قُرآن کا معیار نبوت اور اَغیار نبوت !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزُمر ، اٰیت 64 تا 70 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل افغیر
اللہ تامرونی اعبد
ایھاالجٰھلون 64 ولقد
اوحی الیک والی الذین من
قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک
ولتکونن من الخٰسرین 65 بل اللہ فاعبد
وکن من الشٰکرین 66 وماقدراللہ حق قدرهٖ و
الارض جمیعا قبضته یوم القیٰمة والسمٰوٰت مطویٰت
بیمینهٖ سبحٰنهٗ وتعٰلٰی عمایشرکون 67 ونفخ فی الصور
فصعق من فی السمٰوٰت ومن فی الارض الّا من شاء اللہ ثم
نفخ فیه اخرٰی فاذاھم قیام ینظرون 68 واشرقت الارض بنور
ربھا ووضع الکتٰب وجائ بالنبیٖن والشھداء وقضی بینھم بالحق و
ھم لایظلمون 69 ووفیت کل نفس ماعملت وھو اعلم بما یفعلون 70
اے ہمارے رسُول ! جب آپ مُنکرینِ قُرآن کے ساتھ مکالمہ کریں تو اُس مکالمے کے دوران مُنکرینِ قُرآن سے یہ سوال بھی ضرور کریں کہ تُم عالَم و نظامِ عالَم سے اپنی بے خبری کے باعث مُجھ سے کیوں یہ توقع رکھتے ہو کہ میں تُمہاری اِس بات کو مان لوں گا کہ اللہ کا عالَم اُس کے جن فطری اَحکام کا تابع ہے میں اُن فطری اَحکام کی پیروی چھوڑ کر تُمہارے اِس خیال کی پیروی کرلوں گا کہ اللہ کاعالَم تو اللہ کے فطری احکام کے تابع رہے لیکن انسان کو اُس وقت تک اُن فطری اَحکام سے آزاد چھوڑ دیا جاۓ جب تک کہ وہ لَمحہ نہ آجاۓ جب اللہ زمین و آسمان کے سارے قوانین فطرت کو اپنی ہتھیلی پر لپیٹ کر سامنے نہ آجاۓ اور وہ اپنے انبیاء و رُسل کے بجاۓ بذاتِ خود ہی انسان کو اپنے اَحکام کی تعلیم نہ دینے لگ جاۓ لیکن وہ لَمحہ اُس وقت آۓ گا جب عالَم میں انقلابِ عالَم کا پہلا اور دُوسرا بگل بھی بَج جاۓ گا اور اُس وقت تُمہاری آزمائش ایک حقیقت بن کر تُمہارے سامنے آجاۓ گی اور اِس کے ساتھ ہی تُمہارے اعمالِ نیک و بد کے حساب و احتساب کا عمل شروع ہو جاۓ گا لہٰذا تُم مُجھ سے اپنی اِس خلافِ عقل بات پر توجہ دینے کی کوئی توقع نہ رکھو کیونکہ اللہ نے اپنی جو وحی مُجھ سے پہلے اپنے پہلے انبیاۓ کرام پر نازل کی ہے وہی وحی مُجھ پر بھی نازل کی ہے لیکن تُم نے اُس وحی کی اِس اہمیت کے بارے میں کبھی یہ اندازہ ہی نہیں لگایا ہے کہ اگر عالَم و اہلِ عالَم کو اُس وحی سے آزاد کر دیاجاۓ تو اِس عالَم سے اِس عالَم کا وہ سارا نظام فنا ہو جاۓ گا جو اِس عالَم و اہلِ عالَم کی بقا کا ضامن ہے اِس لیۓ اللہ نے مُجھے حُکم دیا ہے کہ میں تُمہاری توقعات پر توجہ دینے کے بجاۓ اتباعِ حق کا وہ کارِ نبوت اُس وقت تک جاری رکھوں جب تک کہ اللہ کے علمِ عالمگیر کی روشنی پُورے عالَم پر نہ چھا جاۓ اور جب تک مرنے والوں کے مرنے کا اور جینے والوں کے جینے کا ہر لاینحل معاملہ اُس کے اُس اَبدی قانُون کے مطابق حل نہ ہو جاۓ جس اَبدی قانون کے عملی نفاذ کے لیۓ اِس عالَم میں اللہ کے انبیاء و رُسل مبعوث ہوتے رہے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان کی اُفتادِ طبع ہمیشہ سے یہ رہی ہے کو جو چیز اِس کو حاصل نہیں ہوتی وہ چیز اِس کے لیۓ ہمیشہ ہی ایک اہم چیز ہوتی ہے اور جو چیز اِس کو حاصل ہوجاتی ہے تو وہ چیز اِس کی نظر میں ہمشہ ہی ایک غیر اہم چیز ہوجاتی ہے ، اِس کے موجُود ماحول سے جو ماحول جتنا زیادہ اَجنبی ہوتا ہے وہ اُس ماحول میں جانے