بے لگام،بے ہنگم،اور بے سرو پا خواہشات کی زنجیروں میں
جکڑا ہوا انسان اگر اپنے شور و غوغہ اورفلک گیر آہ و فغان سے آسمان کو اپنے
سر پر اٹھا کر یہ اعلان کردے کہ اس کی کوئی امید بر نہیں آتی تو اس کی چیخ
و پکار اور دہائی کو بیک جنبشِ قلم مسترد کر دیا جانا چائیے کیونکہ امیدوں
کی کھیتی محض جذباتی نعروں، خواب آلود خواہشوں ،کھوکھلے دعووں اور منفی
اشاروں سے برو مندی کا پیکر زیبِ تن نہیں کرتی بلکہ یہ اعلی ترین فکر و عمل
کے جوہر سے ثمر بار ہوتی ہے۔کامیابی کی منزل اور امیدوں کا گلشن ایسے ہی
ہرا بھرا نہیں ہواکرتا ۔امیدوں کے بر آنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی
خاطر اس کائنات کے طے شدہ ضابطوں کی پیروی کی جائے اور متعین راستوں سے اس
کی آبیاری کی جائے۔ بقولِ اقبال ۔(نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگرکے بغیر۔،۔
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر) ۔یہ ایک ایسا حکیمانہ نسخہ ہے جو سدا
کامیابی کی راہیں کشادہ کرتا ہے ، حصولِ منزل کے جذبوں کی آبیاری کرتا ہے
اور جس کی بجا آوری سے ساری امیدیں بر آتی ہیں۔ایک غیر معمولی کیفیت جو
انسانی ہستی اور اس کی ذات کو بالکل نیا پیکر عطا کر دیتی ہے۔،۔
اگر کوئی انسان چاند کو اپنی آغو ش میں لینا چاہتا ہے، ستاروں کو اپنے
شانوں پر سجانا چاہتا ہے اور کہکشاں میں سجے رنگوں سے اپنے من کو منور کرنا
چاہتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ اس کا عزم بھی پہاڑو ں جیسا بلند و بالا
ہو۔پدرم سلطان بود جیسے فرسودہ نعروں اور عامیانہ سوچ کے دھاروں سے کوئی
بھی انسان عظیم انسانوں کی صف میں کبھی کھڑا نہیں ہو سکتا، نہ ہی عظمت و
پذیرائی کی مسند پر برا جمان ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی امیدوں کی شاخیں
پھول و پھل سے لد سکتی ہیں ۔امید وں کی کھیتی میں پہلے بیج بو کر محنت و
مشقت کا حرضِ جان بنا نا پڑتا ہے تو تب کہیں جا کر امیدوں کی کونپل پھوٹتی
ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ محنت کی عظمت کو اجاگر کرنے اور اس کی اہمیت کو
منوانے کے لئے شاعر کو کہنا پڑا ۔ (انہی پتھروں پہ چل کراگر آسکو تو آؤ ۔،۔
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے) ۔،۔
کامیابی کی پہلی سیڑھی محنت،لگن،جانفشانی اور جفا کشی ہے۔اس میں کوئی دو
رائے نہیں کہ انسان اپنی قوت ِ خوابیدہ سے ، دمِ عشق سے،زورِ خودی سے ،دنوں
کی تپش اور شبوں کے گداز سے کامیابیوں کی منازل طے کرلیتا ہے ۔اس میں اکثرو
بیشتر بے خانماں، محروم،خاک نشین اور گمنام خاندان کا فرد ہونا ان کی
کامرانی میں سدِ راہ نہیں ہوتا۔ایسے لوگ جن کا کسی افسانے میں ذکر تک نہیں
ہوتا، کامیابی و کامرانی کی فہرست میں ام و نشان نہیں ہوتا اور جو اہلِ
جہاں کی نگاہ میں کسی خصوصی توجہ اور عنائیت کے سزاوار نہیں ہوتے دیکھتے ہی
دیکھتے عظمت رفعت کی بلند یاں سمیٹ لیتے ہیں۔ (بقولِ فیض ؔ( وہ بات سارے
فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔،۔ وہی بات ان کو ناگوار کزری ہے ) جبکہ خوابِ
غفلت میں نعمائے زندگی کو ضائع کرنے والے دولتمند،نامی گرامی،مشہور و معروف
اور ہر دل عزیز خاندان کے افراد ناکامی و گمنامی کے گہرے غار میں گر جاتے
ہیں۔میں نے اپنی آنکھوں سے دولتمند خاندانوں کے افراد کو بے خانماں اور
رسوا ہوتے ہوئے دیکھا ہے کیونکہ وہ محنت کی بجائے خاندانی وجاہت سے تسخیرِ
دنیا کو ممکن بنانا چاہتے ہیں۔جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے ایک ضرب المثل ہی
نہیں بلکہ زندگی کا ایسا زریں درس ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔(کب تک
تعبیروں کی زد سے بچ نکلے گا ۔،۔ آؤ خواب تودیکھیں کوئی خواب تو سچ نکلے
گا) ۔،۔
ایک ایسا طالبعلم جوسالہا سال اپنی کتاب کو شجرِ ممنوعہ سمجھتا ہے اور اسے
