#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالزمر ، اٰیت 42 تا 48!!
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اللہ
یتوفی الانفس
حین موتھا والتی لم
تمت فی منامہا فیمسک التی
قضٰی علیھا الموت ویرسل الاخرٰی
الٰی اجل مسمی ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم
یتفکرون 42 ام اتخذوا من دون اللہ شفعاء
قل اولوکانوا لایملکون شیئا ولایعقلون 43 قل
للہ الشفاعة جمیعا لهٗ ملک السمٰوٰت والارض ثم الیه
ترجعون 44 واذا ذکراللہ وحده اشمازت قلوب الذین لا
یؤمنون بالاٰخرة واذاذکرالذین من دونهٖ اذا ھم یستبشرون
45 قل الّٰھم فاطرالسمٰوٰت والارض عالم الغیب والشھادة ان
تحکم بین عبادک فی ماکانوافیه یختلفون 46 ولوان للذین ظلموا
مافی الارض جمیعا ومثلهٗ معهٗ لافتدوابهٖ من سوء العذاب یوم القیٰمة
وبدالھم من اللہ مالم یکونوا یحتسبون 47 وبدالھم سیاٰت ماکسبواوحاق
بھم ماکانوابهٖ یستھزءون 48
اے ہمارے رسُول ! موت کے بعد ہر انسان نے زندگی کے ایک ایک لَمحے کا حساب
دینا ہے اِس لیۓ جس انسان کی موت کا وقت اُس کی نیند کے درمیان میں آجاتا
ہے تو اُس پر نیند کے درمیان ہی موت کا عمل جاری کردیا جاتا ہے اور جس
انسان کی موت کا وقت اُس کی نیند کے دوران نہیں آتا ہے تو اُس کو نیند سے
جگا کر زندگی میں واپس بھیج دیا جاتا ہے ، اہلِ فکر کے لیۓ انسانی موت و
حیات کے اِس خوابیدہ عمل میں بھی عقل و فکر کی بہت سی نشانیاں ہیں لیکن جن
لوگوں نے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی اختیار کر لی ہے اور جو اپنے اُن
بے اختیار خیالی خُداؤں سے شفاعت کی اُمید لگاۓ ہوۓ ہیں کہ جن کو اپنی موت
و حیات کے اُس ایک خوابیدہ لَمحے کا علم بھی نہیں ہے جب انسان کو نیند کے
دوران زندہ رکھنے یا موت سے ہمکنار کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے اِس لیۓ آپ
اِن لوگوں کو آگاہ کردیں کہ انسان کی شفاعت کا اختیار خالق کی کسی مخلوق کے
پاس نہیں ہے بلکہ صرف اُس خالقِ واحد کے پاس ہے جو اِس عالَم کا حاکمِ واحد
ہے لیکن اِن مُنکرینِ حساب کا حال یہ ہے کہ جب اِن کے سامنے اُس خالقِ واحد
کا ذکر آتا ہے تو اِن کے دل ڈُوبنے لگتے ہیں اور جب اُس کے ساتھ اِن کے بے
اختیار و بے اعتبار شریکوں کا ذکر آجا تا ہے تو اِن کے دل کِھل جاتے ہیں
اِس لیۓ آپ اِن کو یہ اَمر دوبارہ یاد دلا دیں کہ اللہ تعالٰی جو اِس عالَم
کا خالق ہے وہی اِس کے حاضر و غائب اسرار و رموز کو جانتا ہے اور وہی اُس
یومِ حساب کے وقت تُمہارے اُن تمام کے تمام لاینحل معاملات کا فیصلہ کُن حل
بھی پیش کر دے گا تُمہارے جو معاملات تُمہاری زندگی میں تُمہارے لیۓ لاینحل
کے لاینحل رہیں گے لیکن جہاں تک مُنکرینِ یومِ حساب کا تعلق ہے تو اگر اُن
کو اُن کا حسابِ معصیت چکانے کے لیۓ زمین کے سارے خزانے بھی دے دیۓ جائیں
اور اِن خزانوں کے ساتھ اتنے ہی مزید خزانے بھی جمع کر دیۓ جائیں اور پھر
وہ سارے خزانے اُن کو اِن کے شرک کے فدیۓ میں دینے کا حق بھی دے دیا جاۓ تو
