لتا منگیشکر کا یہ گانا سنیں تو سہی
(Munir Bin Bashir, Karachi)
|
بڑے لوگوں کی زندگی کے آخری ایام کامیابیوں اور کامرانیوں کے باوجود افسردگی کے احساس کےساتھ کیوں گزرتے ہیں ؟ میں اس سوال پر جتنا غور کرتا ہوں اتنا ہی گمبھیر سوچوں میں گم ہو جاتا ہوں - شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہوں---- بہت کچھ بتانا چاہتے ہوں لیکن رسم و رواج کے قدغن ، مذہب کی باریکیاں ، لوگوں کے روئیے اور ان کے منجمد ذہن درمیان میں حائل ہو جاتے ہوں اور وہ دل مسوس کر رہ جاتے ہوں - ----------------------------- بھارت میں رہائش پذیر نوبل انعام یافتہ مادام ٹریسا نے بھی تو آخری ایام میں کچھ ایسا ہی کہا تھا - " میرا ایقان اور ایمان کہاں چلے گئے ہیں؟-میں اپنے اندر جھانکتی ہوں تو کچھ نظر نہیں آتا سوائے تاریکی کے - ایسا لگتا ہے ہر شے مرگئی ہو -کوئی محبت زندہ نہیں رہی -کوئی اعتقاد بھروسہ قائم نہیں رہا -تاریکی مجھے چاروں طرف سے گھیرتی جارہی ہے -کوئی جذبہ ،کوئی روشنی کی کرن میری روح میں موجود نہیں -ایک نامعلوم خلش ہے -نہ جانے کتنا عرصہ جاری رہے گی اور اذیت دیتی رہے گی -اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے کوئی ایسا آئے -کوئی ایسا تصور جنم لے کہ روح کو تازگی ملے - میں نے یہ جد جہد کس لئے کی اور کس کے لئے کی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار لتا منگیشکر نے ایک مرتبہ کیا تھا - اپنی عمر کے اسی سال مکمل ہونے کے موقع پر ٹائمز آف انڈیا دہلی (30 ستمبر 2007 ) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے جو چاہا انہیں نہیں ملا - خواب پورے نہیں ہوئے - انٹرویو کے مطابق لتا منگیشکر تمام کامیابیوں کے باوجود افسردگی کے عالم میں جی رہی ہیں - اخبار نے ان سے پوچھا کہ عمر کے اس حصے میں ان کی آخری خواہش کیا ہوگی تو لتا نے کہا کہ میں اس دنیا کو چھوڑ دوں دنیا نیوز کے ٹی وی پروگرام میں کامران شاید کو انٹرویو دیتے ہوئے لتا منگیشکر نے کہا تھا ( 23 دسمبر 2012)کہ وہ ہر مذہب کی عزت کرتی ہیں اور ہر بھگوان کو مانتی ہیں اور یہی بات ذہن میں رکھ کر انہوں نے اپنی مقبول نعت رسول مقبول پڑھی تھی "بے کس پر کرم کیجئے سرکار مدینہ ---- گردش میں ہے تقدیر بھنور میں ہے سفینہ " لتا منگیشکر نے کامران شاید کو اپنی عبادت کا کمرہ بھی دکھایا جہاں وہ پوجا پاٹ کیا کرتی تھیں - وہ اپنے دور کی تمام اداکاراؤںاور گلو کاراؤں کی تعریف کیا کرتی تھیں - دو سال پہلے اپنی 91 ویں سالگرہ پرایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ نورجہاں ' شمشاد بیگم ' گیتا دت 'آ شا بھوسلے - ہر اداکارہ نے اپنے فن سے انصاف کیا ہے - مدھو بالا سے مینا کماری تک --- لیکن نوتن کو نہیں بھول سکتی کیونکہ وہ گلو کارہ بھی تھیں - اخبار نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے گانے سنتی ہیں تو نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں جب اپنے گانے سنتی ہوں تو اس میں کئی خامیاں پاتی ہوں اس لئے نہیںسنتی " اپنی ہی تخلیقات سے یہ رویہ میں ہر اچھے فنکار میں محسوس کرتا ہوں چاہے وہ مصور ہو یا خطاط -- شاعر ہو یا ادیب -- سنگ تراش ہو یا گلو کار ان کے مقبول ترین نغمات کی فہرست مرتب کرنا بہت ہی مشکل کام ہے بلکہ ناممکن ہے کیوں کہ ہر گانا دوسرے سے اعلیٰ لگتا ہے - ایک نغمہ ہے “دغا دغا وئی وئی وئی دے “ کیا خوب گائیکی ہے -ایسے لگتا ہے صوبہ پختونخوا کی کوئی فنکارہ ہے اور اسی لہجے میں گارہی ہے - انا میکا میں ان کا گانا "بانہوں میں چلے آؤ " ایک مشکل گانا تھا - آواز میں اتار چڑھاو --پھر یک لخت طویل کھینچاؤ اور اس کے بعد وقفہ دینا آسان نہیں تھا -یہ ان کے