غزوۂ احد کےایک سال بعد نبی ٔ کریم ﷺ کی قیادت میں منظم
ہوکر میدان عمل میں اترنے والے اہل ایمان کی بابت فرمانِ ربانی ہے :’’ آخر
کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر
بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی حاصل ہو گیا، اللہ بڑا
فضل فرمانے والا ہے‘‘۔ ابو سفیان نے میدانِ اُحد سے لوٹتے ہوئے آئندہ سال
بدر میں محاذ آرائی کا چیلنج دیا تھا لیکن مکّہ میں قحط کے سبب اپنے عہد
کونبھاتے ہوے میدان جنگ میں آنا دشوار ہوگیا ۔ اس رسوائی سے بچنے کے لیے
کفارِ مکہ نےایک جاسوس مدینہ بھیج کر مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی غرض سے یہ
الٹی افواہ پھیلا ئی کہ اس سال قریش کے لشکرجرار کا مقابلہ کرناان کے بس
میں نہیں ہے ۔ اس کے باوجود 15 سو مجاہدین اسلام آپﷺ کے ساتھ بد ر اخریٰ
کے لیےر وانہ ہوگئے۔ مسلمانوں کو روکنےکی سازش میں ناکامی کے بعد ابوسفیان
دوہزار کی جمعیت کے ساتھ نکلا مگر درمیان سے رسوا ہوکر لوٹ گیا۔ اس کے
برعکس نبیٔ کریمﷺ نےاپنا عہد کی پابندی کرکےزبردست اخلاقی فتح حاصل کی اور
غزوۂ احد کی شکست کے منفی اثرات کو زائل کردیا۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کے
لیے افواہیں پھیلا کر اپنی کمزوری اور خوف کی پردہ پوشی کرتےہیں ۔ ہری دوار
کی حالیہ دھرم سنسد اس کا نمونہ ہے۔ سنگھ پریوار جانتا ہے کہ وہ اسلامی
دعوت کا مقابلہ نہیں کرسکتا اس لیے اسلام کی مخالفت کرتا رہتا ہے ۔ صوبائی
انتخاب سے قبل سادھو سنتوں میں ریاستی حکومت کے تئیں پائی جانے والی ناراضی
کو کم کرنے کے لیے بھی مسلمانوں کےخلاف نفرت اس کی ضرورت تھی ۔ اپنی ان
کمزوریوں پر قابو پانے کی خاطر دھرم سنسد کے سادھو سنتوں کے ذریعہ سو لوگوں
کی مدد سے بیس لاکھ مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دلوائی گئی ۔ اس گیدڑ
بھپکی کا مقصد بھی ابوسفیان کی طرح مسلمانوں کو ڈرانا اور اپنی کمزوری کو
چھپانا تھا لیکن دونوں ناکام ہوے۔
سنگھ پریوار کی ناکامی کا پہلا سبب ملک بھر میں مسلمانوں کا پر امن احتجاج
تھاجس نے یہ ثابت کردیا کہ وہ خوفزدہ نہیں ہے۔ ان مظاہروں نے ساری دنیا کی
توجہ اس مسئلہ کی جانب مبذول کرائی ۔ قومی اور عالمی میڈیا میں اس پر شدید
ردعمل سامنے آیا ۔ ملک کی بدنامی ہونے لگی۔ وکلاء ، دانشوروں اور سابق
فوجی سربراہوں کی مخالفت نےسنسد کے حامیوں کو مدافعت میں ڈال دیا اور پھر
نہ صرف کئی ہندو سنتوں بلکہ وی ایچ پی کے علاوہ نائب صدر مملکت وینکیا
نائیڈواور مرکزی وزیر نتن گڈکری کو بھی اس سے دامن جھٹکنا پڑا۔ سپریم کورٹ
نے جب اس پر صوبائی حکومت سے جواب طلب کیا تو اسے مجبوراً فتنہ پرور لوگوں
کو گرفتار کرکے جیل بھیجنا پڑا ۔ اس کے نتیجے میں جس سنت سماج کو سرکار نے
اپنا آلۂ کار بنایا تھا وہی اس کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہوگیا اور
دشمن کی صفوں میں پھوٹ پڑگئی۔ اس طرح ایک نہایت خطرناک منصوبہ ملیا میٹ
ہوگیا اور انہیں لینے کے دینے پڑ گئے۔
دھرم سنسد کی ناکامی کا سب سے اہم سبب اہل ایما ن کا اپنا فرض منصبی ادا
کرنے کے لیے بے خوف وخطر میدان عمل میں آنا تھاحالانکہ بزدل مسلمان اس
دھمکی سے خوف و ہراس کا شکار ہوچکےتھے ۔ غزوہ ٔ احد کے بعد والے مماثل
حالات میں یہ رہنمائی دی گئی ہےکہ :’’اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل
شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا لہٰذا آئندہ تم
انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو‘‘۔ سوشیل
میڈیا کے اس دورِ پرفتن نے اس نصیحت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنادیا ہے
۔اس خوف و ہراس کے ماحول میں اللہ کی کتاب اہل ایمان کی حوصلہ افزائی اس
طرح کرتی ہے کہ :’’(اے پیغمبرؐ) جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر
رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ
سکیں گے اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور
بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے‘‘۔ کافروں کی ماننداگر مسلمانوں کی نظر
بھی دنیاوی شان و شوکت تک محدود ہوجائےتو دشمنانِ اسلام کے شور شرابے سے
مرعوب ہوکروہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن آخرت کی کامیابی میں یقین
رکھنے والے ہمیشہ ذات باری تعالیٰ سے پرا مید رہتے ہیں۔
|