اور رہنے کے لیۓ اتنا ہی زیادہ ترستا رہتا ہے اور اپنے جس ماحول میں وہ رہ رہا ہوتا ہے تو اپنے اُس ماحول سے وہ اتنا ہی زیادہ اُکتایا ہوا رہتا ہے ، جو انسان اِس سے جنتنے زیادہ فاصلے پر ہوتا ہے اُس انسان سے وہ ملنے کی اتنی ہی زیادہ آرزُو کرتا ہے اور جو انسان اُس سے جتنے کم فاصلے پر ہوتا ہے اُس انسان کے ساتھ وہ اتنا ہی زیادہ فاصلہ قائم کرلیتا ہے ، جو انسان اُس کے گھر میں اُس کا باپ اور جو انسان اُس کے مُلک میں اُس کا ایک بادشاہ ہوتا ہے وہ اگرچہ ایک ہی طرح کا ایک انسان ہوتا ہے لیکن اِس مُتلون مزاج انسان کے دل میں اپنے مُلک کے اُس بادشاہ انسان کو دیکھنے کی عُمر بھر جو ہمہ وقتی طلب ہوتی رہتی ہے اُس مُتلون مزاج انسان کے دل میں اپنے باپ کو دیکھنے کی عُمر بھر وہ ہمہ وقتی طلب نہیں ہوتی تا وقتیکہ اُس کا باپ اُس کے دیس سے دُور چلا جاۓ یا اُس کی دُنیا ہی سے دُور ہو جاۓ ، یہ مُتلون مزاج انسان اپنے جن بزرگوں کی اُن کی زندگی میں قدر نہیں کرتا وہ اُن کے مرنے کے بعد اُن کے مزار بنا کر اُن کا مجاور اور پُجاری بھی بن جاتا ہے لیکن جیتے جی اُن کی قدر و منزلت کا ایک حد سے زیادہ خیال بھی نہیں آتا ، انسانی تاریخ کے مُختلف ادوار میں انسانی اقوام میں اللہ تعالٰی کے جو انبیاء و رُسل تشریف لاتے رہے ہیں انسان اپنی اسی اُفتادِ طبع کے باعث اللہ تعالٰی کے اُن انبیاء و رُسل کا بھی اِس خیال سے انکار کرتا رہا ہے کہ ہمارے ہی ملک اور ہماری ہی قوم کا جو انسان ہماری ہی طرح کا ایک انسان ہے وہ ہمارا نبی یا رسُول کس طرح ہو سکتا ہے ، یعنی فطرت کے اعتبار سے جو چیز ایک انسان کی دُوسرے کے ساتھ ایک قُدرتی قُربت کا باعث ہوتی ہے اُسی چیز کو انسان نے اپنی اُفتادِ طبع کے باعث ہمیشہ ہی اپنے لیۓ ایک دُوری کا باعث بنادیتا ہے اور اسی اُفتادِ طبع کی بنا پر انسان نے ہر زمانے میں اللہ تعالٰی کے انبیاء و رُسل کا بھی انکار کیا ہے ، اِس کی ایک عام فہم وجہ یہ ہے کہ جو انسان اندر سے خود جتنا کم تر ہوتا ہے وہ اپنے قریب آنے والے انسان کو بھی اتنا ہی کم تر سمجھتا ہے ، انسان کی اسی اُفتادِ طبع کا خیال رکھتے ہوۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو انسان کے لیۓ حق کا معیار نہیں بنایا بلکہ انسان کے لیۓ انسان پر نازل ہونے والی وحی کو حق کا معیار بنایا ہے اور اپنے ہر نبی کو حق کا معیار بنانے کے لیۓ اپنے ہر نبی کو اپنی وحی کا حامل بنایا ہے تاکہ اُس کی ہر زمین اور اُس کے ہر زمانے کے انسان اُس کی وحی پر ایمان لائیں اور اُس کے اُن اَحکامِ نازلہ کی پیروی کریں جو اَحکام اُس نے اپنے اُس نبی اور اپنے اُس رسول پر نازل کردیۓ ہیں جو اُس پر نازل ہونے والی کتابِ ہدایت میں موجُود ہیں ، اٰیاتِ بالا کے اِس ایک مُختلف الجہات مضمون میں اگرچہ بہت سے دیگر علمی و فکری مضامین بھی شامل ہیں لیکن اُن تمام مضامین کا مرکزی مضمون مُنکرینِ قُرآن کا وہی فرسودہ خیال ہے کہ ہم پر ہماری ہی قوم کا اور ہماری ہی طرح کی جان رکھنے والا ایک انسان نبی بنا کر کیوں مبعوث کیا گیا ہے ، اگر اللہ تعالٰی کو ہماری ہدایت ہی مطلوب ہے تو وہ خود ہی ہمارے سامنے آجاۓ اور خود ہی ہم پر یہ حقیقت واضح کردے کہ ہماری ہدایت کیا ہے اور ہماری ضلالت کیا ہے تاکہ ہم ایک ہی بار راہِ ضلالت کو ترک کردیں اور ایک ہی بار راہِ ہدایت