اُس وقت اُن کے شرک کا جو نتیجہ سامنے آۓ گا تو اُس نتیجے کے سامنے وہ سارے
خزانے ہیچ ہو جائیں گے اور اُس دن اُن پر وہ حق ہی عذاب بن کر ٹُوٹ پڑے گا
جس کے ساتھ دُنیا میں وہ تمسخر و استہزا کیا کرتے تھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
زندگی انسانی جسم و جان پر گزرنے والے اُس محسوس اور مخصوص گزرتے ہوۓ وقت
کا نام ہے جس محسوس اور مخصوص گزرتے ہوۓ وقت کے دوران انسان اپنے آزاد
ارادے کے ساتھ وہ محسوس شعوری اعمال اَنجام دیتا ہے جن اعمال کی اَنجام دہی
کا انسانی ذہن میں کوئی مُثبت یا مَنفی قصد اور مقصد موجُود ہوتا ہے اور
انسان کے اُس قصد و مقصد اور حرکت و عمل کا اللہ تعالٰی کے نظام میں ایک
ایسا مُثبت و مَنفی نتیجہِ عمل بھی ہو تا ہے جس پر انسان کو کوئی مقررہ جزا
و سزادی جاتی ہے بخلاف اِس کے کہ موت انسانی جسم و جان پر وارد ہونے والے
اُس محسوس و مخصوص تعطل کا نام ہے جس تعطل کے دواران انسان اپنے آزاد ارادے
و شعوری اور اپنے احساس سے بے احساس ہو جاتا ہے اور اِس دواران انسان کے
کسی بے ارادہ و بے احساس حرکت و عمل کی کوئی جزا و سزا نہیں ہوتی ، زندگی
کے اِس طے شدہ جاری ضابطہِ زندگی کے مطابق چونکہ انسان کے ہر مُثبت عمل کی
ایک طے شدہ جزا اور ہر مَنفی عمل کی بھی ایک طے شدہ جزا ہے اِس لیۓ انسان
صرف اپنے اُن اعمال و افعال کا مُکلف و جواب دہ ہے جو اعمال و افعال وہ
زندگی میں اپنے آزاد ارادے اور شعور کے ساتھ اَنجام دیتا ہے ، ہر چند کہ
انسان کی نیند کا یہ عمل انسانی موت کا عمل نہیں ہے بلکہ اِس اعتبار سے صرف
موت جیسا وہ عمل ہے کہ جس عمل میں انسانی جسم و جان میں حرکت و عمل کی جو
صورت موجُود ہوتی ہے وہ انسان کے آزاد ارادے اور اُس کے شعور سے خالی ہوتی
ہے اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان پر یہ احسان کیا ہے کہ اُس نے نیند و خواب
کے ذریعے انسان کی نصف زندگی کو احساس و شعور سے عاری کر کے اُس کی نصف
زندگی کو ارادہِ عمل ، نتیجہِ عمل اور سزاۓ عمل سے خارج کردیا ہے ، مثال کے
طور پر اگر ایک انسان کی عُمر 60 سال ہوتی ہے تو اُس میں اُس کے عرصہِ قبلِ
بلوغ کے کم از کم وہ 15 برس سے شامل نہیں ہوتے ہیں جو عقل و بلوغ سے پہلے
اُس نے گزارے ہوۓ ہوتے ہیں اور اُس کے زمانہِ عقل و بلوغ کے بعد کے جو 45
برس بچتے ہیں تو اُن 45 برس میں وہ ساڑھے 22 برس بھی شامل نہیں ہوتے جو
انسان نے نیند اور خواب میں گزارے ہوۓ ہوتے ہیں بلکہ انسان کے پاس جوابِ
اعمال اور جزاۓ اعمال کے لیۓ وہی ساڑھے 22 برس موجُود ہوتے ہیں جو اُس نے
اپنے آزاد ارادے کے ساتھ ، اپنے آزاد احساس کے ساتھ اور اپنے ایک آزاد شعور
کے ساتھ نیند سے جاگتے ہوۓ گزارے ہوتے ہیں ، اِس سُورت کی اِن اٰیات میں سے
پہلی اٰیت میں بیان ہونے والا یہی مضمون اِس سے قبل قدرے مُختلف الفاظ کے
ساتھ سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 61 میں بھی بیان ہو چکا ہے اور اُس اٰیت کے
اُس مضمون میں ہم نے لفظِ فوت و لفظِ موت کے لُغوی مطالب و معنوی مفاہیم کے
