وہیل چئير اندر نہیں جائے گی، کیا وہیل چئير پر موجود افراد کو کسی ہوٹل میں داخلے کا حق نہیں؟ ایک معذور لڑکی کا معاشرے سے سوال

image
 
دنیا بھر میں معذور افراد کو معذور کہنے کے بجائے ان کو اسپیشل کہا جاتا ہے اور ان کو دنیا کے ہر ملک میں خصوصی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں تاکہ وہ جسمانی کمزوری کے ساتھ ساتھ کسی نفسیاتی مسائل کا شکار نہ ہوں-
 
اس وجہ سے یہ سب کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسا کوئی عمل نہ کریں جس سے معذور یا اسپیشل افراد کے جزبات مجروح ہوں اور دنیا بھر کے قوانین کے مطابق کسی اسپیشل انسان کو اس طرح اس کی معذروری کا احساس دلانا قابل سزا جرم ہے-
 
ایسا ہی ایک انسانیت سوز واقعہ بھارت کی ریاست ہریانہ کے علاقے گوروگرام کے ایک مشہور ریسٹورنٹ میں سرشتی نامی لڑکی کے ساتھ پیش آیا سرشتی اپنی معذوری کے سبب چلنے کے قابل نہیں ہیں اس وجہ سے چلنے کے لیے وہ وہیل چئير کا استعمال کرتی ہیں-
 
اس واقعے کے حوالے سے سرشتی نے ٹوئٹر پر کئی پیغامات کے ذریعے اس افسوسناک واقعہ کو بیان کیا ہے جو کہ واقعہ کی سنگینی کے سبب تیزی سے وائرل ہوا- سرشتی کے ٹوئٹر پیغامات کے مطابق واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے-
 
image
 
سرشتی کا کہنا تھا کہ اپنی دوست کی فیملی کے ساتھ ایک طویل عرصے کے بعد وہ گوروگرام کے ایک مشہور ریسٹورنٹ ڈنر کے لیے گئيں۔ وہ حسب معمول وہیل چئير پر تھیں جب ان کی دوست کا بھائی ٹیبل بک کروانے کے لیے گیا تو ریسٹورنٹ کے فرنٹ ڈيسک والوں نے دو بار تو اس کو نظر انداز کر دیا- مگر جب تیسری بار انہوں نے پوچھا تو ریسٹورنٹ کے عملے نے وہیل چئير کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہیل چئير اندر نہیں جا سکتی ہے-
 
جس بات سے سرشتی کو محسوس ہوا کہ شائد ریسٹورنٹ کے اندر جگہ کی تنگی کی وجہ سے عملہ یہ بات کر رہا ہے مگر ریسٹورنٹ کے عملے نے مزيد وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہیل چئير کو دیکھ کر اندر بیٹھے دوسرے کسٹمر کو برا لگے گا اس وجہ سے وہیل چئير اندر نہیں جائے گی-
 
سرشتی کا کہنا تھا کہ ان کو اس بات سے شدید صدمہ پہنچا کافی دیر تک ان کی دوست کا بھائی عملے کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ ان کو ریسٹورنٹ میں داخلے کی اجازت دے دیں- مگر عملہ ٹس سے مس نہ ہوا اور اس سارے وقت میں سرشتی ریسٹورنٹ سے باہر سردی سے ٹھٹھرتی رہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شدید سردی میں اس طرح سے بیٹھنا ان کی صحت کے لیے بھی خطرناک تھا کیوں کہ اس سے ان کا جسم شل ہو رہا تھا اور اس میں درد شروع ہو گیا تھا-
 
 
جب یہ سارا واقعہ وائرل ہوا تو اس کے جواب میں اس ریسٹورنٹ کے پارٹنر گومتیش سنگھ نے سرشتی سے ٹوئٹر پر معذرت کی- ان کا کہنا تھا ان کو جمعہ کی شام ان کے ریسٹورنٹ میں ہونے والے اس واقعہ پر شدید دکھ ہے اور وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے عملے کے رویے کے سبب کوئی بھی فرد خود کو تنہا محسوس کرے- وہ اس موقع پر سرشتی کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے معافی مانگتے ہیں- اس کے ساتھ ساتھ ہر طریقے سے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ دوبارہ اس طرح کے واقعات ان کے عملے کی جانب سے ریسٹورنٹ میں نہ ہو سکیں-
 
سرشتی کی اس پوسٹ کے وائرل ہونے کے بعد گورگرام کی پولیس نے بھی سرشتی سے اس کا ایڈریس اور فون نمبر مانگا ہے تاکہ ہوٹل کی انتطامیہ کے خلاف قانونی کاروائی کی جا سکے-
 
سرشتی کے ساتھ اس سلوک نے عوام کو بھی غم و غصے میں مبتلا کر دیا ہے یہاں تک کہ کچھ افراد نے تو ریسٹورنٹ کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: