#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالمؤمن ، اٰیت 1 تا 4
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
حم 1 تنزیل
الکتٰب من اللہ العزیز
العلیم 2 غافر الذنب و قابل
التوب شدید العقاب ذی الطول
لآالٰه الّا ھو الیه المصیر 3 مایجادل
فی اٰیٰت الذین کفروا فلایغررک تقلبھم
فی البلاد 4
یہ کتاب اُس اللہ نے اپنی حمد کرنے والے محمد پر نازل کی ہے جو اپنے اِس
عالَمِ خلق کا ایک ہی بالا دَست خالقِ عالم ہے ، جو اپنے اِس عالَمِ خلق
میں ہر ایک معافی مانگنے والے کے لیۓ ایک ہی عفوِ خاص و عام کا مُختارِ
عالَم ہے ، جو اپنے اِس عالَمِ خلق میں ہر ایک توبہ کرنے والے کی توبہ کو
ایک ہی قبول کرنے والا تَوابِ عالَم ہے ، جو اپنے اِس عالَمِ خلق میں ہر
ایک سرکش کی سرکوبی کرنے والا ایک ہی قُوت و قُدرت کا مالک ہے ، جو اپنے
اِس عالَمِ خلق میں ہر ایک مُحتاج کے احتیاج کو دُور کرنے والا ایک ہی داتا
ہے اور جو اپنے اِس عالَمِ خلق کی ہر ایک مخلوق کا وہ ایک اِلٰہ ہے جس کے
اِس عالَمِ خلق میں اُس ایک اِلٰہ کے سوا کوئی بھی اِلٰہ نہیں ہے لیکن جو
لوگ اللہ تعالٰی کی اِن اٰیات و مقصدِ اٰیات کو جُھٹلانے کے لیۓ کُچھ کَج
بحث لوگ تُمہارے شہروں اور تُمہارے بازاروں میں چلتے پھرتے ہوۓ جو بحثیاں
کرتے پھر رہے ہیں تو اُن کا وجُود اُن چلتی پھرتی لاشوں کی طرح ہے جن کا
نظر آنے والا جسم ایک ایسا جسم ہوتا ہے جس جسم میں رُوح موجُود نہیں ہوتی
اِس لیۓ اللہ کے اہلِ ایمان بندوں کو اِن بے اَمان زندہ لاشوں سے خوف زدہ
ہونے کی ضرورت نہیں ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اِس سُورت سے پہلی سُورت کی آخری اٰیات سے پہلی اٰیات میں
بالعموم اور اُس کی آخری اٰیات میں بالخصوص ترکِ شرک و نجات جہنم اور قبولِ
توحید و حصولِ جنت کا جو موضوعِ سُخن جاری تھا اِس سُورت میں اِس سُورت کا
موضوعِ سُخن بھی وہی ترکِ شرک و نجاتِ جہنم اور قبولِ توحید و حصولِ جنت ہے
اور قُرآنِ کریم کا یہ وہ موضوعِ سُخن ہے جس نے اللہ تعالٰ کی وحدانیت پر
ایمان لانے والی اور اللہ تعالٰی کی وحدانیت پر ایمان نہ لانے والی انسانی
جماعتوں کو ایمان و عدمِ ایمان کی بُنیاد پر ایک دُوسری سے جُدا جُدا کردیا
ہے ، اِن دو جماعتوں میں سے جو مُنکر و مُشرک جماعت اللہ تعالٰی کی وحدانیت
پر ایمان نہیں لاتی وہ جماعت اِس بات پر تو یقین رکھتی ہے کہ اللہ تعالٰی
اِس عالَم کا حقیقی خالق و مالک ہے لیکن وہ جماعت اپنے دل کے اِس زبانی
یقین کے ساتھ اپنے دل میں شک کا یہ گُم راہ کُن خیال بھی رکھتی ہے کہ اللہ
