#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالمؤمن ، اٰیات 36 تا 44
{} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
وقال
فرعون یٰھامان
ابن لی صرحا لعلّی
ابلغ الاسباب 36 اسباب
السمٰوٰت فاطلع الٰی الٰہ موسٰی
وانی لاظنهٗ کاذبا وکذٰلک زین لفرعون
سوء عملهٖ وصد عن السبیل وماکید فرعون
الّا فی تباب 37 وقال الذی اٰمن یٰقوم اتبعون اھد
کم سبیل الرشاد 38 یٰقوم انما ھٰذه المتاع الحیٰوة الدنیا
وانالاٰخرة ھی دارالقرار 39 من عمل سیئة فلایجزٰی الّا مثلھا
ومن عمل صالحا من ذکر اوانثٰی وھومؤمن فاولٰئک یدخلون الجنة
یرزقون فیھا بغیر حساب 40 ویٰقوم مالی ادعوکم الٰی النجوٰة وتدعوننی
الی النار 41 تدعوننی لاکفر باللہ واشرک بهٖ مالیس لی بهٖ علم وانا ادعوکم
الی
العزیز الغفار 42 لاجرم انما تدعوننی الیه لیس لهٗ دعوة فی الدنیا ولافی
الاٰخرة وان
مردنا اللہ وان المسرفین ھم اصحٰب النار 42 فستذکرون مااقول لکم وافوض امری
الی
اللہ ان اللہ بصیر بالعباد 44
فرعون نے مُوسٰی کا جواب سُن کر ہامان سے کہا کہ تُم میرے لیۓ فلک میں دُور
تک دیکھنے والی اُس عمارت کی بُنیاد رکھو کہ جس کی بلندی سے فلک کے دُور
دراز کے ستاروں کی چال دیکھ کر میں شاید مُوسٰی کے اُس خدا کا سراغ لگا
سکوں جس خُدا کا مُوسٰی ہم سے ذکر کرتا ہے اور اِس طرح ہم نے پہلے فرعون کی
اِس حیلہ سازی کو فرعون کے لیۓ خوب صورت بنا کر اُس کو مُوسٰی کے تعاقب سے
ہٹانے کے لیۓ اُس کی حیلہ سازی میں لگایا اور بعد ازاں ہم نے مُوسٰی کے
کارِ نبوت کی اَنجام دہی کے لیۓ اپنے اُسی بندے کو کھڑا کردیا جس نے فرعون
کی پارلیمان میں فرعون کو نیچا دکھایا تھا اور اَب اُس نے فرعون کی
پارلیمان سے باہر آ تے ہی فرعون کی سلطنت میں مُوسٰی کی مظلوم اور فرعون کی
ظالم قوم کے سامنے یہ اعلانِ عام کردیا تھا کہ مُوسٰی کے بعد اَب تُم مصر
کی سرزمین پر میری رہنمائی اختیار کرو ، میں بَھلائی کی اُسی راہ کی طرف
تُمہاری رہنمائی کروں گا جس راہ کی طرف مُوسٰی تُمہاری رہنمائی کیا کرتے
تھے ، اِس وقت تُم دُنیا میں جو زندگی گزار رہے ہو وہ دُنیا کی چند روزہ
عارضی زندگی ہے ، اہلِ ایمان کی اصل زندگی اللہ کی اُس جنت میں ہے جس جنت
کا اللہ نے اپنے ایمان دار بندوں سے وعدہ کیا ہے ، تُم میں سے جو انسان
بُرائی کا ارتکاب کرے گا تو اُس کو اُس کی بُرائی کے برابر سزا ملے گی اور
تُم میں سے جو ایمان دار مرد و زن بَھلائی کرے گا تو اُس کو وہ جزاۓ جنت دی
جاۓ گی جس میں وہ ایک دائمی راحت اور ایک دائمی آرام و سکون پاۓ گا ، یقین
کرو کہ میں تُم کو حق کے جس راستے کی طرف بُلا رہا ہوں وہ جنت کا راستہ ہے
اور اِس وقت تُم جس راستے پر چل رہے ہو وہ جہنم کا راستہ ہے کیونکہ تُمہارا
راستہ انکارِ حق کا راستہ اور میرا راستہ اقرارِ حق کا راستہ ہے ، تُم اِس
وقت جس راستے پر چل رہے ہو وہ دُنیا و آخرت دونوں میں نامرادی کا راستہ ہے
جس کا اَنجام جہنم ہے اور تُم کو میں جس راستے کی طرف بُلا رہا ہوں وہ
دُنیا و آخرت دونوں میں بامرادی کا راستہ ہے جس کا اَنجام جنت ہے ، اگر اِس
وقت تُم میری بات نہیں سنو گے تو آنے والے وقت میں اپنے اِس اعراض پر تمہیں
