خوف زدہ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریر: ذوالفقار علی بخاری
”کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا ہے تو کیوں لے کر جانا چاہتے ہیں“۔ شاہ زیب نے اپنے ابو سے کہا۔ ”دیکھو! بیٹا آپ کے دادا جان کی تدفین کرنی ہے۔آپ کو ساتھ لے کرجانا ہے“۔ شاہ زیب کے ابو نے اُس کی بات سن کر جواب دیا۔ ”جو بھی ہو، میں نے کہہ دیا کہ نہیں جانا، تو پھر نہیں جانا“۔ شاہ زیب نے اپنی ضدایک بار پھر منوا لی تھی۔ اُس کے ابو نے اُسے گھر میں ہی رہنے دیا اور خود اہل محلہ کے ساتھ قبرستان آگئے۔
٭٭٭٭٭ ”اس شاہ زیب کا کچھ کرنا پڑے گا“۔ شاہ نواز صاحب نے اپنی بیگم سے کہا۔ ”ابھی چھوٹا ہے، سمجھ جائے گا؟“۔ شاہ زیب کی امی نے جواب دیا۔ ”میں اس کی بڑھتی ہوئی ضد سے تنگ ہوں“۔ شاہ نواز صاحب نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ”اس کو پیار سے سمجھائیں،آپ بھی تو ہمیشہ غصے کی حالت میں بات کرتے ہیں،بچہ ہے نا سمجھ ہے، وقت کے ساتھ سمجھ ہی جائے گا“۔ شاہ زیب کی امی نے کہا۔ شاہ نواز صاحب نے بات سن کر سر ہلا کر تائید کی اور پھر اخبار کے مطالعے میں مشغول ہو گئے۔
٭٭٭٭٭ شاہ زیب اب آٹھویں جماعت میں آچکا تھا مگر اُس میں ایک ڈر پیدا ہو چکا تھا کہ اُسے لگتا تھا کہ اگر وہ قبرستان جائے گا تو کوئی نہ کوئی مردہ اُٹھ کر سامنے آجائے گا۔
دراصل اُس نے کچھ دن پہلے بہت سی ایسی فلمیں دیکھی تھیں جن میں ایسا ہوتا دکھائی دیا تھا جس کی وجہ سے اُس کے سر پر یہ سب سوا ر ہو گیا تھا۔اسی وجہ سے اب اپنے پیارے دادا جان کی تدفین کے لئے بھی قبرستان جانے سے ڈر رہا تھا کہ کہیں حقیقت میں ایسا نہ ہو جائے۔
شاہ نواز صاحب ایک دن ماہر نفسیات عائشہ ایوب کے پاس گئے اور اُن کو شاہ زیب کی تفصیلات بتا کر رہنمائی لی کہ کس طرح سے اُس کے ڈر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے اُس کو سمجھانے کے بہت سے طریقے بتائے۔جس کے بعد شاہ نواز صاحب پراُمید تھے کہ وہ اس کا یہ ڈر ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
٭٭٭٭٭ ”آج میں بھی آ پ کے ساتھ فلم دیکھوں گا“۔ شاہ نواز صاحب نے کیا۔ ”کیا واقعی“۔ شاہ زیب حیرت میں آگیا تھا۔ شاہ نواز صاحب اور شاہ زیب نے فلم دیکھنی شروع کی تو انہو ں نے اُس کو مختلف باتوں میں الجھا لیا۔ شاہ زیب اب پہلے سے کم خوف زدہ خود کو محسوس کر رہا تھا۔اُس کو سمجھ آرہی تھی کہ فلم میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ حقیقت سے برعکس ہوتا ہے۔
یہی بات جب شاہ زیب نے اپنے والدسے کہی تو انہوں نے دادا جی کی قبر فاتحہ پڑھنے کی بات کی تو وہ فوری طور پر تیار ہو گیا۔آخر وہ کیوں نہ جاتا، اُسے اپنے دادا ظہور احمد سے بے پناہ پیار جو تھا۔ پہلی بار شاہ زیب نے حوصلے کے ساتھ قبرستان میں قدم رکھا تھا۔ اُس کو یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ ڈرکو جتنا سر پر سوار کیا جائے وہ اتنا ہی مسائل کھڑے کرتا ہے۔ڈر تب دور ہوتا ہے جب ڈر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس سے کہا جائے کہ ہم آپ سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ شاہ زیب آج بہت خوش تھا،اُس نے وعدہ کرلیا تھا کہ اب وہ ہر جمعرات کو قبرستان دادا جی کی قبر پر فاتحہ کرنے آئے گا،اُس کا خوف اب دور ہو چکا تھا۔
۔ختم شد۔
(یہ کہانی سہ ماہی ادبیات اطفال، اسلام آباد کے 17ویں شمارے اپریل تاجون2021 میں شائع ہوئی)۔ |