدائش تقریباً تیس سال تک ہو اور بچوں کو
پیدائش کے ڈھائی سال تک اپنا دودھ پلانا عورتوں میں چھاتی کے کینسر کے
خطرات کو کم کر سکتا ہے۔
* تیس سال کے بعد عورتوں کو چھاتی کے کینسر سے ہر ممکن طور ،بچنے کے لیے ہر
دو سال بعد میمو گرافی کرانا
سرطان کا علاج :
* سرجری میں رسولی کو آپریشن کرکے نکال دیا جاتا ہے۔
* ریڈی ایشن تھراپی میں مختلف قسم کی ریڈیائی شعاعوں کے ذریعے رسولی کو
چھوٹا کیا جاتا ہے۔
* کیموتھراپی میں مریض کو دوائیوں پر رکھا جاتا ہے۔
* سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ میں بون میرو کے مکمل سلیل تبدیل کیے جاتے ہیں۔
* امیونوتھراپی میں بائیولوجیکل ادویات کے ذریعے مریض کی قوت مدافعت بڑھائی
جاتی ہے۔
|