علاوہ اِس اَمر پر بھی بقدرِ ضرورت گفتگو کی ہے کہ دِن بھر کی محنت و مشقت
کے بعد انسانی جسم میں کیا کیا اور کس کس طرح کی توڑ پھوڑ ہوتی رہتی ہے اور
انسانی جسم کی اُس جسمانی توڑ پھوڑ کے بعد انسانی جسم پر نیند و خواب کی
حالت میں لے جا کر انسانی جسم کی اِس طرح سے مرمت کردی جاتی ہے کہ وہ اَگلے
دن تازہ دَم ہو کر ایک تازہ عزم و حوصلے اور ایک تازہ جوش و ولولے کے ساتھ
زندگی کی سر پٹ دوڑتی ہوئی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے ، اہلِ روایت نے اپنی
روایات کے ذریعے قُرآنِ کریم کی اِن اٰیات پر جو عجیب و غریب تفسیری حاشیۓ
چڑھاۓ ہیں اُن عجیب و غریب حواشی میں کوئی بھی قابلِ فہم بات نہیں ہے
حالانکہ اِن اٰیات میں صرف یہ سادہ سی بات بیان کی گئی ہے کہ زمان و مکان
کے ہر ثانیۓ اور ہر دورانۓ میں جس طرح زمین پر کُچھ انسان پیدا ہوتے رہتے
ہیں اسی طرح زمین پر کُچھ انسان مرتے بھی رہتے ہیں اور چونکہ زمین کے ہر
گوشے میں ہر دن کے بعد ایک رات آتی ہے اور ہر آنے والی رات کو بھی ہر ایک
دن کی طرح ہر رات کو بھی جو انسان پیدا ہوتے اور جو انسان مرتے ہیں تو اُن
مرنے والے انسانوں میں ہر رات میں مرنے والے وہ انسان بھی شامل ہوتے ہیں جن
انسانوں پر نیند کے دوران ہی لَمحہِ موت آجاتا ہے اور اُن انسانوں کو اُن
کی اِس مُختصر نوم کے دوران ہی اُس مُفصل نوم میں داخل کر دیا جاتا ہے جس
کا نام موت ہے اور موت و حیات کی اُس رات میں جن انسانوں کی زندگی ہنُوز
باقی ہوتی ہے تو اُن انسانوں کو نوم کی اُس بے احساس حالت سے نکال کر زندگی
کی اُس حساس حالت میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں پر ہر روز کی طرح وہ اپنی
عقلِ موجُود اور اپنے شعورِ موجُود کے ساتھ اپنا ہر وہ مُثبت و مَنفی عمل
اَنجام دیتے رہتے ہیں جس مُثبت و مَنفی عمل پر کوئی مقررہ جزا و سزا ہوتی
ہے ، اِس کلام کا نتیجہِ کلام یہ ہے کہ جو انسان زمین پر جو بھی شعوری
زندگی گزارتا ہے وہ عملی و شعوری زندگی رُبع صدی سے بھی کم مُدت پر مُشتمل
ہوتی ہے اور اگر ایک با شعور انسان زندگی کا یہ مُختصر سا عرصہِ حیات بھی
قُرآن کے اُن اَحکامِ نازلہ کے مطابق نہیں گزار سکتا جو عرصہ شاید کم و بیش
22 بار ہی اُس کی زندگی میں اِس طرح پر آتا ہے کہ جب اُس نے اپنے کسی عمل
سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اُس نے اپنا یہ عمل صرف اللہ تعالٰی کے
حُکمِ نازلہ کے مطابق کرنا ہے ، غیراللہ کے حُکمِ نافذہ کے مطابق نہیں کرنا
ہے مگر جو انسان زندگی میں آنے والے زندگی کے یہ چند لَمحاتی فیصلے بھی
اللہ تعالٰی کے حُکم کے مطابق نہیں کر سکتا ہے تو وہ موت کے بعد آنے والی
حیات میں اللہ تعالٰی کے اُس اعلٰی انعام و اکرام کا مُستحق نہیں ہوتا جس
کا بدلہ فردوسِ بریں ہوتا بلکہ وہ انسان تو اُس ذلت آمیز عذابِ جہنم کا
مُستحق ہوتا ہے جو عذابِ جہنم اُس کے جسم و جان کے لیۓ بہت ہی زیادہ
ناقابلِ بیان اور بہت ہی زیادہ ناقابلِ برداشت ہوتا ہے !!
|