#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالمؤمن ، اٰیت 5 تا 9
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
کذبت
قبلھم قوم
نوح والاحزاب من بعد
ھم وھمت کل امة برسولھم
لیاخذوه وجادلوا بالباطل لیدحضوا
بهٖ فاخذتہم فکیف کان عقاب 5 وکذٰلک حقت
کلمت ربک علی الذین کفرواانھم اصحٰب النار 6 الذین
یحملون العرش ومن حولهٗ یسبحون بحمد ربھم ویؤمنون بهٖ
و یستغفرون للذین اٰمنوا ربنا وسعت کل شئی رحمة و علما فاغفر
للذین تابوا واتبعوا سبیلک وقھم عذاب الجحیم 7 ربنا وادخلھم جنٰت
عدن التی وعدتھم و من صلح من اٰبائھم و ازواجھم و ذریٰتھم انک انت
العزیز الحکیم 8 و قھم السیاٰت و من تق السیاٰت یومئذ فقد رحمتهٗ و ذٰلک
ھوالفوزالعظیم 9
اے ہمارے رسُول ! آپ کی قوم سے پہلے نُوح کی قوم نے بھی ہماری اٰیات کی اسی
طرح تکذیب کی ہے جس طرح آپ کی قوم کر رہی ہے اور نُوح کی قوم کے بعد بھی
بہت سی حق کی مُنکر جماعتوں نے ہمارے رسُولوں کو اپنے اپنے ڈھب پر لانے کے
لیۓ یہی کُچھ کیا ہے جو اِس وقت آپ کی قوم کر رہی ہے مگر جس طرح ہم نے اُن
پہلی قوموں کو انکارِ حق کے بدترین عمل کی ایک بدترین سزادی ہے اسی طرح ہم
اِس قوم کے مُنکرینِ حق کو بھی پہلے مُنکرینِ حق کے ساتھ جہنم رسید کریں گے
لیکن جو لوگ ایمان لائیں گے تو ہم اُن کو ارتقاۓ حیات کے اِن مراحلِ حیات
سے گزار کر اپنے اُن ترقی یافتہ بندوں کا ساتھی بنائیں گے جو ارتقاۓ حیات
کے اِن سارے مراحل سے گزرنے کے بعد اللہ کے مرکزِ اقتدار کے قریب پُہنچ کر
خیر و فلاح کی اَنجام دہی میں مصروف ہو چکے ہیں اور وہ اہلِ ایمان کے لیۓ
بھی اُس مقام تک پُہنچنے کے لیۓ ہمہ وقت یہ دُعا کرتے رہتے ہیں کہ :- اے
ہمارے پالنہار تیرے جو جو بندے تُجھ سے رجوع کریں ، پھر تیرے اَحکامِ نازلہ
پر عمل بھی کریں تو ، تُو اپنے علمِ بے خطا و اپنی رحمتِ بے بہا کی بدولت
اُن کی خطابخشی فرما ، اُن کو اسی راہِ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور
اُن کو اپنی اُن جنتوں کا مالک بنا جن کا تُو نے اُن کے ایمان کے بدلے میں
اُن سے وعدہ کیا ہے اور اے ہمارے پالنہار تُو اپنی اِس عطا اور اپنی اِس
جُود و سخا کو اُن کی ذات سے بھی آگے بڑھا اور اُن کے آباو اَجداد کو بھی
اپنی رحمت کا حق دار بنا اور اُن کے نسلی جوڑوں کو اور اُن نسلی جوڑوں سے
پیدا ہونے والی ساری نسلوں کو بھی اسی راہِ حق پر چلا جس کا مُنتہٰی تیری
جنت ہے اور تُو اپنی قُدرتِ کاملہ و حکمتِ نافعہ اور رحمتِ واسعہ کی بدولت
اُن کو ہمیشہ اعمالِ شر سے بچا تاکہ وہ راہ بہٹکے بغیر سیدھے اپنی منزلِ
مُراد تک پُہنچ جائیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا سُخنِ اعلٰی بھی ترکِ شرک و نجاتِ جہنم اور قبولِ توحید و
