زلفی بھائی جان
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریر: ذوالفقار علی بخاری
صبح اُٹھے تو ہمیں یاد آیا کہ ہمارے بچپن کے یار غار۔۔! ارے بھائی! شمعون میرے ساتھ بچپن میں اسلام آباد کی ایک غار میں ساتھ گیا تھا نا؟ تو تب ہی بولا ہے کہ ہمارے یار غار۔۔! شمعون نے ہم سے کہا تھا کہ اُسے اپنے بالوں کو گھنا کرنے کے لئے خاص تیل چاہیے۔ ہم نے انکار کر دیا تو اگلے روزصبح سویرے وہ تیل کی بوتل دکھانے آیا۔ پھرشمعون پیٹ ہلکا کرنے کو جونہی اُوجھل ہوا۔ ہم نے اُس بوتل کو لیپٹی ہوئی اخبار سے نکالا اور اُتنے ہی سائز کی ایک او راُتنی ہی بھاری بوتل اُس میں رکھ دی۔ شمعون ہماری موجودگی میں واپس آیا،اُس نے وہ بوتل اُٹھائی اور چلتے بنا۔ ہم نے شرارت کرنے کے بعد اپنی شکل یوں معصوم سی بنا لی تھی کہ ہم سے زیادہ شریف ترین انسان دنیا میں نہ ہوگا۔ ہم نے اپنے جگری دوست کو خراماں خراماں گھر کی جانب جاتے ہوئے دیکھا اور دل ہی دل میں مسکرائے جا رہے تھے۔ اگلے روزشمعون ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ اُس نے ہمیں پکارا۔ ”اوئے۔۔زلفی!“۔ ”ہم سے تمیز سے بات کرو“۔ ”ہم بڑے ہیں، بھائی جان ہیں تمہارے“۔ میں نے رعب جھاڑتے ہوئے کہا۔ ”یہ کیا بدتمیزی ہے“۔ شمعون نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔ ”ارے بھئی شمعون۔۔! ہم نے تو کہا کہ تمیز سے بات کرو“۔ میں نے دھیمے لہجے میں آتش فشاں کو پھٹنے سے روکا۔ ”بوتل تم نے بدلی تھی؟“۔ شمعون نے گھورتے ہوئے کہا۔ ”لوگ ہسپتا ل سے بچہ بدل لیتے ہیں؟ ہم نے تو بوتل بدلی ہے؟“۔ میں نے شمعون سے چھے فٹ کا فاصلہ قائم رکھتے ہوئے کہا۔ ”میں نے خوشی سے اپنی بیگم کو بتایا تھا کہ آج خاص تیل کی بوتل لایا ہوں“۔ شمعون نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ ”واہ بھئی واہ۔۔شادی کے بعد بھی بھابی کو تحفے دیتے ہو“۔ ہم نے مسکراتے ہوئے کہا مگرشمعون نے ہماری بات پر کان نہ دھرتے ہوئے کہا: ”جب احمد نے اخبارکو پھاڑ کر پھینکا تو فوراََ سے بول اُٹھا“۔ ”ابو یہ تو پانی کی بوتل ہے؟“۔ شمعون نے غمگین صورت بناتے ہوئے کہا۔ ”واہ۔۔واہ سبحان اللہ۔۔۔یہ تو کوئی کالا جادو ہوا ہے“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”ہاں جی! یہ جادو ایسا ہے کہ اب گھر میں بچے کہتے ہیں کہ آپ کے دوست جادوگر ہیں؟“۔ شمعون نے میر ی طرف ایک آنکھ سے گھورتے ہوئے کہا۔ ”بالکل۔۔۔زلفی جادوگر“۔ میں نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔ عین اسی لمحے شمعون اپنی آنکھ کو صاف کرنے لگا۔اُس کی آنکھ میں اُوپر سے اُڑتے ہوئے پرندے نے محبت نامہ ارسال کیا تھا جو کہ آنکھ شریف میں آگرا تھا۔ پھر ہم نے موقع سے فرار مناسب سمجھا، بھئی اب لنگوٹیا یار سے پٹتے ہوئے محلہ دیکھتا تو ہماری کتنی عزت رہ جاتی۔ گھرآئے توخوب آئی ہوئی تھی گیس، ہم نے چولہے پر توا رکھا اورانڈہ فرائی کرنے لگے،اب موت اور گیس کا پتا نہیں کب آئے اور جائے، جونہی انڈہ فرائی ہوا،گیس ”گدھے کے سر پر سے سینگ“ کی مانند غائب ہو چکی تھی۔ہم نے باسی روٹی سے انڈہ کھایا اور پھر لمبی تان کر سونے کا ارادہ بنایا۔ اب اگلی صبح اُٹھ کرشمعون کو بھی تو راضی کرنا تھا۔