کھول کر اس کی ورق گردانی کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے، کمرہِ امتحان میں اس
کی حالت اس نیم بسمل شکار جیسی ہوتی ہے جسے سرِ دار کھینچ دینے کا حکم صادر
ہو چکاہو ۔اپنی جہالت،غفلت ،بے توجیحی، کم مائیگی اور کم علمی کی وجہ سے
اسے کچھ ہوش نہیں ہوتا کہ اس نے کمرہِ امتحان میں اپنے پرچے پر کیا لکھنا
ہے ؟ایک مشہور و معروف حکائت ہے کہ ایک طالبعلم کو کمرہ ِ امتحان میں اس
موضو ع پر کہ( دنیا گول ہے) ا مضمون لکھنا تھا لیکن چونکہ اس کی پٹاری ہر
قسم کے علمی خزانے سے خالی تھی اس لئے اس نے فقط مشاہداتی دلیل دینے پر ہی
اکتفا کیا ۔ ( کوٹھے پر چڑھ کے دیکھو تو دنیا بھی گول ہے ) ۔ اب مہتمم کے
پاس ایسے طالبعلم کو اعلی نمبروں سے نوازنے کا کوئی جواز نہیں تھا لہذا اسے
بہ امرِمجبوری لکھنا پڑا۔ (پرچہ بھی پڑھ کے دیکھو انڈا بھی گول ہے )۔غیر
سنجیدہ عمل کا نتیجہ ہمیشہ غیر سنجیدہ ہی ہوا کرتا ہے۔طالبعلم کی امیدوں پر
اوس پڑنی تھی سو پڑ گئی کیونکہ اس نے اپنی امیدوں کے حصول کی خاطراپنے
قیمتی وقت کا ایک شمہ بھی دھان نہیں کیا تھا۔بقولِ اقبال (چنگ ہو یا و خشت
و سنگ رنگ ہو یا حرف و صوت ۔،۔معجزہِ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود) ۔ اب اگر
ایسا کاہل،سست اور نکما انسان اس بات کی شکائت کرے کہ اس کی کوئی امید بر
نہیں آتی تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔یاد رکھئے کہ حساس،
محنتی،ذمہ دار، کمٹڈ،کامیاب اور دھن کے پکے انسانوں کے پیرہن سے امیدوں کی
خوشبو اس طرح چمٹ جاتی ہے جیسے انسانی جسم کے اندر روح، لہذا ایسے انسان
اگر اپنا پیر ھن جھاڑ دیں تونہ صرف پوری کائنات کا دامن امیدوں سے بھر جائے
بلکہ ہماری کائنات ان کی امیدوں کی خوشبو سے معطربھی ہو جائے ۔کامیاب
انسانوں کی پوشاک پر سدا عظمت و وقار کے رنگ برنگے پھول مہکتے ہیں جو ماحول
کو دیدہ زیب اور دلکش بنا دیتے ہیں اور جن کی دلپذیر خوشبو سے صحنِ چمن مہک
جاتا ہے لہذا یہ کہنا کہ کوئی امید بر نہیں آتی محض ایک خام خیالی ہے ۔امید
بر آتی ہے لیکن ان کی جو وقت کی قدر کرتے ہیں اور امیدوں کو دل و جان سے
زیادہ عزیز رکھتے ہیں ۔صرف ایک قدم اٹھانے کی دیر ہوتی ہے منزل خود بخود چل
کر قدموں سے لپٹ جاتی ہے۔،۔
(تو اے اسیر مکاں لامکاں سے دور نہیں ۔،۔ وہ جلوہ گاہ تیرے خاکداں سے دور
نہیں
منزل تیری ہے ماہ و پرویں سے ذرا آگے ۔،۔ قدم اٹھا یہ مقام آسماں سے دور
نہیں)
ایک دوسرا مکتبِ ِ ِ فکر بھی ہے جو دعاؤں، مناجات،تعویزوں، جھاڑ
پھونک،ٹونوں اور پیروں فقیروں کے آستانوں پر حاضری سے اپنی قسمت کی لوح پر
کامیابی و کامرانی کی تحریریں کندہ کر نا چاہتا ہے جو کہ خود فریبی کے سوا
کچھ بھی نہیں ہوتا۔یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ انسان کسی عمل کے بغیر تاج
محل کا مالک بن جائے؟۔ اقبالؔ نے اسے نظامِ خانقاہی سے تعبیر کر کے رد کر
دیا تھا۔ اہلِ مغرب کے ہاں تو اس طرح کے خانقاہی نظام کا کوئی تصور نہیں ہے
اور نہ ہی انھیں پیروں فقیروں کی کرامات پر بھروسہ ہے لیکن اس کے باوجود
انسانی ایجادات میں انھیں ایک خاس مقام اور ملکہ حاصل ہے لہذا ثابت ہوا کہ
محنت اور علم ہی کامیابی کی کلید ہے ۔اہلِ خرد نے اپنی بصیرت ،علم ودانش
اور جہدِ مسلسل سے نوعِ انساں کو ایسی چمکدار، گھومتی،دلپذیر،دلکش اڑن
طشتری اور لاجواب سہولتوں سے مزین ایک پرکشش دنیا سے روشناس کر دیا ہے جو
پرانے زمانے کے شہنشاہوں اور بادشاہوں کو بھی میسر نہیں تھی ۔آج کاانسان
اپنی کامیابیوں پر خود بھی حیران و ششدر ہے لیکن اس کے باوجود یہی سچ ہے کہ
انسان کی ساری ترقی اس کی اپنی محنت کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔یاد رکھو تقدیر
کے پھندوں سے آزاد افراد ہی ایسا محیر العقول معجزہ سر انجام دے سکتے ہیں
۔بقولِ اقبال۔( تقدیر کے پابند نباتا ت و جمادات۔،۔مومن فقط احکامِ الہی کا
ہے پابند)۔،۔
|