وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل

پارہ صفت انسانوں کی ایک ناقابلِ بیان بیقراری ہے جو دیوانوں کی اس درد آشنا کھیپ کو ہر آن کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے عمل سے گزارتی رہتی ہے۔خودی کے رازدانوں کا ایک قبیلہ ہے جوانسانی عظمت کی خاطر سینہ سپر ہے ، جنونیوں کا ایک قافلہ ہے جو اس کرہِ ارض پر اپنی عظمت کے نشان کندہ کرنے پر بضد ہے۔ان کے اندر ایک جو ش و ولولہ اور جذبہ و انہماک ہے جو انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔انسانی خدمت کے اعلی و ارفع جذبوں سے لبریز یہ گروہ پل پل بد لتی اس دنیا میں عقل و دانش کے پھول کھلانا چاہتا ہے۔اپنی بصیرت سے اسے تسخیر کا جامہ پہنانا چاہتا ہے۔بے چین روحوں کا ایک سلسلہ ہے جو اس کرہِ ارض کی جدید شیرازہ بندی کرنا چاہتا ہے ۔وہ خدائی عطا کو اس کی پوری تابانیوں کے ساتھ رونمائی عطا کرنا چاہتا ہے۔وہ اس کرہِ ارض کو انسانی عظمت کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے۔ایسے با صفا انسانوں پر ناممکنات کو ممکنات میں بدلنے کی دھن سوار رہتی ہے۔اقبال نے ایسے ہی انسانوں کے بارے میں کہا تھا۔ (عبث ہے شکوہِ تقدیرِ یزداں ۔،۔ تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے) ۔یہ مست لوگ اپنی لیبارٹیوں میں محوِ عمل رہتے ہیں۔ان کے لئے ان کی لیبارٹریاں ان کی زندگی ہوتی ہیں ۔وہ اپنے اہد اف میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ انھیں کسی دوسری شہ کا ہوش نہیں ہوتا۔جس انسان کا کوئی ہدف نہ ہو وہ آئیں بائیں شائیں کرتا ہے لیکن وہ انسان جن کے سینے میں انسانیت کا دل دھڑکتا ہے انھیں دوسروں کو برا بھلا کہنے کی فرصت کہاں ملتی ہے ۔وہ تجربات کی کٹھالیوں سے گزرتے ہیں ،نئے نئے تجربات کی دنیا سجاتے ہیں ،انسانیت کی فلا ح و بہبود اور سہولت کیلئے دنیا و ما فیہا کے گورکھ دھندوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔ان کی نظر صرف اس ایک نقطہ پر مرکوز ہو جاتی ہے کہ انھیں انسانیت کی عظمت و بزرگی کو مزید تابندگی بخشنی ہے لہذا وہ انسانی خدمت کے عظیم مشن اور فرمانِ الہی کی حقیقی تعبیر میں جٹ جاتے ہیں ۔وہ ایک ایسی عبادت میں مگن ہو جاتے ہیں جس میں خود سپردگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا،ان کی لیباٹریاں ان کے لئے مقامِ عبادتِ الہی کا مقام رکھتی ہیں کیونکہ وہ انسانی خدمت کو ہدف بنائے ہوتے ہیں ۔ان کی عبادت کسی مخصوص چار دیواری کی مرہونِ منت نہیں ہوتی کیونکہ ان کا دل ہی خالقِ کائنات کے ضابطوں اور احکامات کا محور ہو تا ہے۔بقولِ اقبال ۔ (بر تر از اندیشہ ِ سودو زیاں ہے زندگی۔۔ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی)۔،۔(اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے ۔،۔ سرِ آدم ہے ،ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی)
ایسے افراد چونکہ انسانیت کی آزادی اور فطرت کے قوانین کو طشت از بام کرنے کے دعویدار ہوتے ہیں لہذا انھیں ریاستی جبر کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔وہ زندانوں سے گزرتے ہیں، سزاؤں کا سامنا کرتے ہیں،جبر و کراہ کو جھیلتے ہیں لیکن جس بات کو وہ حق سمجھتے ہیں اس سے سرِ موانحراف نہیں کرتے۔عظیم سائنسدان گلیلیو کی سزا ئے موت آج بھی انسانیت کے ماتھے پر شرمندگی کا نشان بنی ہوئی ہے۔ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ عقل و دانش کی بات کرتا تھا۔دنیا انھیں ان کی عظیم خدمات پر روزانہ ہدیہ تبریک پیش کرتی ہے لیکن وہ جو ظلم و جبر کے خو گر تھے انھیں ان کی سائنسی توجیہ پسند نہیں تھی جس کا فطری نتیجہ پروانہِ موت کا اجراء تھا ۔ سچائی کی خاطر زہر کا پیالہ بھی توسقراط جیسے سچائی پسند انسان نے ہی پیا تھا۔نیوٹن،آئن سٹائن، سٹیفن باکنگ جیسے سائنسدان اگر مذہبی مناقشوں میں ملوث ہو جاتے تو پھر آج کا انسان ان نعماء سے کیسے متمتع ہو پاتاجو فطرت نے اس کے چاروں طرف بکھیر رکھے ہیں۔کچھ لوگ آستانوں میں مصروف رہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ لیبارٹریوں اور تجربہ گاہوں میں نئے نئے قوانین ِ فطرت کوشکاربنا نے میں مگن رہتے ہیں ۔ خدائی خدمتگار کسی فرقہ بندی کے اسیر نہیں ہوتے،پیروں کے آستانوں پر جھکنا،انھیں سجدہ کرنا،مقبروں کو چومنا، ماتھا ٹیکنا، قبروں کو سجدہ کرنا ،پائنچے اونچا ر کھنا ، دوسروں کو کفریہ جملوں سے نوازنا ،دوسروں کو مذہبی سوچ پر رکیک حملے کرناان کی لغت میں نہیں ہوتا۔جبکہ کچھ شدت پسند علماء کا شیوہ یہی ہوتا ہے کہ وہ مخالفین کو جان سے مار دینے کے فتاوی جاری کرتے رہتے ہیں اور کفرو الحاد کا ایک ایسا ہالہ بنادیتے ہیں جس میں جان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی حالانکہ انسانی جان کی قدرو اہمیت تو ہر قسم کے شک و شنبہ سے بالا تر ہے ۔چند علماء سوشل میڈیا پر دن رات دوسروں کو کفرو الحاد کے بھاشن دیتے رہتے ہیں جبکہ کفارو مشرک سائنسی ایجادات سے حکمِ خدا وندی کی بجا آوری میں مگن رہتے ہیں۔جس طرح دن اور رات برابر نہیں ہو سکتے، اندھے اور آنکھوں والے برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح شدت پسند اور امن پسند برابر نہیں ہو سکتے۔انسانی جانوں سے کھیلنے والوں اور انسانی جانوں کی تکریم کی خاطر زندہ رہنے والوں کا کیسے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟علامہ اقبال نے اسے اپنے ہی اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے ۔(دینِ کافر تدبیر و جہاد۔،۔دینِ ملا فی سبیل اﷲ فساد) ۔ اس سلسلے میں قرآنِ حکیم میں اﷲ تعالی کا واضح ارشاد ہے کہ( ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی زندگی پوری انسانیت کی زندگی ہے)۔،۔