پَچھتاوا ہو گا لہٰذ تُم آج کے آج ہی میری یہ بات سُن لو کہ میں آج ہی اپنا
اور تُمہارا وہ راستہ مقرر کرتا ہوں جس راستے پر چلتے ہوۓ ہم سب نے اپنے
اللہ کے پاس جانا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی جن اٰیاتِ بالا کے آغاز میں عہدِ مُوسٰی میں
عہدِ مُوسٰی کے جس فرعون کی بنائی ہوئی جس بلند و بالا عمارت کا ذکر کیا ہے
اِس سُورت کی اِن ہی اٰیاتِ بالا میں اِس عمارت کے اُس طرزِ تعمیر و مقصدِ
تعمیر کا ذکر بھی کردیا ہے جس طرزِ تعمیر و مقصدِ تعمیر کے مطابق یہ عمارت
بنی ہوئی نظر آتی ہے اور قُرآنِ کریم نے اِس عمارت کے صرف اِس طرزِ تعمیر و
مقصد تعمیر کو ہی بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ سُورَةُالقصص کی
اٰیت 38 میں اِس عمارت کے مقصدِ تعمیر کے ساتھ فرعون کی اپنی زبان سے اِس
عمارت کی تعمیر کا وہ ابتدائی طریقہ بھی بیان کردیا ہے جس طریقے کے مطابق
اِس عمارت کی ابتدا ہوئی ہے اور فرعون کے اسی ابتدائی بیان میں قُرآن نے
اِس عمارت کی تعمیر کا وہ وقت بھی بتا دیا ہے جس ابتدائی بیان میں فرعون نے
ہامان کو یہ حُکم دیا تھا کہ پہلے تُم آگ کا ایک بڑا الاؤ دہکاؤ ، اِس کے
بعد تُم مٹی کے گارے سے اینٹیں بناؤ اور پھر تُم اُس گارے سے بنی ہوئی اُن
کچی اینٹوں کو آگ کے اُس الاؤ میں اچھی طرح پکاؤ اور پھر تُم اُن پکی ہوئی
اینٹوں سے وہ بلند و بالا عمارت بناؤ جس کی بلندی پر چڑھ کر میں مُوسٰی کے
اُس خُدا کے تختِ اقتدار کا سراغ لگاؤں جس خُدا کے قہر سے مُوسٰی ہمیں بار
بار ڈراتا ہے ، اگرچہ میرا ابھی بھی یہی گمان ہے کہ مُوسٰی کی یہ بات ایک
بالکُل ہی بے بُنیاد بات ہے لیکن میں اپنے اِس گمان کے باوجُود بھی اوجِ
فلک کے سیاروں کی چال سے مُوسٰی کے خدا کے تختِ اقتدار کی سمت کو متعین کر
کے اپنی قوم کو مُوسٰی کے خُدا کے اور مُوسٰی کی تحریکِ آزادی کے اُن خطرات
سے اپنی قوم و سلطنت کو بچانا چاہتا ہوں جن خطرات کے بڑھتے ہوۓ آثار مُجھے
نظر آ رہے ہیں ، قُرآنِ کریم کا اُسلوبِ عام یہ ہے کہ وہ زمین کے اُس مکان
یا اُس نشان کا ذکر کرتا ہے جو مکان یا نشان زمین پر انسان کی نگاہ میں
موجُود ہوتا ہے یا انسانی جستجو کے نتیجے میں اُس مکان یا نشان کا انسانی
نگاہ میں آنا ممکن ہوتا ہے ، اگر وہ مکان یا نشان انسانی نگاہ میں نہیں
ہوتا اور اُس مکان و نشان کا انسانی نگاہ میں آنے کا کوئی امکان بھی نہیں
ہوتا تو قُرآن اُس مکان یا نشان کا ذکر براۓ ذکر ہر گز نہیں کرتا اِس لیۓ
سُورَةُالقصص کی اُن سابقہ اٰیات اور موجُودہ سُورت کی اِن موجُودہ اٰیات
میں جو مفہومِ اٰیات بیان ہوا ہے اُس مفہومِ اٰیات کا مصداق مصر کے شہر
قاہرہ کے قریب دریاۓ نیل کی مغربی سمت میں بنی ہوئی وہی 146 میٹر بلند مثلث
نما تین عمارات ہو سکتی ہیں جن عمارات کی عُمر 4500 سال بیان کی جاتی ہے ،
قُرآنِ کریم اِن قدیم عمارات کے بارے میں انسان کی اُس قدیم راۓ کی مُکمل
تردید کرتا ہے کہ اِن عمارات میں لگاۓ جانے والے ستر ستر ٹن کے وزنی پَتھر
کسی دُور دراز کے علاقے سے کاٹ کر لاۓ گۓ تھے اور پھر تراش خراش کے بعد اِن
تین عمارات میں لگاۓ گۓ تھے ، قُرآن تو اِن انسانی خیالات کے برعکس یہ کہتا
