کھیلوں کا ایک ہزارسہولیات منصوبہ ' تعیناتیاں ابھی تک نہیں ہوئی لیکن!

حیران کن اور مزے کی بات یہ ہے کہ 1329 ملین کی منظور شدہ سکیموں میں 217 سکیمیں پانچ سال میں مکمل ہونی تھی تاہم سال 2019سے لیکر سال 2022 تک 582 ملین روپے کی اب تک 116 منصوبے مکمل ہو چکے ہیںجن میں زیادہ تر منصوبوں کی نگرانی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے انجنیئرنگ ونگ کے افراد نے کی ہے تاھم اسسٹنٹ انجنیئرز کی سیٹوں پر اب بھی کچھ لوگ تعینات ہیں جن کے بارے میں معلومات کسی کے پاس نہیں کہ انہیں کس بنیاد پر لیا گیا اور کن لوگوں نے ان کی اپرول دی اور اب بھی وہاں پر کام کررہے ہیں.اور اس بارے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ خاموشی کا شکار ہیں.

وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان کی وزارت کھیل میں کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات کیلئے سال 2019 میں شروع کئے جانیوالے منصوبے میں کم و بیش دو سال رہ گئے ہیں مگر ابھی تک اس کیلئے کوئی باقاعدہ سٹاف نہیں لیا گیا اور5500 ملین کے اس منصوبے کو پشتو زبان کے بقول "پہ توکانڑو پکوڑے پخول" والا کام چلایا جارہاہے صوبے کے پینتیس اضلاع بشمول نئے ضم ہونیوالے اضلاع میں تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کیلئے شروع کیا جانے والا منصوبہ 2019 سے 2023 تک کیلئے ہے اور اس کا بنیادی مقصد کھیلوں کے کلچر کو فروغ دینا ہے اور نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو موقع دینا اور نکھارنا شامل ہے تاکہ وہ مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب ہوسکیں اور منفی سرگرمیوں سے بچ سکیں.

کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبے میں سنتھیٹک کورٹ ' فٹ بال گرائونڈز ' سکواش کورٹ ' جمنازیم ہال ' واکنگ ٹریک سمیت آرچری کیلئے رینج بھی بنانی تھی تاہم سال 2019 سے لیکر اب تک اس منصوبے میں تیر اندازی کے کھیل جس کے کھلاڑیوں نے قومی کھیلو ں میں نمایاں پوزیشن حاصل کی تھی ابھی تک کوئی رینج ' گرائونڈ نہیں بنا سکی ہیں جبکہ سنتھیٹک کورٹ جن میں بعض اہم سرکاری عمارات میں بنائی گئی ہیں وہ معیاری جبکہ پشاور سپورٹس ڈائریکٹریٹ ہیڈ کوارٹر میں بنائے جانیوالے سنتھیٹک کورٹ انتہائی غیر معیاری ہے جس کی جانب ابھی تک سیکرٹری سپورٹس سے لیکر ڈی جی سپورٹس اور وزارت کے انچارج وزیر محمود خان نے بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ عوام کے ٹیکسوں سے بننے والے اس سنتھیٹک کورٹ کا حال تین ماہ میں کیوں ایسا ہوا ہے کہ کھیلنے کے قابل نہیںاور جگہ جگہ پر ببل بننے جارہے ہیں.یہی صورتحال حیات آباد میں بننے والے واکنگ ٹریک کی بھی ہے جہا ں پر لگنے والے ٹریک کو "اب ٹاکیاں پر ٹاکیاں"ڈال کر چھپانے کی کوشش کی جارہی ہیں لیکن پرسان حال کوئی نہیںاور یہ سب کھیل صوبے کی چیف ایگزیکٹو کی اپنی وزارت میں ہورہا ہے.

سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اس منصوبے میں وفاق کے زیر انتظام اادارے سے پراجیکٹ ڈائریکٹر لایا گیا تھا اسی طرح بعض ڈیپارٹمنٹ سے اہلکاروں کو جمع کرکے کام چلانے کی کوشش کی گئی حتی کہ ایک سابق سیکرٹری کے من پسند شخصیت کو تین عہدے دئیے گئے تھے اور اسی بناء پر انہیں گاڑی و رہائش گاہ بھی دیدی گئی جو ان کیساتھ پہلی والی وزارت سے آئے تھے اور ان کے جانے کے بعد سب کچھ چھوڑ کر انہی کے ساتھ چلے گئے.اور یوں تین عہدے ایک ہی پراجیکٹ میں خالی ہوگئے.