حصولِ جنت کی وہی انقلابی تنزیل ہے جس انقلابی تنزیل کا اِس سُورت کی پہلی
اٰیات سے اِس دعوے اور اِس دلیل کے ساتھ آغازہوا ہے کہ یہ وہی قدیم انقلابی
تنزیل ہے جس قدیم انقلابی تنزیل کے اَحکامِ نازلہ کی انسان سے تعمیل کرانے
کے لیۓ محمد علیہ السلام سے پہلے بھی اللہ تعالٰی کے بہت سے برگزیدہ
اَنبیاۓ کرام علیہم السلام دُنیا میں تشریف لاتے رہے ہیں اور اَب اُسی
انقلابی تنزیل کے اَحکامِ نازلہ کی انسان سے تعمیل و تکمیل کرانے کے لیۓ
محمد علیہ السلام بھی دُنیا میں تشریف لاۓ ہیں ، اللہ تعالٰی نے اپنی اِس
جدید و قدیم تنزیل میں اپنی اُس قدیم اور اپنی اِس جدید تنزیل کی اِس تعمیل
و تکمیل کا یہ طویل تذکرہ بار بار کی طرح اِس بار بھی اِس کی اس اہمیت کی
بنا پر کیا ہے اور اِس پس منظر کے ساتھ کیا ہے کہ توحید و شرک کی اِس فطری
تقسیم میں اہلِ شرک کی تعداد چونکہ ہمیشہ ہی اہلِ توحید کے مقابلے میں
زیادہ رہی ہے اِس لیۓ ہر زمین اور ہر زمانے کے اہلِ شرک اپنی عددی کثرت کی
بنا پر جس طرح ہر زمین پر ہر زمانے کے انبیاۓ کرام اور اُن کی اُمتوں کو
نیچا دکھانے کی جو مذموم کوششیں کرتے رہے ہیں اسی طرح وہ مکے کی زمین پر
محمد علیہ السلام کے زمانے میں محمد علیہ السلام اور آپ کی اُمت کو بھی
نیچا دکھانے کی وہی مذموم کوششیں کر رہے ہیں ، انسانی تاریخ کے اسی خاص پس
منظر میں اٰیاتِ بالا سے پہلی اٰیات میں توحید و شرک کی ہونے والی اُس
تقسیم کے بعد اَب اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی کی اُس مدد کا ذکر کیا گیا
ہے جو مدد ہر زمین اور ہر زمانے کے اہلِ حق کو ہمیشہ ہی ملتی رہی ہے اور جو
مدد ہر زمین اور ہر زمانے کے اہلِ حق کو ہمیشہ ہی ملتی رہے گی ، اِس سے
پہلی اٰیات کے پہلے مضمون کی ضمنی بحث کے درمیان میں ہم نے اسی پس منظر میں
قُرآنِ کریم میں بیان ہونے والی اُن تین اَمثال کا حوالہ دیا تھا جن تین
اَمثال میں اُن تین اَفراد کی اُس جراتِ مردانہ کا ذکر کیا گیا تھا جس
جراتِ مردانہ کے ساتھ وہ تین افراد تین مُختلف زمانوں میں تَنِ تنہا ہونے
کے باوجُود بھی محض اللہ تعالٰی کی مدد سے کفر کی پُوری مِلّت کے مقابلے
میں کھڑے ہو گۓ تھے اور آخر دم تک پُوری عالی ہمتی کے ساتھ اُن کے مقابلے
میں کھڑے رہے تھے ، قُرآنِ کریم نے اپنی اُن مُختلف سُورتوں کی اُن مُختلف
اٰیات میں اُن عالی ہمت اَفراد کی اُس انفرادی عالی ہمتی کے بعد اَب اِس
سُورت کی موجُودہ اٰیات میں یہ بتایا ہے کہ جب کسی اُمت کی یہ اجتماعی اور
انفرادی قُوتِ عمل جواب دے جاتی ہے تو اُس وقت اللہ تعالٰی حق کو زمین سے
مٹانے والی اُس باطل قوم کو اسی طرح مٹا دیتا ہے جس طرح اُس نے نُوح کی قوم
اور اُس کے بعد بھی بہت سی قوموں کو مٹا دیا تھا اور اِس لیۓ مٹا دیا تھا
تاکہ اہلِ حق اپنے پُورے ایمان و یقین کے ساتھ یہ بات جان لیں کہ زمین پر
