#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالزُمر ، اٰیات 5 تا 7
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُرد زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
خلق
السمٰوٰت والارض
بالحق یکورالیل علی النہار
ویکورالنہار علی الیل وسخرالشمس
والقمر کل یجری لاجل مسمی الا ھوالعزیز
الغفار 5 خلقکم من نفس واحدة ثم جعل منہا
زوجھا وانزل لکم من الانعام ثمٰنیة ازواج یخلقکم فی
بطون امھٰتکم خلقا من بعد خلق فی ظلمٰت ثلٰث ذٰلکم اللہ
ربکم له الملک لاالٰه الّا ھوفانٰی تصرفون 6 ان تکفروفان اللہ غنی
عنکم ولایرضٰی لعباده الکفر وان تشکروا یرضه لکم ولاتزروازرة اخرٰی
ثم الٰی ربکم مرجعکم فینئکم بما کنتم تعملون انه علیم بذات الصدور 7
اللہ نے جس مقصد کی تعمیل و تکمیل کے لیۓ اہلِ زمین پر اپنی کتاب نازل کی
ہے اللہ نے اُسی مقصد کی تعمیل و تکمیل کے لیۓ ہی زمین و آسمان بناۓ ہیں
اور اللہ نے اپنی تدبیر سے زمین کو خلامیں اِس طرح چلایا ہوا ہے کہ وہ رات
کی تاریکی کو دن کی روشنی میں سمیٹ دیتا ہے اور دن کی روشنی کو رات کی
تاریکی میں لپیٹ دیتا ہے ، اُس لامحدُود قُدرتوں اور قُوتوں کے مالک نے
سُورج و چاند کو بھی اپنے حُکم کا اِس طرح پابند بنا رکھا ہے کہ وہ اپنے
یومِ تخلیق سے یومِ قیامت تک اپنے اپنے مُقررہ راستے پر اپنی اپنی منزل کی
طرف چلتے چلے جا رہے ہیں اور جس طرح اُس نے زمین و آسمان کو ایک مقصد کی
تعمیل و تکمیل کے لیۓ بنایا ہے اسی طرح اُس نے انسان کو بھی ایک مقصد کی
تعمیل و تکمیل کے لیۓ بنایا ہے اور اُس نے تُم کو اِس طرح بنایا اور بڑھایا
ہے کہ پہلے اُس نے ایک مُفرد مُؤنث خلیہ single femal sell بنایا ، پھر اُس
نے اُس مُجرد خلیۓ سے نر و مادہ کا ایک جوڑا بنایا اور پھر اُس نے نر و
مادہ کے اُس ایک جوڑے سے تُمہاری نسل کو بڑھایا ، پھر اُس نے تُمہارے اُس
انسانی جوڑے کی بود و باش کے لیۓ گاۓ بھینس ، بھیڑ بکری ، گھوڑے گدھے اور
خچر و اونٹ کے آٹھ جوڑے بناۓ اور پھر اُن آٹھ حیوانی جوڑوں کو تُمہاری نسل
کا تابع دار و خدمت گزار بنایا ، جب وہ تُمہاری ماؤں کے بطن و رحم اور اُس
رحم کی جِھلی کے تین تاریک پردوں میں تُمہارا وجُود بناتا ہے تو وہ تمہیں
ایک حالت و ہیت سے دُوسری حالت و ہیت میں لے جاتا ہے اور ایک مُدت کے بعد
تمہیں ایک جیتا جاگتا انسان بنا کر زمین پر لے آتا ہے تاکہ تُم اُس کا شکر
ادا کرو ، اِک ذرا سوچو تو سہی کہ تُم اپنے اُس خالق کی قُوت و قُدرت سے
پیدا ہونے کے بعد کہاں بہٹکتے پھر رہے ہو تاہم تُم چاہو تو اُس کا شکر کرو
اور چاہو تو اُس سے کفر کرتے رہو ، تُمہارے اِس عمل سے اُس کو کوئی بھی فرق
نہیں پڑتا لیکن اُس کو تُمہارا شکر بہر حال پسند اور تُمہارا کفر بہر طور
ناپسند ہے لہٰذا تُم میں سے جو بھی جس روز لوٹ پلٹ کر اُس کے سامنے جاۓ گا
اُس روز وہ آپ ہی اپنا بوجھ اُٹھاۓ گا اور اُس کا بوجھ کسی اور پر نہیں
ڈالا جاۓ گا اور اُس دن جب تُم اُس کے پاس جاؑ گے تو وہ تمہیں بتاۓ گا کہ
تُم دُنیا میں کیا کُچھ کر کے آۓ ہو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی پہلی چار اٰیات میں قُرآن کی اُس تنزیل کا ذکر کیا گیا تھا جس
تنزیل کا مقصد اہلِ زمین میں عقیدہِ توحید کی تعلیم و تکمیل تھا اور
موجُودہ اٰیات میں سے پہلی اٰیت میں ارض و سما کی تخلیق کا جو ذکر کیا گیا
ہے وہ بھی یہی بتانے کے لیۓ کیا گیا ہے کہ ارض و سما کی تخلیق کا مقصد بھی
اہلِ زمین میں توحید کی تعلیم و تکمیل ہے اور اٰیات بالا کی دُوسری اٰیت
میں انسانی تخلیق کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ ذکر بھی یہی بتانے کے لیۓ کیا
گیا ہے کہ زمین میں انسانی تخلیق کا مقصد بھی عقیدہِ توحید کی تعلیم و
