#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزُمر ، اٰیت 71 تا 75
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
وسیق
الذین کفروا
الٰی جھنم زمرا
حتٰی اذاجاءوھا
فتحت ابوابھا وقال
لھم خزنتھا الم یاتکم
رسل منکم یتلون علیکم اٰیٰت
ربکم وینذرونکم لقاء یومکم ھٰذا
قالوابلٰی ولٰکن حقت کلمة العذاب علی
الکٰفرین 71 قیل ادخلواابواب جھنم خٰلدین
فیھا فبئس مثوی المتکبرین 72 وسیق الذین
اتقواربھم الی الجنة زمرا حتٰی اذاجاءوھا وفتحت
ابوابھا وقال لھم خزنتھا سلٰم علیکم طبتم فادخلوھا
خٰلدین 73 وقالواالحمد للہ الذی صدقنا وعدهٗ واورثناالارض
نتبوامن الجنة حیث نشاء فنعم اجرالعٰملین 74 وتری الملٰئکة
حافین من حول العرش یسبحون بحمدربہم وقضی بینھم بالحق
وقیل الحمد للہ رب العٰلمین 75
اے ہمارے رسُول ! جب خُدا کے سرکشوں کو سرکوبی کے لیۓ دامنِ جہنم میں
پُہنچایا جاتا ہے تو جہنم کے نگران کہتے ہیں کہ شاید تُم میں تمہیں تُمہاری
زبان میں بُرے اعمال کے اِس بُرے اَنجام سے ڈرانے والے لوگ نہیں آۓ ہیں جو
تُم یہاں آۓ ہو ، وہ کہتے ہیں کہ کیوں نہیں آۓ ہیں ، ہمارے پاس اللہ کے
فرمان سے نافرمانی کرنے کے اِس اَنجام سے ڈرانے اور بچانے والے لوگ آتے رہے
ہیں مگر ہم ہمیشہ ہی اُن کو جُھٹلاتے رہے ہیں اور آج اللہ کا ہمارے ساتھ
کیا گیا وہ وعدہِ جزا و سزا بھی پُورا ہوگیا ہے ، اُن کا یہ جواب سُن کر
جہنم کے نگران کہتے ہیں کہ تُمہارے اِس بُرے اَنجام کا یہی وہ بُرا مقام ہے
جس کے کُھلے دروازوں سے تُم نے اِس میں داخل ہونا ہے اور داخل ہونے کے بعد
ہمیشہ اپنے اسی بُرے ٹھکانے میں رہنا ہے ، پھر اِن مُستحقینِ جہنم کی طرح
جب مُستحقین جنت کو بھی دامنِ جنت میں پُہنچایا جاتا ہے تو اُن کو دہکھتے
ہی جنت کے نگران اُن کے کارِ سلامتی کی دُعا دیتے اور یہ کہتے ہیں کہ
تُمہارے اِس اَنجامِ خیر کے بدلے میں آج تُم پر اِس مقامِ خیر کے سارے
دروازے کھول دیۓ گۓ ہیں جن میں تُم نے خوشی سے جانا ہے اور خوشی سے خوشی کے
اسی مقام پر ہمیشہ رہنا ہے جس پر وہ نہال ہو کر کہتے ہیں کہ ہمارے ہر تشکر
و امتنان کا حق دار ہمارا وہ اللہ ہے جس نے ہمارے ساتھ کیۓ گۓ عمل اور
مکافاتِ عمل کے سارے ہی وعدے پُورے کر دیۓ ہیں اور اُس نے ہمیں جنت کی اِس
زمین کا وارث بنادیا ہے جس زمین میں ہم جہاں رہنا چاہتے ہیں وہاں رہتے ہیں
اور جہاں جانا چاہتے ہیں وہاں جاتے ہیں اور یہ سَچ ہے کہ اُس کے پاس
اِنجامِ خیر کا بدلہ یہی مقامِ خیر ہے جو اہلِ خیر کو دیا جاتا ہے اور جس
وقت آپ اہلِ جنت کی یہ راحت و خوشی دیکھیں گے تو اُس وقت آپ یہ بھی دیکھیں
گے کہ اللہ کے اُس تختِ اقتدار کے اطراف میں اُس کے مُتحرک اہلکار صف بستہ
کھڑے ہیں جہاں سے جزا و سزا کے یہ سارے فیصلے صادر کیۓ جاتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی مختلف سُورتوں میں وارد ہونے والی مُختلف اٰیات میں جس طرح
جنت و جہنم کا ماضی و مُستقبل کے مُختلف ملے جُلے ہوۓ صیغوں کے ساتھ ذکر
کیا گیا ہے اسی طرح اِس سُورت میں وارد ہونے والی اِن اٰیات میں بھی جنت و
جہنم کا ماضی و مُستقبل کے مُختلف ملے جُلے ہوۓ صیغوں کے ساتھ ذکر کیا گیا
ہے اور اِس ذکر کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا عہدِ حال بھی انسان کے عہدِ ماضی
ہی کی ایک Extension ہے اور انسان کا عہدِ مُستقبل بھی انسان کے عہدِ حال
ہی کی ایک Extension ہو گا ، اسی طرح انسان کی حیاتِ حال بھی انسان کی
