قانُونِ خود شناسی اور قانُونِ خُدا شناسی !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزُمر ، اٰیت 1 تا 4 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
تنزیل
الکتٰب من اللہ
العزیزالحکیم 1 انا
انزلناالیک الکتٰب بالحق
فاعبداللہ مُخلصاله الدین 2
الاللہ الدین الخالص والذین اتخذوا
من دونهٖ اولیاء مانعبدھم الّا لیقربونا الٰی اللہ
زلفٰی ان اللہ یحکم بینھم فی فیه یختلفون ان اللہ لا
یھدی من یضل من ھو کٰذب کفار 3 لواراداللہ ان یتخذ من
ولد الاصطفٰی مما یخلق مایشاء سبحٰنهٗ ھواللہ الواحد القھار 4
اے ہمارے رسُول ! ہم نے انسان کے لیۓ اپنے علمِ لامحدُود سے اپنے عالَمِ لامحدُود کی حقیقتوں اور صداقتوں سے آگاہ کرنے والی یہ کتاب اپنی لامحدُود قُوتوں اور قُدرتوں کو ظاہر کرنے کرنے کے لیۓ جس ترتیب سے مُرتب کی ہے اُسی ترتیب کے ساتھ آپ پر نازل کردی ہے تاکہ اِس ناقابلِ انکار حقیقت میں کوئی شک و شبہ نہ رہ جاۓ کہ انسانی ہدایت کے لیۓ اللہ کا یہی وہ حتمی و ختمی کتابی ضابطہِ حیات ہے جو ہم نے آپ پر اِس غرض سے نازل کیا ہے کہ آپ خود بھی اسی خالص کتاب کے خالص قانُونِ دین پر عمل کریں اور جُملہ اہلِ زمین کو بھی اسی خالص کے خالص قانُونِ دین پر عمل کرنے کی دعوت دیں اور زمین کے جو لوگ اِس خام خیالی میں مُبتلا ہو چکے ہیں کہ خالقِ عالَم کے اِس قانُونِ دین میں داخل ہونے سے پہلے یابعد اُنہوں نے مخلوق کے کسی فرد کی غلامی میں جانا ہے اور اُس فرد نے اُن کو اپنی کسی فضیلت سے خالقِ عالَم تک پُہنچانا ہے تو آپ اُن لوگوں پر ہمارے اِس قانُون دین کا یہ اَمر بھی واضح کردیں کہ خالقِ عالَم اپنے عالَم کے ہر ایک فرد کی فریاد وسطی وسیلے کے بغیر براہِ راست خود سُنتا ہے اور خود ہی اُس کی داد رسی اور فریاد رسی کرتا ہے اور جو لوگ اپنی داد فریاد کے درمیان اُس کی کسی مخلوق کو لاتے ہیں تو وہ اُس کی اُس مخلوق کو اُس کی قُوتوں اور قُدرتوں میں شریک کر کے اُس کی قُوتوں اور قُدرتوں کا انکار کرتے ہیں جبکہ اِس کتاب کا مقصدِ نزول ہی یہ ہے کہ زمین کے ہر ایک انسان کو اِس کتاب کے علمی و عملی اَحکام کے ذریعے زمین کی ہر ایک مخلوق کی غلامی سے نکال کر صرف اور صرف ایک خالقِ عالَم کے قانُونِ دین کی غلامی پر مُتفق و مُتحد کردیا جاۓ لیکن زمین کے جو لوگ بذاتِ خود اپنے ذاتی عزم و عمل اور اپنے ذاتی ارادہِ دل کے ساتھ اِس کتاب پر ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ اُن مُنکر اور مُکذب لوگوں کو زبر دستی اِس کتابِ ہدایت کی ہدایت کی طرف نہیں لاۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوعِ سُخن انسان کا خالص و بے خطر دین کو قبول کرنا اور اِس خالص و بے خطر دین کو قبول کرکے ایک خالص و بے خطر انسان ہو جانا ہے اور یہ وہ موضوعِ سُخن ہے جو اِس سُورت کے نام اور متنِ کلام دونوں میں موجُود ہے ، سُورت کے نام کے حوالے سے بات کی جاۓ تو سُورت کا نام زُمر ہے جو ایک اسمِ جمع ہے اور اِس اسم جمع زُمر کا معنٰی فوج در فوج بر وزنِ موجود در موج ہے