تکمیل ہے اور اِن تینوں باتوں کا نتیجہِ مقصد یہ ہے کہ ارض و سما و اہلِ
ارض و سما اور اِن پر نازل ہونے والی کتابِ ھدٰی کی تنزیل کا واحد مقصد بھی
اسی توحید کی تعلم اور اسی توحید کی تکمیل ہے لیکن قُرآنِ کریم کے اِن تین
مضامین میں سے تیسرا مضمون بذاتِ خود اُس انسان کے بارے میں ہے جو اللہ
تعالٰی کی ذی شعور مخلق ہونے کے حوالے سے زمین پر عقیدہِ توحید پر ایمان
لانے ، اِس عقیدے کو اہلِ زمین میں پھیلانے ، زمین میں بڑھانے اور زمین میں
چلانے کا بھی تنہا ذمہ دار ہے اِس لیۓ انسان کی تخلیق کو پُوری وضاحت و
صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ زمین کے سینے پر رہنے اور آسمان کے ساۓ
تلے چلنے پھرنے والا یہ انسان یہ بات جان لے کہ زمین و آسمان تو محض اِس
انسان کی علمی و عملی تگ و دو کے لیۓ بناۓ گۓ ہیں جو اِن ارض و سما میں
رہنے والی واحد ذی شعور مخلوق ہونے کے باعث زمین و آسمان میں عقیدہِ توحید
کی تعلیم و تکمیل کا حقیقی ذمہ دار ہے اور انسان پر انسان کی اِس اہمیت و
اہلیت کو واضح کرنے کے لیۓ قُرآنِ کریم میں انسانی تخلیق کا وہ ذکر کیا گیا
ہے جو تخلیقِ ارض و سما کے ذکر سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے ، قُرآنِ کریم میں
انسان کے اِس تاریخی ذکر کا پہلا مقام سُورةالنساء کی اٰیت 1 ، دُوسرا مقام
سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 98 ، تیسرا مقام سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 189 ،
چوتھا مقام سُورَہِ لُقمان کی اٰیت 28 اور آخری مقام اِس سُورت کی یہی اٰیت
ہے جس میں انسان کو انسان کی اِس تاریخی تخلیق کے حوالے سے یہ اَمر یاد
دلایا گیا ہے کہ اِس مخلوق کو ہم نے اِس کے آغازِ تخلیق میں { نفسِ واحدة }
سے بنایا ہے ، اِس نفسِ واحدہ کی مکمل تفصیل ہم سُورَةُالنساء کے آغاز میں
بیان کر چکے ہیں اور اُس تفصیل کے حوالے سے یہاں پر صرف اتنا عرض کر دینا
ہی کافی ہو گا کہ قُرآنِ کریم کے اِن پانچ مقامات پر جس نفسِ واحدہ کا ذکر
کیا گیا ہے اُس میں لفظِ نفس موصوف اور واحدہ اُس موصوف کی ایک صفت ہے جو
مُؤنث ہے لیکن قدیم اساطیری کہانیوں میں چونکہ مرد کو بھی تخلیق کے اِس عمل
کا عامل تسلیم کیا گیا ہے اِس لیۓ اہلِ بائبل نے بائبل میں آدم کی پسلی سے
حوا کو نکال کر آدم کو انسانی تخلیق کا مردِ اَوّل اور حوا کو اُس کی نصف
بہتر بنا دیا ہے اور جب بائبل کی یہ اساطیری روایت مُسلم اہلِ روایت کے
ہاتھ لگی تو اُنہوں نے بھی اِس میں اپنے مزید روایتی بال و پر لگا کر مزید
سنسنی خیز بنا دیا جس کی وجہ سے حوا کے آدم کی پسلی سے نکلنے کی یہ روایت
مقبول عام ہو کر ایک قبولِ عام حاصل کر گئی ورنہ جہاں تک قُرآنِ کریم میں
بیان کی گئی اصل حقیقت کا تعلق ہے تو وہ اتنی ہی ہے جتنی ہم نے عرض کی ہے ،
قُرآن نے زمین و آسمان اور انسان کے اِس مقصدِ تخلیق کے ضمن میں انسان کو
عالَم میں ہونے والے عملِ طلوع و غروب کے اُس روز مرہ منظر کی طرف متوجہ
کرتے ہوۓ یہ باریک بات بھی بیان کی ہے کہ اللہ تعالٰی کس طرح دن کی روشنی
کو بتدریج سمیٹتے ہوۓ شب کی سیاہ چادر میں چُھپا لیتا ہے اور شب کی تاریکی
کو کس طرح بتدریج لپیٹتے ہوۓ دن کی سفید چادد میں چُھپا دیتا ہے اور یہ اُس
کے حیرت انگیز اعمال میں سے ایک چھوٹا سا حیرت انگیز عمل ہے جو پانچ اَرب
سال سے اسی ترتیب سے اِس طرح چل رہا ہے کہ دن کے جانے اور شب کے آنے یا شب
کے جانے اور دن کے آنے میں کبھی بھی کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے جو اُس کی اُس
عظمتِ شان کی نشان دہی کرتی ہے جو اُس کی توحید پر ہر روز آنے والی اور ہر
روز دیکھے جانے والی ایک عظیم الشان دلیل ہے !!
|