تعالٰی کی اِس مخلوق میں اللہ تعالٰی کے کُچھ ایسے پسندیدہ بندے بھی موجُود
ہوتے ہیں جو بندے اللہ تعالٰی کے حُکم سے کسی مُحتاج و مجبور انسان کی حاجت
روائی اور مُشکل کشائی کا اختیار رکھتے ہیں اور اپنے اِسی خُدائی اور عطائی
اختیار سے انسانوں کی مُشکل کشائی بھی کرتے رہتے ہیں اِس لیۓ قُرآنِ کریم
نے اُن مُشرکوں کے اِس مُشرکانہ خیال کو رَد کرنے کے لیۓ اِس سُورت کے آغاز
میں ہی اللہ تعالٰی کے مُکمل علم اور اُن کے خیالی خُداؤں کی ہر علم سے
مُکمل لاعلم ہونے کا ، اللہ تعالٰی کے صاحبِ معافی ہونے کا اور اُن کے
خیالی خُداؤں سمیت اُن سب کے مُحتاجِ معافی ہونے کا ، اللہ تعالٰی کی صفتِ
اُلوہیت کا اور اُن کے خیالی خُداؤں کی عدمِ اہلیت کا ، اللہ تعالٰی کے
مُختارِ کُل ہونے کا اور اُن کے خیالی خُداؤں کے بے اختیارِ محض ہونے کا
ذکر کرکے اُن سب مُشرکوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح تُمہارے یہ خیالی
خدا اپنی ذات میں اللہ تعالٰی کے مُحتاج ہیں اسی طرح وہ ہر ایک بات میں
اللہ تعالٰی کے مُحتاج ہیں اِس لیۓ تُم سوچ سمجھ کر اہلِ ایمان کی طرح ایک
بے میل ایمان لے آؤ تاکل تُم بھی اہلِ ایمان کی دُنیا و آخرت دونوں میں
نجات پاجاؤ اور اسی پیغام میں اہلِ ایمان کو بھی یہ پیغام دیا گیا ہے کہ
دُنیا میں بظاہر تو فتنہ و اہلِ فتنہ کا پلّہ ہمیشہ بھاری نظر آتا ہے لیکن
درحقیقت حق اور اہلِ حق کا پَلّہ ہی ہمیشہ بھاری ہوتا ہے کیونکہ اہلِ حق کی
معمولی سی قُوت بھی اُن کو دُنیا کی ایک بڑی سے بڑی طاقت کے مقابلے میں ایک
فاتحِ عالَم بنا دیتی ہے ، قُرآنِ کریم نے اِس سلسلے میں اہلِ ایمان کے
سامنے انسانی تاریخ سے جو تین حیران کُن مثالیں پیش کی ہیں اُن میں سے پہلی
حیران کُن مثال اِس سُورت کی اٰیت 26 تا اٰیت 45 میں اِس سُورت کے نفسِ
موضوع کے طور پر اِس طرح بیان کی ہے کہ مصر کےفرعون نے جب مُوسٰی علیہ
السلام کی ہلاکت کا منصوبہ بنایا تو اللہ تعالٰی نے فرعون کے اپنے خان دان
کے اُس مَردِ حُر کو اُس کے مقابلے میں کھڑا کردیا جس مردِ حر نے فرعون کو
اُس کے اُس اَقدام سے روکنے کی آخر دم تک کوشش کی اور پھر جب فرعون نے
مُوسٰی علیہ السلام کو ہلاک کرنے کا حتمی فیصلہ کر کے اُن کے پیچھے اپنے
خوں خوار ہرکارے بھی دوڑا دیۓ تو سُورَةُالقصص کی اٰیت 20 کے مطابق اللہ
تعالٰی نے اُس خاص لَمحے میں فرعونِ مصر کے اُن خوں خوار ہرکاروں کے مُوسٰی
علیہ السلام تک پُہنچنے سے پہلے ہی اپنے اُس بندہِ خاص کو مُوسٰی علیہ