اور اِس پر آنے والے حرفِ الف اور لام نے اِس کو معرفہ بنا دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اِس فوج در فوج کا اطلاق بھی اُسی ایک معنی پر ہوتا ہے جس کو اللہ تعالٰی نے بذات خود مُتعین کر دیا ہے اور اُس مُتعین معنی کی رُو سے فوج دَر فوج ہونے کا مفہوم ایک فوج کا دُوسری فوج کے مقابلے میں صف آرا ہونا نہیں ہے بلکہ ایک ایک فوج کا ایک ایک فوج کے بعد اِس طرح فوج در فوج ہو کر اُس کے سامنے ظاہر ہونا اور اُس کی طرف بڑھنا ہے کہ جس طرح سمندر کی ایک ایک موج کے بعد ایک ایک موج ساحل پر ظاہر ہوتی اور موج در موج ہو کر اِس طرح ساحلِ سمندر کی طرف بڑھتی ہے کہ جو انسان اُس سمندر کے گہرے پانیوں تک جانا چاہتا ہے تو وہ اُس کی آنے والی ایک ایک موج سے اُچھل اُچھل کر اُس گہرے سمندر کی اُس حد تک جاتا ہے جس حد تک وہ جا سکتا ہے ، اِس سُورت کے اِس نام سے انسان پر قُدرت کے اِس مقصد کو آشکار کرنا مطلوب ہے کہ اِس دُنیا میں انسان کی زندگی مسائل و مصائب کے ایک موج در موج سمندر کے درمیان گھری ہوئی ہے اور جس انسان کے پاس اِس سمندر کی اِن اَمواجِ حوادث سے گزرنے کی کوئی علمی و عملی تدبیر نہیں ہو گی وہ حالات و حوادث کے اِس سمندر میں ڈوب جاۓ گا ، جو انسان اٰیاتِ بالا کی اِس تفہیم تک پُہنچ جاتا ہے تو اُس کو سب سے پہلے اُس علمِ خود شناسی کی ضروت ہوتی ہے جس سے وہ یہ جان سکے کہ وہ اِس عالَم کے کس مقام پر اپنی مُفلسی و مُحتاجی کے کس مقام پر کھڑا ہے اور کس حال میں کھڑا ہے اور جب وہ خود شناسی کی اِس اسرار کو جان بھی جان جاتا ہے تو اِس کے بعد اُس کو اُس خدا شناسی کی ضرورت ہوتی ہے جو خُدا شناسی اُس کو یہ سمجھا دیتی ہے کہ حوادث کے جس طوفانی مقام پر موجُود ہے اِس طوفانی مقام پر اِس کی ناؤ کو وہ ناخدا نہیں بچا سکتا جس نے ڈُوبنی والی ناؤ کے ساتھ خود بھی ڈُوب جانا ہے بلکہ اِس مقام پر اِس کو اِس کا وہی خُدا بچا سکتا ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ کے لیۓ زندہ ہے اور جو خُدا اُس کا اور اِن طوفانوں اور سمندروں کا بھی خُدا ہے اور جب یہ بات انسان کی سمجھ میں آجاتی ہے تو اُس کو اُس علمی و عملی تدبیر کی ضروت پیش آتی ہے جو علمی و عملی تدبیر اُس کو حوادث کے اِس سمندر سے سلامتی کے ساتھ گزار سکتی ہے ، قُرآنِ کریم نے اِس { الزمر } کے حوادث سے گزرنے کے لیۓ جو علمی و عملی تدبیر پیش کی ہے اُس کا معروف نام { الدین } ہے اور الزُمر کی طرح اِس الدین کا بھی یہ مُتعین مفہوم ہے کہ اِس خاص دین سے مُراد دُنیا کا کوئی رائجِ زمانہ رواجی دین ہر گز نہیں ہے بلکہ اِس سے مُراد قُرآن کا وہ قُرآنی دین ہے جو اُس قُرآن میں درج ہے جو قُرآن محمد علیہ السلام پر نازل ہوا ہے اور جو قُرآن محمد علیہ السلام پر نازل ہوا ہے اُس قُرآن کے 62 مقامات پر اِس دین کا جن 62 حوالوں سے جو ذکر کیا گیا ہے اُن 62 حوالوں میں اِس سُورت کا یہ مقام وہ واحد مقام ہے جس مقام پر اِس دین کو { الدین الخالص } کہہ کر اِس کا یہ مفہوم مُتعین کیا گیا ہے کہ اِس خاص و خالص