حیاتِ ماضی کی ایک Extension ہے اور انسان کی حیات مُستقبل بھی انسان کے
حال ہی کی ایک Extenaion ہو گی اور پھر جس طرح انسان کے ماضی میں اَنجام
دیۓ گۓ مُثبت و مَنفی اعمال کے نتائج انسان کے عہدِ حال میں مُختلف شکلوں
میں مُتشکل ہو کر انسان کی نامراد و با مراد یادوں کی صورت میں کبھی انسان
کے دل کو بہلاتے رہتے اور کبھی انسانی جان کو جلاتے رہتے ہیں اسی طرح انسان
کے حال میں اَنجام دیۓ گۓ مُثبت و مَنفی اعمال کے نتائج بھی انسان کے
مُستقبل میں انسان کی کُچھ نامراد و بامراد یادوں کی صورت میں ڈھل کر کہیں
انسانی دل کو راحتِ جنت بن کے سکون پُہنچاتے رہیں گے اور کہیں آتشِ جہنم بن
کر انسانی جان کو جلاتے رہیں گے ، مرنے کے بعد انسانی حیات کے اسی رُخ کو
انسان کی حیاتِ عُقبٰی یا حیاتِ آخرت کہا جاتا ہے اور انسان کی اسی حیاتِ
عُقبٰی و حیاتِ آخرت میں انسانی جان کے مُسلسل جلاۓ جانے یا انسانی جان کو
مُتواتر سکون پُہنچاۓ جانے والے اسی شُعلہ و شبنم احساس کا نام سزاۓ جہنم و
جزاۓ جنت ہے جس کو قُرآنِ کریم نے انسانی فہم کے مطابق چند قابلِ فہم رموز
و اشارات کی صورت میں بیان کیا ہے تاکہ انسان اپنی عقل و بصیرت کے مطابق
اِن کو سمجھے اور اپنی سمجھ بُوجھ کے مطابق جزا و سزا کے اُس دن کا سامنا
کرنے کے لیۓ اپنے فکر و عمل سے ول مناسب سامان تیار کرے جو انسان کو اُس دن
ذلّت سے بچاۓ اور عزت کا حق دار بناۓ ، اِس سُورت کی اِن اٰیات میں اِس
ذکرِ جنت و جنہم کے بعد اللہ تعالٰی کے جس تختِ اقتدار اور جس تختِ اقتدار
سے انسانی بدبختی و انسانی خوش بختی کے جن فیصلوں کے جاری ہونے کا جو ذکر
کیا گیا ہے وہ ذکر بذاتِ خود اِس بات کی ایک قوی دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی کا
وہ تختِ اقتدار ہمیشہ سے موجُود ہے اور ہمیشہ کے لیۓ موجُود ہے اور اُس
تختِ اقتدار سے جو فیلصے جاری ہوتے ہیں وہ فیصلے بھی ہمیشہ سے جاری ہوتے
ہیں اور ہمیشہ کے لیۓ جاری ہوتے ہیں اور اُس پہلی بات کی طرح یہ دُوسری بات
بھی اِس بات کا ثبوت ہے کہ جو انسان دُنیا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں وہ انسان
پیدا ہو کر مرتے رہتے ہیں اور جو انسان پیدا ہو کر مرتے رہتے ہیں اُن کی
حیاتِ نیک و بد کا حسابِ نیک و بد بھی ساتھ ساتھ ہی ہوتا رہتا ہے اور جن
انسانوں کی حیاتِ نیک و بد کا حساب بھی ساتھ ساتھ ہی ہوتا رہتا ہے اُن کو
اُن کی جزاۓ حیات و سزاۓ حیات بھی ساتھ ساتھ ہی برابر ملتی رہتی ہے ، مقصدِ
کلام یہ ہے کہ جو انسان اپنی اِس زندگی میں اپنی اُس زندگی میں جانے کے لیۓ
تیار ہوگا وہ انسان دُنیا و عُقبٰی دونوں میں بامراد ہوگا اور جو انسان
اپنی اِس زندگی میں اپنی اُس زندگی کے لیۓ تیار نہیں ہوگا تو وہ انسان
دُنیا اور آخرت دونوں میں ہی ناکام و نامراد رہے گا اور اِس حوالے سے اللہ
تعالٰی کی اِس کتاب میں جو قانون درج ہے اُس قانون کے مطابق انسان کی اِس
بامرادی و نامرادی کا معیار صرف اور صرف قُرآن ہے ، جو انسان اِس دُنیا میں
قُرآن کی اتباع کرے گا وہ انسان یقنا اُس دن اللہ تعالٰی کی اُس گرفت سے
بَچ جاۓ گا اور جو انسان اِس دُنیا میں قُرآن کی اتباع سے زبانی یا عملی
رُو گردانی کرے گا وہ انسان اُس دن یقنا اللہ تعالٰی کی اُس گرفت میں چلا
جاۓ گا اور اُس دن اُس انسان کو اللہ تعالٰی کی اُس گرفت سے اللہ تعالٰی کے
سوا بچانے والا کوئی بھی نہیں ہوگا !!
|