رسول اللہ ہی دین اسلام کا پیغمبر، شارح اور بانی ہیں.
اللہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مصطفیٰ بنایا ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما ہیں. حضرات صحابہ کرام آپ
کی خدمت میں حاضر ہیں. اتنے میں ایک اعرابی (دیہاتی) مسجد میں داخل ہوتے
ہیں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثاروں کو دیکھ لیتے ہیں. حضرات
صحابہ کرام رسول مصطفی و مخلَص کے سامنے زانوئے تملذ تہہ کیے ہوئے ہیں.
اعرابی اچھی طرح جانتا بھی ہے کہ یہ صحابہ اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
پر جان فدا کرنا اجر عظیم سمجھتے ہیں اور کر گزرجاتے ہیں.
پھر یوں ہوتا ہے کہ اعرابی مسجد کے ایک کونے میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے لگ
جاتے ہیں. حضرات صحابہ کیساتھ رسول اللہ بھی یہ سب دیکھ رہے ہوتے ہیں.
سیدنا رسول اللہ خاموش ہیں. صحابہ نے سوچا، شاید رسول اللہ اس لیے خاموش
ہیں کہ ہم اس اعرابی کو مسجد میں پیشاب کرنے سے منع کر دیں. یہی سوچ کر
اصحاب مصطفیٰ، اعرابی کی طرف متوجہ ہوتےہیں.اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم درمیان میں حائل ہوجاتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ کو
روک دیتے ہیں اور اعرابی کو اطمینان کیساتھ پیشاب پورا کرنے دیتے ہیں.پھر
رسول اللہ انتہائی محبت سے انہیں اپنے پاس بلاتے ہیں. احترام سے بٹھاتے ہیں
اور نرمی سے سمجھاتے ہیں.
یہ واقعہ مختلف کتب حدیث میں موجود ہے. اور یہ صحیح حدیث ہے. کوئی ضعیف
روایت بھی نہیں. امام بخاری نے یوں نقل کیا ہے.
"ایک اعرابی کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ تو لوگ اس طرف متوجہ
ہونےلگے۔ ( یہ دیکھ کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا
کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا
ہوا ڈول بہا دو۔ کیونکہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے
نہیں۔(بخاری شریف حدیث نمبر 220)
امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں یوں بیان کیا ہے:
"حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں : ہم مسجد میں رسول
اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران میں ایک اعرابی آیا اور اس نے
کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نے
کہا :
کیا کر رہے ہو ؟
کیاکر رہے ہو ؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ اسے ( درمیان میں ) مت روکو ، اسے چھوڑ دو ۔ ‘‘
صحابہ کرام نے اسے چھوڑ دیا حتی کہ اس نے پیشاب کر لیا ، پھر رسول اللہ ﷺ
نے اسے بلایااور فرمایا :
’’ یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں ، یہ تو بس
اللہ تعالیٰ کے ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں ۔ ‘‘ یا جو ( بھی )
الفاظ رسول اللہ ﷺ نے فرمائے ۔ ( انس رضی اللہ عنہ نے ) کہا : پھر آپ نے
لوگوں میں سے ایک کو حکم دیا ، وہ پانی کا ڈول لایا اور اسے اس پر بہا دیا
" ( مسلم شریف حدیث نمبر:661)
میاں چنوں میں مشتاق احمد نامی شخص کو توہین مسجد یا توہین قرآن کے الزام
میں مار مار کر ختم کر دیا گیا. سینکڑوں کے ہجوم نے اس پاگل کو باندھ کر
پتھروں سے سنگسار کردیا.
جب سے یہ سنا ہے عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوں.کئی دوستوں نے اس پر لکھنے کا
کہا لیکن لکھتا تو کیا لکھتا.
یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے نبی کی تعلیمات سے مکمل عاری ہیں.
کاش کہ یہ سننے کو ہی نہیں ملتا.
پھر روایت یہ بھی ہے کہ مشتاق احمد نفسیاتی مریض تھا، پاگلوں کی طرح گھوما
کرتا تھا اور اس کا علاج بھی ہورہا تھا. کاش ان نام نہاد غیرت مند مسلمانوں
کو یہ معلوم ہوتا کہ مجنون پر احکام لاگو نہیں ہوتے، جب تک اس سے جنون ختم
نہ ہو وہ احکامات الہی اور فرامین رسول کا مخاطَب ہی نہیں.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:
”تین قسم کے لوگ مرفوع القلم ہیں: نائم (سوئے ہوئے شخص، بچہ اور مجنون یہاں
تک کہ اسے جنون سے افاقہ نہ ہوجائے۔“(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر :4401).
کاش کہ حدیث کا یہ ٹکڑا ہی ان نام نہاد مسلمانوں کے سامنے ہوتا.. اے کاش.
اگر وہ شخص مجنون یا پاگل نہ بھی ہوتا، اور واقعتا اس نے توہینِ قرآن یا
مسجد کیا بھی ہوتا، لوگوں کے پاس ٹھوس شواہد بھی موجود ہوتے، تب بھی ہجوم
کے ہاتھوں کسی صورت قتل نہیں کیا جاسکتا.یہ نری بربریت ہے.
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے. اس میں آئین اور قانون موجود ہے. تعزیرات
پاکستان کا ہی سہارا لیا جاتا اور ایسے شخص کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر
دیا جاتا.
مگر ظالم ہجوم نے مار دیا اور اپنی دنیا کے ساتھ عاقبت بھی خراب کر دی.
اگر کل قیامت کے دن وہ میاں چنوں کا مشتاق احمد نامی مجنون شخص، اللہ اور
رسول کی دربار میں کھڑا ہوکر ان سب سے حساب مانگ لے تو ایسے خودساختہ
مسلمانوں کی کیا کیفیت ہوگی؟
اور اگر اس نے یہ مطالبہ بھی کردیا.
یا رسول اللہ!
تیرے وراثین(علماء کرام) اور پاکستان کے لاکھوں محدثین نے بھی لاکھوں
مساجد میں تیری یہ حدیث تک اپنے ماننے والوں کو نہیں بتایا تھا، نہیں
سمجھایا تھا؟
تو جانتے ہو، پھر کیا ہوگا؟
اللہ اس مشکل سے ہم سب کو بچائے.
بہر حال دونوں احادیث آپ تک پہنچایا ہے. میں تو اللہ اور اس کے رسول سے
کہونگا.
میں نے بیسوی دفعہ اپنی کلاس میں اور اپنی مسجد میں یہ احادیث سنائیں ہیں
اور آج سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعے بھی سب کو بتارہا ہوں. ان شاء اللہ
پھر امید رکھتا ہوں اللہ اور رسول اللہ مجھے معاف فرمائیں گے.
میری علماء کرام اور اپنے احباب سے بھی گزارش ہے کہ اس بات کو پھیلائیں
تاکہ کل آپ بھی اللہ اور رسول اللہ کے سامنے شرمندہ نہ ہوں. اور ہم سب کو
ایسے ظالموں سے علی الاعلان برآت کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ کسی اور غنڈہ یا
غنڈوں کو اسلام، قرآن اور مسجد کے نام پر ظلم عظیم برپا کرنے کی جرآت نہ
ہو.میں برآت کا اعلان کرتا ہوں. آپ سب بھی اعلان کیجے. اللہ ہم سب کو دین
اور پیغام محمدی سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین
احباب کیا کہتے ہیں؟
|