قانُون دین کو اختیار کرنے سے مُراد یہ ہے کہ جس انسان نے اِس دین و آئین کو اختیار کرنا ہے اُس نے زمین و اہلِ زمین کے ہر ایک دین و آئین کو ترک کرنا ہے کیونکہ حوادثاتِ حیات کے اِس سمندر میں بھی ایک ناخدا اور ایک نیّا کا یی ایک قانُون ایک قابلِ عمل ہے اِس لیۓ جو انسان اِس سمندر سے گزرنے کے لیۓ دو کشتیوں پر سوار ہو گا وہ لازما ڈوب جاۓ گا اور جو انسان دل کی سچائی کے ساتھ خدا کی نیّا کی طرف آۓ گا وہی انسان حوادثاتِ حیات کے اِس سمندر سے گزر پاۓ گا ، اِس سُورت کی اِن اٰیاتِ بالا میں { فاعبد } اور { نعبد } کے جو دو صیغے وار ہوۓ ہیں اُن دونوں صیغوں کا مصدر و مادہ { عبادة } ہے جو عربی رسم الخط میں حرفِ مُدورہ کی گول { ة } کے ساتھ اور اُردو طرزِ تحریر میں تاۓ تخت کی طرح کھینچ کر لکھا جاتا ہے ، اُردو زبان میں اِس کا معنٰی غلامی اور فارسی میں بندگی کیا جاتا ہے لیکن کلامِ عرب کے استعمال کی لحاظ سے عبد غلام کو ، عابد اُس غلام کے جاری عمل کو اور عباة اُس کے اُس جاری عمل کے مقصد کو کہا جاتا ہے جو مقصد اُس غلام کے ذہن میں اُس وقت موجُود ہوتا ہے جس وقت اُس مقصد کے تحت وہ غلام وہ کارِ غلامی کر رہا ہوتا ہے اور قُرآنِ کریم میں اِس لفظ کو جہاں بھی استعمال کیا ہے اسی مقصد کے لیۓ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی اللہ تعالٰی کے لیۓ حُکم کے مطابق اُس کے اُس قانُون کی غلامانہ اطاعت کرنا ہے جس حاکمانہ قانُون کا نام قُرآن ہے ، عبد کی اِس تعریف کی رُو سے جو انسان جس مقصد کے لیۓ جو کام کرتا ہے وہ اُس مقصد کا غلام ہوتا ہے اور عبد اور کارِ عبد کی اِس تعریف کی رُو سے جو انسان روزی روٹی کے لیۓ وہ غلامی کر رہا ہوتا ہے وہ اپنی اُسی روزی روٹی کا غلام ہوتا ہے ، جو انسان اقتدار و اختیار کے لیۓ وہ کر رہا ہوتا ہے وہ اپنے اُسی اقتدار و اختیار کا غلام ہوتا ہے اور جو انسان اللہ تعالٰی کا جس حُکم کے تحت اللہ تعالٰی کے جس حُکم پر عمل کرتا ہے وہ اُس حُکم کا غلام ہے ہوتا ہے اور اللہ تعالٰی کے اُس حُکم پر اپنے اُس عمل کے حوالے سے اللہ تعالٰی کا غلام ہوتا ہے ، نتیجہِ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا حُکم نامہ صرف قُرآن ہے اِس لیۓ ہر انسان قُرآن کا وہ غلام ہے جس نے زندگی کے کسی موڑ اور کسی مرحلے میں اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ اور اُس کے دیۓ ہوۓ اَحکامِ حیات کے ساتھ مخلوق میں سے کی کسی ذات کو اور مخلوق کے لیۓ مخلوق کے بناۓ ہوۓ کسی قانُونِ حیات کو کبھی بھی شریک نہیں کرنا ہے ، اللہ تعالٰی کے اسی قانُون کا نام { الدین الخالص } اور اسی خالص قانُون کی خالص اطاعت اللہ تعالٰی کی عبادت و بندگی ہے اور اٰیاتِ بالا کے آخری حصے میں اللہ تعالٰی کی اُسی توحید کا ذکر کیا گیا ہے جس توحید کے بغیر انسان کا ہر ایک عقیدہ و عمل ایک کارِ بے کار اور ایک عملِ ناخوش گوار ہوتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558094 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More