جدید سوچ،ترقی پسندی ،ماڈرن فکر اورسائنسی سوچ کے حاملین کفرو الحاد اور فرقہ بندی جیسی گھٹیا اور فرسودہ سوچ سے بالاتر ہوتے ہیں۔وہ برابری اور تکریم کے داعی ہوتے ہیں۔ وہ انسانوں میں تقسیم اور درجہ بندی کے ناقد ہو تے ہیں ۔ وہ انسان کو انسان کے حقیقی اور اصلی روپ میں دیکھنے کے خو گر ہوتے ہیں۔وہ انسان کی اہمیت،اس کی قدر،اس کی عظمت اور اس کی رفعت کے قدردان ہو تے ہیں۔انھیں انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے کی روش کسی بھی حال میں گواراہ نہیں ہوتی ۔وہ انسانوں کو مذہب، نسل اور خاندان کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے انھیں انسانی تکریم کے آئینے میں دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ایسے انسان انتہائی سیدھے سادے ،سچے اور کھرے ہوتے ہیں۔وہ ذاتی مفادات سے بالا تر ہو تے ہیں ۔ان کی نظر میں سودو زیاں کا تعلق ان کی ذات سے نہیں بلکہ پوری انسانیت سے ہو تا ہے۔گویا کہ انسانیت کا درد ان کے رگ و پہ میں سرائیت کئے ہوئے ہوتا ہے۔انسانوں کی یہ کھیپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے کی بجائے ، منتظرِ فردا نہیں ہوتی بلکہ ہر آن اپنی کاوشوں سے کائنات میں نئی نئی تبدیلیوں کا جواز تلاش کرتی رہتی ہے ۔آج کا انسان کہاں کا کہاں پہنچ گیا ہے۔اس کی زندگی،اس کے شب و روز،اس کی آسائشات،اس کی آسانیاں ماپی نہیں جا سکتں۔ آج کے انسان کو اپنا چہرہ پہچاننے میں بھی دشواری پیش آ رہی ہے کیونکہ یہ وہ چہرہ نہیں ہے جو لاکھوں سال پہلے تھا۔ارتقاء اور ترقی کی چمک دمک نے اس کا وجود،اس کا چہرہ اور اس کی ہئیت بالکل بدل کر رکھ دی ہے۔انسان کی برتری کا جو فیصلہ مالکِ کائنات نے تخلیقی لمحوں میں کیا تھا اس کے ثمر ات سے یہ کرہِ ارض جنت بداماں ہو رہا ہے۔انسانی ترقی کی پرواز حدود نا آشنا ہو چکی ہے ۔ انسان خدا کا ہمکار بن کر اس کرہِ ارض کی تابانی کو مزید چمکا رہا ہے۔قرآنِ حکیم کی سورت رحمان(تم میر ی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے) آشکار ہو رہی ہے ۔اگر اس حکمِ خدا وندی کی تعبیر یہ کی جائے کہ خدا نے انسان کے اندر لا تعداد خفیہ امکانات رکھ دئے یں تو بات زیادہ واضح ہو جائے گی۔سورہ رحمان پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ انسان کی حدِ سوچ آسمانوں تک بلند ہے ،اس کے اندرلا محدود امکانات رکھ دئے گے ہیں اور انسان کی بلندی کو ہر قسم کی حد بندیوں سے بالا تر کر دیا گیا ہے۔بقولِ عاصم واسطی ؔ ۔ (کر اعترافِ عشق سرِ عام فخر سے ۔،۔ د یتا ہے کون تجھ کو سزا دیکھتا ہوں میں )۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ملا ازم نے انسان کو ایک ایسی پستی میں دھکیل دیا ہے کہ اس کے لئے ساری راہیں مسدود کر دی ہیں ۔وہ ترقی کی بجائے اپنی رجعت پسند سوچ کے ساتھ ہی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔بقولِ اقبال۔(یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل ۔،۔ یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات )۔،۔

 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515488 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.