گلے کا ہی کمال اور طویل مشق تھی جسکے سبب یہ کامیاب نغمے کی صورت فضا میں ابھرا اور سننے والے اب بھی عش عش کرتے ہیں - لتا منگیشکر نے بھی اس گانے کے لئے اچھے الفاظ کہے تھے - لیکن جب لتا منگیشکر سے پوچھا گیا کہ وہ کون سا گانا تھا جس نے ان کا اونچا مقام بنایا تو انہوں کہا کہ "آئے گا -- آئے گا -- ائے گا آنے والا آئے گا " لتا منگیشکر نے اس پر روشنی نہیں ڈالی کہ اس گانے نے انہیں کیوں کر اونچا مقام دیا اور انٹرویو لینے والے نے بھی اس کا سبب نہیں پوچھا - ایک سبب اس گانے کی 'اٹھان' بھی ہو سکتا ہے کہ جہاں ایک عام سامع سمجھتا ہے کہ اب اصل گانا شروع ہو گا وہاں اصل گانا نہیں شروع ہوتا بلکہ کافی دیر بعد اصل گانا شروع ہوتا ہے اور تب سامع کو پتہ چلتا ہے کہ یہی سے آغاز ہو نا چاہیئے تھا - بہر حال اس پر موسیقی کے ماہر ہی بات کر سکتے ہیں ہم جیسے ہمہ شمہ نہیں - یا یہ بھی ہو سکتا ہو کہ اس زمانے میں کچھ ایسے حالات ہوں جس میں اس گانے کے سبب حالات کی زنجیر ٹوٹ گئی ہو
ایک اور گانا جس کے بارے میں لتا منگیشکر کی دلی خواہش تھی کہ نور جہاں بھی وہ گانا گائیں اور انہوں نے اس کا برملا اظہار بھی نورجہاں سے لندن کی ایک ملاقات میں کیا تھا - گانا ہے "اے دل ناداں --- آرزو کیا ہے ؟--جستجو کیا ہے؟ " اسے موسیقار خیام نے لاجواب موسیقی سے امر بنانے کی کوشش کی ہے تو لتا منگیشکر نے اسے مہارت سے گا کر امر بنادیا ہے - اس میں پاکستان اور بھارت کی عوام کو ایک نصیحت کی جارہی ہے - ایک سبق دیا جارہا ہے اگر وہ لینا چاہیں تو - اس کے بول ہیں جان نثار اختر کے - آج کے دور میں پرنٹ میڈ یا پر جدید صوتی و بصری میڈیا حاوی ہو رہا ہے سو ایسے میں یہ درس اپنی آواز کے ذریعے لتا نے پھیلانے کی سعی کی ہے - نہ صرف بھارت میں بلکہ سرحد کی لکیر کے اس پار پاکستان کے باشندوں میں بھی -- غالباً یہی سبب ہے کہ وہ چاہتی تھیں کہ نور جہاں بھی یہ گانا گائیں- سبق یہ ہے کہ ہمیںاپنی راہوں کا تعین کرنا چاہیے - ہمارے دل میں تمنائیں اور آشائیں ہیں - ان کو پانے کے راستے بھی ہیں -لیکن ہم غلط راستوں پر تلاش (جستجو ) کر رہےہیں - اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم مارے مارے بھٹک رہے ہیں -مزیدالجھنوں کا شکارہو رہے ہیں - مصیبتیں بڑھتی جارہی ہیں اور ہم حیران ہیں کہ ہم کامیابی سے کیوں نہیں کنار ہو رہے؟ اور پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم نے بے جا قسم کی آرزؤئیں پال رکھی ہیں اور اس سبب سے بھی پریشان ہیں -ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی حیثیت پہچانیں - اب جبکہ چاروں ہستیاں -- نور جہاں - لتا منگیشکر -- محمد ظہور خیام - جان نثار اختر ہم میں موجود نہیں ہیں ہمیں چاہئے کہ ان کے دئے ہوئے سبق کا جائزہ لیں اور اپنی راہوں کا تعین کریں - ہم میں صرف بھارت اور پاکستان کی عوام الناس ہی نہیں بلکہ رہنمائی کرنے والے واعظ اور لیڈر بھی اس میں شامل ہیں - لتا منگیشکر کا یہ گانا سنیں تو سہی -ہم نہیں گا سکتے لیکن سن کر سبق تو حاصل کرسکتے ہیں - اے دل ناداں آرزو کیا ہے -جستجو کیا ہے ؟ ہم بھٹکتے ہیں ---کیوں بھٹکتے ہیں ؟ دشت و صحرا میں ایسا لگتا ہے موج پیاسی ہے اپنے دریا میں کیسی الجھن ہے --کیوں یہ الجھن ہے ؟ اک سایہ سا روبرو کیا ہے ؟ کیا قیامت ہے ؟ کیا مصیبت ہے ؟ کہہ نہیں سکتے ۔۔۔۔۔ کس کا ارماں ہے زندگی جیسے ۔۔۔۔۔ کھوئی کھوئی ہے حیراں حیراں ہے یہ زمیں چُپ ہے آسماں چُپ ہے پھِر یہ دھڑکن سی ۔۔۔۔۔ چار سُو کیا ہے اے دِل ناداں ایسی راہوں میں ۔۔۔۔۔ کتنے کانٹے ہیں آرزوؤں نے ۔۔۔۔ ہر کسی دل کو ۔۔۔۔۔ درد بانٹے ہیں کتنے گھائل ہیں کتنے بسمل ہیں اِس خُدائی میں ایک تُو کیا ہے
|