کو اختیار کرلیں ، اہلِ روایت نے اٰیاتِ بالا سے جو مفاہیم اخذ کیۓ ہیں ہم اُن کی تردید اِس لیۓ نہیں کریں گے کہ اٰیاتِ بالا سے وہ مفاہیم بھی اخذ کرنے کی گنجائش موجُود ہے جو انہوں نے اخذ کیۓ ہیں لیکن اٰیاتِ بالا کے الفاظ کی بندش و ترکیب اور اِن اٰیاگ کے سیاق و سباق میں جو چیز زیادہ واضح طور پر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ نزولِ قُرآن کے زمانے میں مُنکرینِ قُرآن کی ایک جماعت تو وہ تھی جس کے افرادِ جماعت کے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ اگر ہم ایمان لے بھی آئیں گے تو کیا خبر کہ ہم اہلِ ایمان کے برابر کے اہلِ ایمان بھی کبھی بن پائیں گے یا کبھی بھی نہیں بن پائیں گے اور اِن لوگوں کی اِس فکری یاس کو آس میں بدلنے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اِس سُورت کی اٰیت 53 میں اِن کو اپنی رحمت و مہربانی پر بھروسا کرنے کی تاکید کی تھی جبکہ اِن لوگوں کے برعکس مُنکرینِ قُرآن کی ایک دُوسری جماعت وہ تھی جو بزعم خود یہ مَنطقی استدلال کیا کرتی تھی کہ اگر اللہ تعالٰی کے انبیاۓ کرام کی دعوتِ حق کا مقصد صرف انسانی ہدایت ہے تو اللہ تعالٰی نے جو ہدایت اپنے انبیاۓ کرام کو براہِ راست دی ہوئی ہے وہی ہدایت ہمیں بھی ہمارے سامنے آکر براہِ راست دے دے اور اُن کی اسی فرسودہ اور بیہودہ دلیل کے جواب میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو اُن کے ساتھ وہ علمی و عقلی مکالمہ کرنے کا اختیار دیا ہے جو مکالمہ اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ہم نے درج کیا ہے ، مکالمے کا علمی و کتابی مفہوم دو اَفراد یا دو جماعتوں کا وہ مُشترکہ اور ملا جُلا کلام ہوتا ہے جو کلام وہ ایک دُوسرے کے ساتھ کرتے ہیں اور مُنکرینِ قُرآن چونکہ اکثر ہی اِس طرح کا سوالیہ تکلم کرتے رہتے تھے اور سیدنا محمد علیہ السلام بھی اللہ تعالٰی کے حُکم کے مطابق اُن کے سوالات کے جوابات دیتے رہتے تھے اِس لیۓ قُرآنِ کریم میں جہاں جہاں پر بھی اِس طرح کے سوال و جواب آتے ہیں وہ قُرآنِ کریم نے اُس زمانے کے اُس مفید مکالمے کے طور پر ہی محفوظ کیۓ ہیں جو مفید مکالمہ اُس زمانے کے اہلِ مکالمہ افراد کی ہدایت کا باعث ہوتا تھا اور کبھی وہی مکالمہ سننے والوں کی ہدایت کا ذریعہ بھی بن جاتا تھا لیکن قُرآنِ کریم میں نقلِ مکالمہ کا سبب انسان کو اِس بات کا احساس دلانا ہے کہ مکالمہ اہلِ مذاب و اہلِ اَدیان کے درمیان افہام و تفہیم اور اتمامِ حُجت کا وہ فطری عمل ہے جس کو مذاہب و اَدیان کے اہلِ حل و عقد کے درمیان ایک فطری عمل کے طور پر ہمیشہ جاری رہنا چاہیۓ ، قُرآنِ کریم کی اِس قُرآنی تعلیم کی انسانی تاریخ بھی تصدیق کرتی ہے کہ دُنیا کی جو اقوام جنگ و جدل کے بجاۓ مکالمے کا اہتمام کرتی ہیں وہ ہمیشہ ہی بامُراد ہوتی ہیں اور جو قومیں مکالمے کے بجاۓ مُجادلے پر یقین رکھتی ہیں وہ ہمیشہ ہی نامُراد ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ حکمتِ عملی کے اعتبار انسان کا اختیار کیا گیا معیارِ نبوت ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور اغیارِ نبوت کا اختیار کیا گیا مشن ہمیشہ ہی ناکام رہتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461107 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More