السلام تک پُہنچا دیا جس بندہِ خاص نے مُوسٰی علیہ السلام کو مصر کی سرحد
سے نکال کر مدین کی سرحد تک پُہنچادیا اور سب سے آخر میں جب اللہ تعالٰی
مُوسٰی علیہ السلام کو مدین سے مصر میں واپس لایا تو فاتحِ مصر بنا کر مصر
میں واپس لایا ، دُوسری حیران کُن مثال جو سُورَہِ یٰس کی اٰیت 20 میں پیش
کی گئی ہے تو اُس حیران کُن مثال میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک زمانے میں جب
زمین کی ایک بڑی طاقت نے اُس وقت کے دو انبیاۓ کرام کی جان لینے کا فیصلہ
صادر کیا تو اللہ تعالٰی نے اُسی بڑی طاقت کی طاقت ور آغوش سے ایک مردِ حُر
کو نکال کر اُن انبیاۓ کرام تک پُہنچا دیا جس نے اُن کی دعوتِ حق کی تصدیق
کر کے ایمان بھی قبول کیا اور اپنی آخری سانس تک اُن انبیاۓ کرام کا سینہ
سپر ہو کر ساتھ بھی دیا اور تیسری حیران کُن مثال وہی مثال ہے جس کا ذکر
اِس سُورت کی 26 تا 45 میں آۓ گا اور اِن تین کی تین اَمثال کا واحد مقصد
یہ بتانا ہے کہ زمانے میں جب بھی کسی فرعون کی طرف سے اللہ تعالٰی کے کسی
صادق نبی کی جان لینے کی کو شش کی جاتی ہے تو اللہ تعالٰی اُس صادق کے قاتل
کا ہاتھ روکنے کے لیۓ اُس کی اُمت میں سے اُس مردِ صدیق کو کھڑا کردیتا ہے
جو مردِ صدیق اُس قاتل کا کامیابی کے ساتھ اِس طرح ہاتھ روکتا ہے جس طرح
فرعونِ مصر کے مقابلے میں اللہ تعالٰی نے اُس زمانے کے اُس انسان کو کھڑا
کردیا تھا جس کا نام حبیب تھا اور اُس حبیب نے اپنی بہترین حکمتِ عملی سے
فرعون کے مامور کیۓ ہوۓ قاتل کو مُوسٰی علیہ السلام تک پُہنچنے ہی نہیں دیا
تھا اور اسی طرح جب مکے کے فراعنہ نے جب سیدنا محمد علیہ السلام کی جان
لینے کے لیۓ عُقبہ بن ابی معیط کو ہلہ شیری دے کر آگے کیا تو اُس وقت بھی
اللہ تعالٰی نے اُس کے مقابلے کے لیۓ ابو بکر صدیق کو کھڑا کر دیا تھا اور
ابو بکر صدیق نے اُس کا ناپاک ہاتھ اپنے نبی تک پُہنچنے سے روک دیا تھا
تاہم اِس واقعے کا مُفصل ذکر اِس کے متعلقہ مقام پر آۓ گا ، اِس سُورت کا
ایک معروف نام غافر ہے جو اِس سُورت کی تسیری اٰیت کا پہلا لفظ ہے لیکن اِس
سُورت کا جو خاص نام ہے وہ { المؤمن } ہے جس سے عھدِ بنی اسرائیل کا وہ
بندہ مُومن بھی مُراد ہے جس کا نام جبیب بتایا جاتا ہے جس نے اپنی جان پر
کھیل کر مُوسٰی علیہ السلام کی جان کو بچایا تھا اور اِس سے مُراد عہدِ
نبوی کا وہ مردِ مومن بھی ہے جس کا نام ابو بکر صدیق ہے اور جس نے اپنی جان
پر کھیل کر اُس عُقبہ بن ابی معیط سے سیدنا محمد علیہ السلام کی جان کو
بچایا ہے جو مکے کے سفاک فرعونوں کا ایک کافر و قاتل نمائندہ تھا !!
|