٭٭٭٭٭
”بھاگو۔۔بھاگو۔۔۔زور سے آرہی ہے“۔ میں چیختے ہوئے بھاگا۔ ”پکڑو، پکڑو۔۔اِسے!“۔ میرے پیچھے بھاگنے والے کہہ رہے تھے۔ ”ابے۔۔! کیا زو ر سے آرہی ہے؟“۔ کسی نے میرے پیچھے بھاگنے والوں سے پوچھا۔ ”ارے ہمیں کیا پتا؟“۔منو شاہ بولا۔ ”ہم بھی تو اُس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟“۔اقرار نے لقمہ دیا۔ ”اب اس زلفی کے بچے کو پکڑیں تو پتا چلے کہ کیا زور سے آرہی ہے؟“۔ ایک بزرگ نے پوچھنے والے سے کہا۔ ”ارے یہ زلفی ہاتھ آئے گا تو کچھ پتاچلے گا؟“۔ میرا ہمسایہ احسن بول اُٹھا،وہ کب چپ رہتا تھا، وہ موقع کی تلا ش میں ہی رہتا تھا کب لب کشائی کرنے کا موقعہ ملے۔ ”یہ زلفی ہے، قلفی تھوڑی ہے جو ہاتھ میں آئے گی“۔ میرے بچپن کے دوست شمعون نے کہا۔ ”یہ تو کوئی چھلاوہ ہے“۔محسن بھی بول اُٹھا تھا۔ میں ہنستا ہوا بھاگتا رہا اور دروازے پر لگے تالے کو کھول کر گھر کے اندر داخل ہو گیا۔
٭٭٭٭٭
”آپ بھئی جو سمجھ رہے ہیں، اب ایسی بات نہیں ہے۔چلیں جی آپ بھی ہنس لیں مگر بات واقعی کچھ اور ہے“۔ میں تیزی سے بھاگتا ہوا، باورچی خانے میں آیا، ماچس کی تیلی جلائی اور چولہے کو جلایا۔ یہ نومبر کے دنوں کی بات تھی۔ شہر میں کمبخت گیس کمپریسرز نے ہمارے گھر کے چولہے کو ٹھنڈ اکیا ہوا تھا۔ ”گیس،آتے آتے آتی تھی“۔ کافی دن پہلے میں نے اخبار میں بھی مدیر کے نام خط لکھا تھامگر اُس نے بھی میرے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو جمہوری حکومت میں شہریوں کے ساتھ ہوتا ہے اُس نے میری بات کو اہمیت نہیں دی تھی۔اُس نے خط کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا ا پھر اُس ردی کو بیچ کر سموسے کھائے تھے۔ اُس اخبار کا پروف ریڈر میرے گھر کے پاس ہی رہتا تھا،مجھے اُس کا بخوبی پتا تھا کہ دو نمبری میں اول آتا ہے۔میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے ایک بار ردی بیچتے ہوئے دیکھا تھا۔ اُس دن کے بعد سے تو وہ سامنے آکر بھی پوچھتا تھا کہ بھئی آپ ہوکون؟ جس طرح سے ووٹ لینے کے بعد قومی اسمبلی میں بیٹھنے والا نمائندہ میری شکل بھول گیا تھا کہ میں کون تھا؟وہ بھی مجھے بھول گیا تھا۔ میں سب بھول گیا تھا کہ گیس اب چولہے میں کم مگر بدہضمی پر زیادہ آتی تھی۔ ایک دن جب علاقے سے منتخب کردہ وزیر کے پاس گیا اورکہا کہ”جناب!ہم آپ کی رعایا ہیں، ہماری بھی سن لیں“۔ اُس نے کہا تھا ”بیٹا زلفی۔۔قریب مت آنا۔۔یہ رونا دھونا کہیں اور کر، یہ منہ اور مسور کی دال“۔ ہم واقعی اُس دن سے مسور کی دال کھانے سے باز آئے ہوئے ہیں کہ جب اُس کو دیکھتے ہیں وہ وزیر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اُس نے ہم کو نالی کا کیڑا کہا تھا۔ ”ارے۔۔۔ارے بھئی۔۔ہمارے ہاں جب بارش آتی ہے توخوب آتی ہے، پھر خوب گندبھی گلی میں آتا ہے تو ہم نے نصف ایمان کے حصول کی خاطر نالی کی صفائی اپنے ہاتھوں سے کروائی تھی“۔ اُ س وزیر نامدار نے تب سے ہمارا نام یہی رکھ دیا تھا۔ہم بھلا کہاں چپ رہتے تھے ہم نے بھی اُسے ”تھالی کا بیگن“ کہہ دیا تھا۔تب سے آج تک ہماری نہیں بنتی ہے۔ اسی وجہ سے اُس نے ہماری گلی میں آخری نمبر پر ہمارے گھر گیس کنکشن لگنے کی اجازت دی تھی جس میں گیس کم اور ہوا زیادہ آتی تھی۔
٭٭٭٭٭
”سردیوں میں ہمارے ہاں گیس کم آتی ہے“۔ ہمیں جب شمعون نے ایس ایم ایس کرکے بتایا کہ چلو بتی گل ہو گئی ہے، تم فوراََ سے گھر جاکر کھانا بنا لو تو ہم نے اپنی دکان بند کی اور گھر کی طرف دوڑے۔ اب یہ ہماری غلطی تھی کہ ہم نے جلدی میں پکارنا شروع کر دیا تھا کہ ”بھاگو۔۔بھاگو۔۔۔زور سے آئی ہے“۔ حالانکہ ہم تو کہنا چاہ رہے تھے کہ بھاگو گیس آئی ہے مگر ہمارا دھیان اب پیٹ پر زیادہ تھا تب ہی زبان لڑکھڑائی تھی۔ابھی ہم نے سب کچھ تیار کرکے دیگچی میں ڈالا ہی تھا کہ ”سوں۔سوں۔سوں“ کی آواز نے کان کھڑے کر دیئے، اب یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ”کُتے کی دم“ کھڑی ہوتی ہے۔محلے والوں نے بتی کے آتے ہی گیس کمپریسرز لگا لیے تھے۔ ابھی اپناغم غلط ہی کر رہے تھے کہ ہمیں اچانک سے چند آوازیں سنائی دیں۔ ”ارے باہر نکل!”زلفی کے بچے“۔ ”کیا روز محلے میں تماشا کرتے ہو“۔ میرے پیچھے بھاگنے والے گھر تک پہنچ چکے تھے۔اُن کی آوازیں اب میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ ”ارے سنو۔۔۔بھائیو۔۔!“۔ ”ہماری تو ابھی شادی نہیں ہوئی ہے؟“۔ ہم نے ذرا سا منہ نکال کر کھڑکی میں سے کہا۔ ”پھر انہوں نے جو کہا، وہ اب ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ بھئی کچھ تو ہماری بھی عزت ہے نا؟“۔ ہم نے اتنی تیزی تو کبھی نہیں دکھائی تھی مگر بھاگ کر آئے تو گیس نے وفا نہیں کی۔ شمعون کو ہم نے فون پر اطلا ع کر دی تھی کہ آج ہم پھر ناکام و نامرادہو گئے ہیں۔ ہماری کوشش تھی کہ محلے والے گیس کمپریسر نہ لگائیں۔ ہماری انہوں نے و ہ کی تھی جو کہ نجی ادارے والے اپنے ملازم کے ساتھ کرتے ہیں تو ہم نے پھر اوکھلی میں سر دینے کی کوشش نہیں کی تھی۔ہم نے شمعون سے کہہ کر کھانے کو کچھ منگوا لیا تھا۔ اب بندہ کھائے گا نہیں تو پھر سکون سے سوئے گا کیسے کہ پیٹ میں ”گڑگڑ“کی آواز سے توہم خود نیند میں ڈر جاتے تھے۔ ہم نے کھانے کے بعد تین چار لمبی سی ڈکاریں ماریں اور”گدھے بیچ کر“ سو گئے۔ ۔ختم شد۔
٭٭٭٭٭
(بشکریہ ہفت روزہ مارگلہ نیوزانٹرنیشنل، اسلام آباد بتاریخ ٢٨فروری تا٧مارچ٢٠٢٢) |