اُترنے والے پہلے انسان سے لے کر زمین میں اُترنے والے آخری انسان تک ہر
ایک انسان کی نجات کا ذریعہ قُرآن کی یہی تنزیلِ ہدایت ہے جو ہر زمان و
مکان میں ہمیشہ موجُود رہی ہے اور ہر زمان و مکان میں ہمیشہ موجُود رہے گی
اور جو قوم آنے والے کسی زمانے میں بھی حق کو مٹانے کی کوشش کرے گی تو وہ
زمین سے سی طرح مٹا دی جاۓ گی جس طرح پہلی حق کی دُشمن قومیں مٹائی جاتی
رہی ہیں اور اِن ہی اٰیات کے اسی بین السطور میں اللہ تعالٰی نے اہلِ شرک
کے مقابلے میں اپنی اُس مدد کا ذکر بھی کیا ہے جو سیدنا محمد علیہ السلام
اور آپ کی اُمت کو ایک وعدہِ اَزل کی طرح ہمیشہ سے حاصل رہی ہے اور ایک
وعدہِ اَبد کی طرح ہمیشہ ہی حاصل رہے گی ، اللہ تعالٰی کی اِس اَبدی مدد کا
اَبدی پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی اِس مدد کا اہلِ عرش کی اُن
دُعاؤں کے حوالے سے ذکر کیا ہے جو اہلِ عرش اپنے ارتقاۓ حیات و ارتفاعِ
حیات کی تمام خاکی و فرشی منازل سے گزرکر عروج و کمال کے اُس بلند تر مقام
کے آس پاس پُہنچ چکے ہیں جس بلند تر مقام کا نام عرشِ اعلٰی ہے اور عرشِ
اعلٰی کے اُس بلند تر مقام پر پُہنچنے والے وہ تمام عالی مرتبت لوگ اللہ
تعالٰی سے ایمان دار اہلِ زمین کے لیۓ ہر وقت خطا بخشی و بلندیِ درجات کی
وہ دُعا مانگتے رہتے ہیں جس دُعا کا اللہ تعالٰی نے اپنے علمِ لامحدُود کے
مطابق متنِ اٰیات میں ذکر کیا ہے اور جس کا ہم نے اپنی عقلِ محدُود کے
مطابق ایک محدُود سا مفہوم بیان کیا ہے ، قُرآنِ کریم کے اِس مقام پر اللہ
تعالٰی کے جس عرش کا ذکر کیا گیا ہے اُس عرش کا مفہوم اللہ تعالٰی کا وہ
تَختِ اقتدار ہے جس تختِ اقتدار کی سب سے زیادہ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ
سُورَہِ ھُود کی اٰیت 7 کے مطابق اللہ تعالٰی کے اُس عرشِ عظیم کا ایک
کنارا سات سمندروں کی سطح سے شروع ہوا ہے اور دیگر بہت سی سُورتوں کی بہت
سی اٰیات کے مطابق اُس عرش کا دُوسرا کنارا سات آسمانوں کی وسعتوں کے بعد
کے کسی لامحدُود مقام تک پھیلا ہوا ہے اور اِن ساری اٰیات کا مقصد و نتیجہِ
مقصد یہ ہے کہ سات سمندروں کی گہرائیوں سے لے کر سات آسمانوں کی پنہائیوں
تک جہاں جہاں بھی اللہ تعالٰی کا اقتدارِ اعلٰی پھیلا ہوا ہے اور اُس کے
اقتدارِ اعلٰی میں جہاں جہاں پر اُس کی جو اعلٰی مخلوق پھیلی ہوئی ہے وہ
اعلٰی مخلوق ہمہ وقت اہلِ ایمان کی حامی ہے اور وہ ہمہ وقت اہلِ ایمان کی
جان و ایمان کی سلامتی کے لیۓ دُعاۓ خیر و دُعاۓ سلامتی کرتی رہتی ہے اور
جو اہلِ ایمان اللہ تعالٰ کی اِس تنزیل کی تعمیل و تکمیل کے لیۓ کمر بستہ
رہتے ہیں اُن کی یہی وہ کامیابی و کامرانی ہے کہ زمین سے آسمان اور فرش سے
عرش تک کی ہر ایک مخلوق اُن کی پشتیبان بنی ہوئی ہے !!
|