وزیراعلی خیبر پختونخوا ہ کی وزارت میں شروع کئے جانیوالے سپورٹس پراجیکٹ میںپراجیکٹ ڈائریکٹر انیس گریڈ کے ایک ' دو ڈپٹی ڈائریکٹر گریڈ اٹھارہ کے ' ایم آئی ایس سپیشلسٹ اٹھارہ گریڈ کے ایک اور آ ئی ٹی ' جی آئی ایس سپیشلسٹ اٹھارہ گریڈ کے ایک اسی طرح گریڈ سترہ کے دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز ' گریڈ سترہ کے اسسٹنٹ انجنیئرز سات ' آفس اسسٹنٹ ایک ' ڈرائیور بارہ اور سویپر ایک لینے تھے تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ پراجیکٹ ڈائریکٹر سمیت ڈپٹی ڈائریکٹر بھی ڈیپوٹیشن پر لا کر چلے گئے ہیں آئی ٹی اور جی آئی ایس سپیشلسٹ ڈیپوٹیشن بنیادوں پر تعینات ہیں. اسی پراجیکٹ میں اب دو ڈپٹی ڈائریکٹرز ' ایک پراجیکٹ ڈائریکٹر ' ایم آئی ایس سپیشلسٹ اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر سمیت گریڈ سترہ کے سات اسسٹنٹ انجنیئرز کی آسامیاں اب بھی خالی ہیں.اور یہ کیس ابھی سیکرٹری سپورٹس کے دفتر میں پڑا ہے
حیران کن اور مزے کی بات یہ ہے کہ 1329 ملین کی منظور شدہ سکیموں میں 217 سکیمیں پانچ سال میں مکمل ہونی تھی تاہم سال 2019سے لیکر سال 2022 تک 582 ملین روپے کی اب تک 116 منصوبے مکمل ہو چکے ہیںجن میں زیادہ تر منصوبوں کی نگرانی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے انجنیئرنگ ونگ کے افراد نے کی ہے تاھم اسسٹنٹ انجنیئرز کی سیٹوں پر اب بھی کچھ لوگ تعینات ہیں جن کے بارے میں معلومات کسی کے پاس نہیں کہ انہیں کس بنیاد پر لیا گیا اور کن لوگوں نے ان کی اپرول دی اور اب بھی وہاں پر کام کررہے ہیں.اور اس بارے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ خاموشی کا شکار ہیں.
سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ سال 2019-20 میں کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبے کیلئے 277 ملین کی رقم جاری کی گئی جو تمام استعمال ہوئی سال 2020-21 میں 331.802 ملین کی فنڈز ریلیز کئے گئے جبکہ سال 2021-22 میں 135 ملین روپے کے فنڈز جاری کئے گئے جو کہ تقریبا 743.802 ملین روپے بنتی ہیں لیکن ان تمام اخراجات کے باوجود صرف ایبٹ آباد کے مختلف علاقوں میں سات کے قریب اوپن ایئر جیم بنائے گئے جو کاغذات میں مکمل کی فہرست میں شامل ہیں لیکن حقیقت میں کتنے رہ گئے ہیں یہ وہ سوال ہیں جو وزیراعلی سمیت ' اپوزیشن ممبران ' تحقیقاتی اداروں اور نیب کو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صورتحال واضح ہوسکے.

صوبائی وزارت کھیل کے زیر انتظام اس منصوبے میں دس گاڑیاں لی گئی تھی جبکہ کاغذات میں بارہ ڈرائیور ہی لینے تھے تاہم چھ گاڑیوں کیساتھ چھ ڈرائیور تو لئے گئے مگر چار ڈرائیور نہیں تھے یہ چار گاڑیاں کس کے زیر استعمال تھی اور کب تک رہی یہ سوال ابھی تک تشنہ ہی ہے ساتھ میں یہ بھی کہ پراجیکٹ کیلئے لی جانیوالی گاڑیاں اب کہاں پر ہیں. اور یہ کب تک کس کے زیر استعمال تھی.سال2019-20 اور سال 2020-21 میں ان دس گاڑیوں نے بیس لاکھ روپے کا فیول اڑایا.یعنی چھتیس ماہ میں ہر ماہ کم و بیش پچپن ہزار روپے کا فیول ایک گاڑی نے استعمال کیا یہ دس گاڑیاں کہاں پر استعمال ہوئی یہ سوال بھی تشنہ ہی ہے. اسی طرح اس منصوبے جس کا بیشتر سٹاپ ایڈہاک بنیادوں پر لیا گیا تھا نے سال 2019 سے لیکر 2021 تک تنخواہوں کی مد میں ایک کروڑ بائیس لاکھ پچپن ہزار تین سو پچیس روپے صوبائی وزارت سپورٹس سے حاصل کئے جبکہ ٹی اے ڈی اے کی مد میں صوبائی وزیر اعلی محمود کی وزارت کے پراجیکٹ نے سترہ لاکھ اٹھاون ہزار چھ سو بہتر روپے وصول کئے.

کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبے کیلئے ابھی تک فنڈز صوبائی حکومت نے روک دیا ہے اور اب کہا جارہا ہے کہ تحصیل سطح پر منصوبوں کو مکمل کیا جائیگا لیکن یہ کب ہوگا ' اس کا ابھی تک کسی کو پتہ بھی نہیں.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497623 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More