اردو قومی وحدت کی علامت مادری زبان کے عالمی دن پرمجلس مذاکرہ
(Dr Rais Samdani, Karachi)
اردو قومی وحدت کی علامت مادری زبان کے عالمی دن پرمجلس مذاکرہ ٭ پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی مادری زبان کے عالمی دن کی مناسبت سے کراچی کے دو اہم اداروں ’ادارہ اردواتحاد‘ اور ادارہ علم دوست پاکستان‘ نے ایک مجلس مذاکرہ بعنوان ”اردو قومی وحدت کی علامت“ کراچی کے گریڈ سی انسٹیٹیوٹ آف بزنس اینڈ ٹیکنالوجی، پی ای سی ایچ ایس میں منعقد ہوا۔ مجلس مذاکرہ سجانے والوں میں ہمارے دوست شبیر ابن عادل، گلناز محمود، محمد زبیر طاہر اور میر حسین علی امام صاحب تھے۔مذاکرہ میں کراچی اور حیدر آباد کی علمی و ادبی شخصیات نے شرکت فرمائی۔ مہمان خصوصی جامعہ کراچی کی سابق استاد پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ تھیں جنہوں نے اردو کے تاریخی ادوار کے حوالہ سے تاریخی خطاب کیا۔ اچھا بولتی ہیں، تاریخ اورتحقیق کا پہلو ان کی گفتگو میں نمایاں ہوتا ہے۔ جب کہ صدارت کا تمغہ ہمارے ماتھے پر سجا یا گیا حالانکہ ہم اس قدر بڑی علمی وادبی شخصیات کی موجودگی میں اپنے آپ کو ہرگز اس کا اہل نہ سمجھتے تھے۔ مجبوری تھی ہماری دوست شبیر ابن عادل اور عزیزہ گلناز محمود کا اصرار تھا کہ ہم تقریب میں اسی حیثیت سے شمولیت اختیار کریں۔ سو ایسا ہی ہوا۔ مہمان اعزاز حامد اسلام خان صاحب تھے جنہوں نے بڑی پرمغز تقریر سے سامعین کو محظوظ کیا۔ سعودی عرب میں رہے چنانچہ وہاں کے تجربات اور جدہ سے شائع ہونے والے اخبار ’جدہ نیوز‘ کے حوالے سے خوبصورت گفتگو کی۔کراچی کی ادبی شخصیات میں مجیدرحمانی صاحب ہر دل عزیز ہی نہیں بلکہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔انہوں نے خوبصورتی سے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ فہیم برنی صاحب خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں، عمدہ بولتے ہیں۔یہاں بھی خوب بولے۔ خالد شیخ نے بھی موضوع پر خیالات کا اظہار کیا۔ عشرت غزالی صاحب جاذبِ نظر شخصیت کے مالک ہیں اردو کی وحدت کے حوالے سے مختصر لیکن سچ اور حق کی آواز بلند کی۔خالد شیخ، ریحانہ احسان، انیس شیخ ندیم مرزا، ارشاد آفاقی کے علاوہ صدیق راز صاحب نے اردو کے حوالہ سے اپنی نظم سنائی ساتھ ہی اپنا مجموعہ کلام ”نہیں راز کوئی راز“ بھی عنایت فرمایا۔ ان شاء اللہ مجموعہ پر اظہار خیال جلد کروں گا۔ ہماؔناز ایک اچھی شاعرہ ہیں، انہوں نے مختصرخیالات کا اظہار کیا۔ اس سے قبل گلناز محمود نے تقریب کے حوالے سے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور مجلس مذاکرہ کے موضوع کی وضاحت بھی فرمائی۔ گلناز کراچی کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں فعال ہیں۔ استاد ہیں، اچھا بولتی ہیں۔ تقریب میں قمر جہاں قمر صاحبہ بھی موجود تھیں، انہوں نے اپنا حمد و نعت کا مجموعہ ’الحمد ثنائے قمر‘ عنایت فرمایا تھا۔ مجموعی طور پر اردو کی وحدت کے حوالے سے بہت معلوماتی اور عمدہ تقریب تھی۔ راقم نے آخر میں خطاب کرنا تھا اور کیا۔ کہنا تو بہت کچھ تھا لیکن بہت کچھ سنا اور کم کہہ سکا۔ مادری زبان کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک تحریر کافی عرصہ قبل تحریر کی تھی۔ اس تحریر کی بنیاد پر اپنے خیالات کااظہا ر کیا۔ میری رائے ہے کہ اردو قومی وحدت ضرور ہے لیکن یہ عالمی وحدت کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں اردو جاننے والے اور اور اردو بولنے والے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔مقررین نے اس بات پر بھی خاص توجہ دلائی کہ سوشل میڈیا پر رومن میں اردو لکھی جارہی ہے جس سے اردو کے رسم الخط کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ احباب اس بات پر متفق تھے کہ ہم رومن میں اردو لکھنے والوں کو سمجھائیں کہ وہ رومن میں اردو لکھ کر اردو کو نقصان پہنچارہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اردو رسم الخط کو ہی اپنائیں۔اس میں کوئی مشکل نہیں۔ اردو جب سے پیدا ہوئی ہے پھل پھول رہی ہے۔ اسے نقصان پہچانے والے از خود نقصان سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ اردو بولی ہرگز نہیں، یہ زبان ہے، تہذیب ہے، ثقافت ہے،اردو نے پاکستان میں بسنے والے مختلف زبانیں بولنے والوں کو وحدت کی کڑی میں جوڑا ہوا ہے۔ آپس میں ملا یا ہوا ہے۔ اردو محبت کی زبان ہے، پیار کی زبان ہے، لوگوں کو جوڑنے والوں کی زبان ہے۔ یہ قائم رہنے کے لئے وجود میں آئی اسے دوام حاصل ہے، یہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گی،ان شاء اللہ۔ ذیل میں وہ مضمون پیش خدمت ہے جو مادری زبان کے عالمی دن کے حوالے سے تحریر کیا گیا۔ 21فروری مادری زبانوں کا عالمی د ن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس بات کا اعلان عالمی ادارے یونسکو (UNESCO)کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس جو 17 نومبر 1999کو منعقد ہوئی، 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا۔ مادری زبانیں ہر ملک کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ مادری اور قومی زبان میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔قومی زبان کسی بھی ملک کی ایک ہی ہوتی ہے البتہ مادری زبانیں ایک سے زیادہ ہوسکتی ہیں۔ قومی زبان کو رابطے کی زبان کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں دنوں، ہفتوں،سالوں اور دس سالوں کا انتخاب کیا جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح کے مسائل اور issuesجن میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے دلچسپی رکھتے تھے کو اجاگر کرنا تھا۔بسا اوقات یو این کے ذیلی ادروں نے اپنے پروگرام کے مطابق بعض مسائل کو اہمیت د یتے ہوئے مخصوص دنوں کو مقرر کرلیا جیسے کتاب کا عالمی دن۔ صحت کا عالمی دن، World No-Tobacco Day، گردوں کا عالمی دن دل کا عالمی دن،ٹی بی کاعالمی دن، معذور افراد کا عالمی دن،حجاب کا عالمی دن وغیرہ کے انعقاد کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح یونیسکو نے بھی بعض موضوعات کو اجاگر کرنے اور عوام الناس میں شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف دنوں کا انتخاب کیا اور اس دن اس موضوع کی مناسبت سے سیمینار، ورکشاپ، کانفرنسیزاور نمائش کااہتمام کیا جانے لگا۔ جیسے ’پانی کا عالمی دن‘، عالمی لٹریسی ڈے‘، عالمی ماحولیاتی ڈے‘، ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن،مادری زبان کا عالمی دن اوراسی طرح دیگر موضوعات کے حوالے سے دنوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مادری زبان کا عالمی دن کا بنیادی مقصد لسانی اور ثقافتی ربط،ہم آہنگی، تعلق کا فروغ ہے۔ پاکستان سمیت دینا بھر کے ممالک اس دن مادری زبانوں کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں جن میں اس بات کا اِعادَہ کیا جاتا ہے مادری زبان کے تحفظ سے، روایات، افہام و تفہیم، رواداری اور مکالمے کو مضبوط رشتوں میں جکڑا جاسکتا ہے اور یہ رشتے زیادہ فروغ پاسکتے ہیں۔ زبان کی اہمیت سے تو انکار ممکن ہی نہیں۔ بچہ دنیا میں آتا ہے تو اسے کسی بھی زبان سے مخاطب کیا جاتا ہے خواہ اشارے ہی کیوں نہ ہوں، پھر رفتہ رفتہ بچے کو اس زبان سے مخاطب کیا جانے لگتا ہے جو اس خاندان کی مادری زبان ہوتی ہے۔ گویا مادری زبان اس بچے کو وراثت میں ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بچہ بڑے ہوکر کتنا ہی عالم فا ضل کیوں نہ بن جائے اپنی زبان کبھی نہیں بھولتا، یا وہ کسی دوسری زبان مثلا اردو یا انگریزی میں کتنی ہی مہارت حاصل کر لے لیکن اپنی مادری زبان کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ اردو کے بڑے بڑے نامی گرامی شاعر و ادیب جیسے اقبالؔ، فیضؔ، احمد ندیمؔ قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سیدید، ڈاکٹر طاہر تونسوی، ڈاکٹرسلیم اختر، اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور بے شمار لوگوں نے اردو میں شاعری کی اور اعلیٰ نثر نگاری کی لیکن ان کے گھر کی زبان پنجابی تھی۔ بانو قدسیہ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے گھر میں پنجابی میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس لیے زبان ایک ایسی شہ ہے کہ انسان اپنی یاد داشت بھی کھو بیٹھے، اُسے دین و دنیا کی ہوش نہ رہے لیکن جب بات کرے گا تو اپنی مادری زبان میں ہی کرے گا۔مادری زبان کا لب و لہجہ انسان کی شخصیت کا اظہار کرتا ہے۔ بسا اوقات ہم کسی شخص کی گفتگو سے اس کی زبان اور لہجے سے اس بات کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس کا مادری زبان کیا ہے یا اس کا تعلق کس علاقے سے ہے۔ مادری زبان اور قومی زبان میں فرق ہوتا ہے، مادری زبان کسی بھی فرد یا خاندان کی وہ زبان ہوتی ہے جوبرسوں سے اس کے گھر اور خاندان میں بولی جارہی ہوتی ہے جب کہ قومی زبان وہ قرار پاتی ہے جسے رابطے کی زبان کہا جاسکتاہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کی چار مادری زبانیں ہیں ان چار زبانوں کے علاوہ بھی پاکستان میں بے شمار مقامی زبانیں اور بولیاں ہیں جن کی تعداد تو مختلف بتائی جاتی ہے ایک سروے کے مطابق ان کی تعداد 70 ہے لیکن معروف زبانوں میں سرائیکی، گجراتی، میمنی، راجستھانی، کچھی یا ترک، کاٹھیاواڑی، ہندکو، براہوی، دری، مکرانی، بلتی، بروشکی، جگدالی، سیالکوٹی، رشنا، کشمیری، کافری، گوجری، لاسی، بہادرواہی، دبیواری، بشکارک، بتیری، چلیسو، ڈامیلی، گورباٹی، گادر، کیلاشا، خودار یا خا د، پھلوا، سوامی۔ سپتی، طوروال، سوجو یا اشوجی، واخی، ازبکی، کے علاوہ برمی، بنگلہ بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ویب سائٹ انفو پلیزInfopleaseکے مطابق پاکستان میں بولی جانے والی مختلف زبانیں فیصد کے اعتبار سے کچھ اس طرح ہیں۔ ۱۔ اردوبولنے والے 8 فیصدہیں ۲۔ پنجابی بولنے والے 48فیصد ہیں ۳۔ سرائیکی زبان کے بولنے والے 10فیصد ہیں ۴۔ سندھی زبان12فیصد بولتے ہیں ۵۔ پشتو8فیصد ۶۔ بلوچی3فیصد ۷۔ ہند کو2فیصد ۸۔ بروہی1فیصد اور ۹۔ دیگر زبانے بولنے والے 8فیصد لوگ ہیں۔ اسی طرح دنیا میں چینی زبان بولنے والے سب سے زیادہ ہیں یعنی چینی زبان بولنے والے دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں، حیرت کی بات ہے کہ ہندی بولنے والے دوسرے نمبر ہیں اس لیے کہ بھارت کی آبادی دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، انگریزی کا نمبر 4ہے، عربی کے بولنے والے 5ویں نمبر پر ہیں، بنگلہ دیش کی بنگلہ بولنے والے 7ویں نمبر ہیں، چابانی 9، جرمنی 10ویں نمبر، پنجابی بولنے والے کیوں کہ پاکستان، بھارت،بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں میں آباد ہیں اس لیے وہ 11نمبر ہیں، اردو بولنے والے دنیا میں 19ویں نمبر ہیں۔ دنیا میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں کی تعداد 7ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ جس طرح حالات، واقعات اورزمانے کی تبدیلی کے ساتھ دنیا میں بہت سی چیزیں نئی وجود میں آتی ہیں کچھ دنیا ئے ہستی سے مٹ جاتی ہیں، بہت سے ملک نئے وجود میں آتے ہیں، بعض ملکوں کی سرحدیں طویل اور بعض کی محدود ہوجاتی ہیں، تباہی کی صورت میں پوری پوری قومیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں لیکن زبانیں وقت کے ساتھ استعمال میں کم یا زیادہ ہوسکتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان ایک سلطنت تھی۔ زمانے کے ہاتھوں اس کے حصے ہوئے اور یہ کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا لیکن وہ مادری زبانیں جو متحدہ ہندوستان میں بولی جارہی تھیں آج بھی زندہ ہیں۔ وہ زبانیں بولنے والے کب کے دنیا سے جاچکے لیکن اپنے پیچھے زبان کا ورثہ چھوڑ گئے ان کی نسلیں آج بھی وہی مادری زبان بول رہی ہیں۔ پاکستان میں معمولی فرق کے ساتھ اس وقت 70سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض زبانیں وقت کے ساتھ ساتھ نا پید ہوگئیں، بعض مادری زبانوں نے قومی زبان کی حیثیت اختیار کر لی جیسے ہندوستان میں ہندی نے، پاکستان میں اردو نے، بنگلہ دیش میں بنگلہ میں قومی زبان کی حیثیت حال کر لی ہے۔ پاکستان ایک کثیر الثانی ملک ہے جس میں مختلف فرق کے ساتھ 70 سے زیادہ زبانیں بولنے والے موجود ہیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔اردو پاکستانی عوام کی رابطے کی زبان بھی ہے۔ ہم اپنے ملک کے کسی کونے میں بھی چلے جائیں ہر جگہ اردو کو سمجھنے اور بولنے والے مل جاتے ہیں۔ لیکن قومی زبان ہونے کے با وجود اردو کو وہ مقام اور وہ مرتبہ تاحال نہیں مل سکا جس کی ضرورت ہے۔ آج بھی ہمارے دفتروں، تعلیمی اداروں میں انگریزی کا راج ہے۔ اردو کو بطور سرکاری و فتری زبان رائج کرنے کے حوالے سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب جواد ایس خواجہ کا فیصلہ تعمیر پاکستان، مستحکمِ پاکستان و ترقیِ پاکستان کے لیے ایک مستحسن قدم تھا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو بطور دفتری زبان فوری طور پر نافذکرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 251کا بلاتاخیر نافذ کرکے پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس کی حقیقی شناخت اور اس کی زبان دے کر عظیم کارنامہ انجام دیا تھا۔پاکستان کے سپریم کورٹ نے پاکستان کے آئین 1973 ء کے آئینی تقاضے کو پورا کیا۔ا ن کا یہ اقدام پوری پاکستانی قوم پر احسان عظیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا یہ عظیم کارنامہ پاکستان کی تاریخ میں نہ صرف سنہرے حروف سے لکھا جائے گا بلکہ اسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ پاکستان کے آئین کے مطابق 15 سالوں میں یعنی 1985 ء تک اردو کو بطور سرکاری و دفتری زبان کے رائج ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ آئینی و قانونی اقدام سرخ فیتے کی نظر ہوتا رہااور32سال بیت گئے۔ اردو اور سرائیکی کے شاعر کرامت حسین بخاری نے ایک ادبی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سرائیکی ہوں لیکن اردو سے عقیدت رکھتا ہوں،اردو بولی جانے اور لکھی جانے والی زبان ہے اس کا مزاج جمہوری ہے اور اسی مزاج اور رواداری کے ساتھ یہ بڑھتی چلی گئی اور بڑھے گی۔ کرامت بخاری نے زور دے کر کہا کہ بعض لوگ اس کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں، اسے تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔کرامت بخاری نے کہا کہ یہ اچھی نیت نہیں ہے، اس کے رسم الخط کو رومنائیز کریں گے تو اس میں بہت سی آوازیں تبدیل ہوجائیں گی۔ رسم الخط کسی بھی زبان کا لباس ہوتا ہے، میں اردو کو اسی لباس میں دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں۔اردو دنیا کی بڑی بین الاقوامی زبانوں میں سے ہے، یہ ہماری آن بان شان اور ایقان ہے۔ ہر قوم کسی ایک زبان پر متفق ہوتی ہے، بار بار فیصلے نہیں بدلنے چاہیے۔ کہی تو رکنا ہی ہوگا‘۔پاکستان میں حکمرانی کرنے والے کسی بھی حکمران نے پاکستان کے آئیں کی اس شق پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے ملک میں اردو بولنے، سمجھنے، لکھنے، پڑھنے والے اکثریت میں ہیں۔اس کے مقابلے میں انگریزی بولنے، سمجھنے والے تعداد میں کم لیکن طاقت میں بھولو پہلوان ہیں۔یہی وجہ ہے کہ70 سال سے وہ اکثریت پر اپنی مرضی مسلط کیے ہوئے ہیں۔ اردو بولنے سمجھنے والے کم تر جب کہ انگریزی بولنے اور سمجھنے والوں کا پلہ بھاری ہی نہیں بلکہ وہ اس اکثریتی آبادی پر حکمرانی کررہا ہے۔ پاکستان کے آئین جس میں اردو کے نفاذ کو یقینی بنانے کو کہا گیا اس پر عمل درآمد کو مختلف حیلے بہانے سے پشِ پشت ڈالا جاتا رہا۔ یہ اردو زبان ہی ہے جو ہمیں ایک قوم بناسکتی ہے۔ چاروں صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کرسکتی ہیں،دراصل چاروں صوبوں کی زنجیر یہی اردو زبان ہی ہوسکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی یا مادری زبانوں کی ترقی اور فروغ کے ساتھ ساتھ ملک کی قومی زبان کو بھی وہ مقام و مرتبہ دیا جائے جو اسے دینا چاہیے ۔
|