ہے کہ یہ پتھر حجری چٹانوں سے نکالے گۓ پتھر نہیں ہیں بلکہ یہ دریاۓ نیل کی
گاد سے تیار کی ہوئی اور آگ میں پکا کر پُختہ کی ہوئی وہ پتھر نما اینٹیں
ہیں جو اُسی ایک مقام پر بنائی گئی ہیں ، اُسی ایک مقام پر پکائی گئی ہیں
اور اُسی ایک مقام پر لگائی گئی ہیں جہاں پر اِس وقت وہ لگی ہوئی نظر آ رہی
ہیں اور یہ بھی ایک حسین اتفاق ہے کہ زمانہِ قریب کے ایک فر نچ محقق Joseph
Davidovits نے بھی قُرآن کے اسی بیان کی تصدیق کرتے ہوۓ کہا ہے کہ اِن
اھرام میں لگے ہوۓ یہ پتھر وہ چٹانی پتھر نہیں ہیں جو ایک عام سطحی انسانی
نگاہ سے دیکھے جاتے اور ایک عام سطحی انسانی راۓ کے مطابق مُتعارف کراۓ
جاتے ہیں ، اِس کے برعکس یہ چونے اور مٹی کے گارے سے بنائی گئی وہ پتھر نما
اینٹیں ہیں جو دیکھنے والوں کو دیکھنے میں پتھر کی سلیں ہی دکھائی دیتی ہیں
لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ چٹانی سلیں قطعا نہیں ہیں کیونکہ اِس فرنچ
محقق کے مطابق اُس نے انتہائی جدید سائنسی آلات سے اِن پتھروں کا گہرا
مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے جس کے بعد اُس کو معلوم ہوا کہ اِن پتھروں میں پانی
کے ننھے ننھے وہ قطرات اور ہوا کے وہ ذرات موجُود ہیں جو چٹانوں اور اُن
چٹانوں سے کاٹ کر نکالی گئی سلوں میں موجُود نہیں ہوتے ، جہاں تک قُرآنِ
کریم کا تعلق ہے تو اُس نے جس سلسلہِ کلام میں اھرامِ مصر کے اِن پتھروں کا
ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ فرعون کی پارلیمان میں مُوسٰی علیہ السلام پر ایمان
لانے والے ایک مردِ مومن نے جس وقت فرعون کا ناطقہ بند کیا تھا تو فرعون نے
اُس وقت پہلے اپنی برتری اور اہلِ مصر کی بہتری کا یہ زبانی دعوٰی کیا تھا
کہ میں نے مُوسٰی کے قتل کا جو ارادہ کیا ہے وہ ارادہ میں نے اہلِ مصر کی
بھلائی کے لیۓ کیا ہے اور اُس کے بعد اُس نے اپنے درباریوں پر اپنا دبدبہ
قائم کرنے کے لیۓ ہامان کو اِس قسم کی ایک عمارت بنانے کا ایک زبانی کلامی
حُکم بھی دے دیا تھا تاکہ وہ اپنے درباریوں پر اپنی خُدائی اور کبرائی کا
رُعب ڈال کر اپنی وہ خفت کم کر سکے جو اُس کی پارلیمان میں اُس کے حصے میں
آئی تھی ، قُرآنِ کریم کے مطابق یہ عمارت سازی فرعون کی ایک وقتی حیلہ بازی
تھی جس کو اللہ تعالٰی نے اُس کے لیۓ خوب صورت خیال بنا کر اُس کو اُس کے
ایک خوب صورت خیال میں لگادیا تھا اور جب وہ اپنے اِس کام میں مصرف ہوا تھا
تو اُسی دوران مُوسٰی علیہ السلام مصر سے نکل کر مدین پُہنچ گۓ تھے اور
اُسی دوران اٰلِ فرعون کے اُس مردِ مومن نے مُوسٰی کی تحریکِ آزادی کا کام
بھی سنبھال لیا تھا جس کو فرعون اپنے خان دان کا ایک بااثر فرد ہونے کے با
عث کوئی نقصان بھی نہیں پُہنچا سکا تھا یہاں تک کہ جب مُوسٰی مدین سے مصر
واپس آۓ تھے تو اُس وقت اُن کی تحریکِ آزادی میں وہ لاکھوں حریت پسند شامل
ہوچکے تھے جنہوں نے مُوسٰی علیہ السلام کی قیادت میں پہلے فرعون کے خلاف
ایک علمِ بغاوت بلند کیا تھا اور بعد ازاں مصر سے ہجرت کرتے وقت ایک اعلٰی
جنگی حکمتِ عملی کے تحت وہ فرعون و آلِ فرعون کو اپنے پیچھے لگاکر اُس
سمندر تک لے آۓ تھے جس سمندر میں اللہ تعالٰی نے اُن سب کو غرق کر کے جہنم
رسید دیا تھا !!
|