#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُ المؤمن ، اٰیت 28 تا
35اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !!
و
قال رجل
مؤمن من اٰل
فرعون یکتم ایمانهٗ
اتقتلون رجلا ان یقول
ربی اللہ وقد جاءکم بالبینٰت
من ربکم وان یک کاذبا فعلیه کذبه
وان یک صادقایصبکم بعض الذی یعدکم
ان اللہ لایھدی من ھو مسرف کذاب 28 یٰقوم
لکم الملک الیوم ظٰھرین فی الارض فمن ینصرنا من
باس اللہ ان جاءنا قال فرعون مااریکم الّا ماارٰی وما یھد
یکم الّا سبیل الرشاد 29 وقال الذی اٰمن یٰقوم انی اخاف علیکم
مثل یوم الاحزاب 30 مثل داب قوم نوح وعاد وثمود الذین من بعد
ھم ومااللہ یرید ظلما للعباد 31 ویٰقوم انی اخاف علیکم یوم التناد 32
یوم تولون مدبرین مالکم من اللہ من عاصم ومن یضلل اللہ فمالهٗ من ھاد 33
ولقد جاءکم یوسف من قبل بالبینٰت فمازلتم فی شک مماجاءکم بهٖ حتٰی اذا ھلک
قلتم لن یبعث اللہ من بعدہٖ رسولا ک ذٰلک یضل اللہ من ھو مسرف مرتاب 34
الذین
یجادلون فی اٰیٰت اللہ بغیر سلطٰن اتٰھم کبر مقتا عنداللہ وعندالذین اٰمنوا
کذٰلک یطبع اللہ
علٰی کل قلب متکبر جبار 35
فرعون کے دربار میں قتلِ مُوسٰی کے بارے میں فرعون کی جو بات جاری تھی اُس
بات کو فرعون کی اپنی ہی قوم کے اُس شخص نے درمیان میں کاٹ دیا جو اَب تک
اپنا ایمان چُھپاۓ ہوۓ تھا اور اُس نے بڑی دلیری کے ساتھ فرعون سے سوال کیا
کہ کیا تُم اُس شخص کو صرف اِس بات پر قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے
کہ میرا رَب اللہ ہے حالانکہ وہ شخص اپنی اِس بات کے حق میں ایسے ناقابلِ
تردید دلائل بھی دے چکا ہے کہ جن کے بعد اُس کی تکذیب و قتل کا جواز ہی ختم
ہو چکا ہے اِس لیۓ اگر تُم میری مانو تو تُم اُس شخص کو اُس کے حال پر چھوڑ
دو ، اگر وہ تُمہارے خیال کے مطابق اپنے دعوے میں جھوٹا ہوا تو اُس پر خود
ہی اُس کے جھوٹ کا وہ مآل آجاۓ گا جس سے تُمہارا مقصد پُورا ہو جاۓ گا اور
اگر وہ اپنے دعوے میں سچا ہوا تو تُم سب پر بھی تُمہاری اِس تکذیب کا وبال
آۓ گا اور جس وقت تُم پر اللہ کا وہ عذاب آجاۓ گا تو اُس وقت اہلِ زمین پر
تُمہارا یہ غلبہِ حکمرانی بھی ختم ہو جاۓ گا ، تُم خود سوچو کہ اُس وقت تُم
سب کا کیا حال ہو گا ، اُس مردِ مومن کی یہ بات سُن کر فرعون نے کہا کہ میں
نے تو تُم کو اپنی وہی راۓ دی ہے جو مُجھے مناسب لگی ہے اور تُم جانتے ہو
کہ میں ایسے ہر موقعے پر اپنی وہ راۓ رہتا ہوں جو میرے نزدیک مناسب ہوتی ہے
لیکن اُس مردِ مومن نے فرعون کی اِس توضیحِ قبیح کو رَد کرتے ہوۓ کہا کہ
مُجھے اندیشہ ہے کہ تُم پر بھی وہی بُرا وقت آنے والا ہے جو پہلی قوموں میں
سے قوم نُوح و قوم عاد و ثمود اور اُن کے بعد بھی بہت سی نافرمان قوموں پر
آیا ہے کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کا روادار نہیں ہے اِس لیۓ اللہ اُن
قوموں کی حاکمیت کو فنا کردیتا ہے جن قوموں کے قومی اقتدار میں انسا و
انسانیت کے ساتھ ظلم و ستم کیا جاتا ہے اور مجھے یہ ڈر بھی ہے کہ تُمہارے
ظلم کے دن پُورے ہو چکے ہیں اور اَب تُم پر وہ بُرا وقت آنے ہی والا ہے جب
تُم زمین پر فریاد و فغاں کرتے پھرو گے لیکن تُمہاری اُس بے وقت کی فریاد و
فغاں کو سننے والا بھی کوئی نہیں ہو گا ، یاد کرو کہ مُوسٰی سے پہلے یُوسف
بھی تُمہاری قوم میں ایسے ہی کُھلے کُھلے دلائل لے کر مبعوث ہوۓ تھے لیکن
تُم یُوسف کے زمانے میں یُوسف کی تعلیم کے مُتعلق بھی اسی طرح شک و شبہے
میں مُبتلا رہے تھے جس طرح کہ تُم مُوسٰی کے زمانے میں مُوسٰی کی تعلیم کے
بارے میں شک و شبہے میں مُبتلا ہو اور یہ بھی یاد کرو کہ جب یُوسف دُنیا سے
رُخصت ہوۓ تھے تو تُم یہ سوچ کر مُطمئن ہوگۓ تھے کہ یُوسف کے بعد تُمہاری
جان چھوٹ گئی ہے کیونکہ یُوسف کے بعد تُمہاری ہدایت کے لیۓ کوئی اور نبی
نہیں آۓ گا لیکن تُم نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ جو لوگ اللہ سے گُم راہی
چاہتے ہیں تو وہ گُم راہی کے سوا کُچھ بھی نہیں پاتی ہیں اور جو لوگ اللہ
کی اٰیات و ہدایات کے بارے میں بے دلیل جھگڑے کرتے رہتے ہیں تو اُن سنگ
دلوں کے تنگ دلوں پر بھی اللہ کی طرف سے گُم راہی کی ایک مُہر لگا دی جاتی
ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ سات اٰیات جس مضمون کی تمہید کے لیۓ لائی گئی تھیں موجُودہ آٹھ اٰیات
اُس مضمون کی تکمیل کے لیۓ لائی گئی ہیں اور تمہید و تکمیل کی اِن اٰیات کے
اِس مضمون نے سلسلہِ کلام میں آنے والی دیگر اٰیات سے مل کر ہی ایک تدریج
کے ساتھ ہی اپنی ابتدائی تمہید سے اپنی انتہائی تکمیل تک پُہنچنا ہے ، جہاں
تک اٰیاتِ بالا کے اِس مُختصر مقصدی مضمون کا تعلق ہے تو اِس مُختصر مضمون
کا وہ مقصدی مفہوم بھی اُن اٰیاتِ بالا کے زیرِ متن ہم نے تحریر کر دیا ہے
لیکن اِس مقصدی مضمون کے کُچھ اَحوال و ظروف وہ ہیں جن پر اہلِ تحریر و
اہلِ تفسیر نے وہ مناسبِ حال توجہ نہیں دی ہے جو مناسبِ حال توجہ اُن کو
دینی چاہیۓ تھی اور اِس مضمون سے وہ مناسبِ حال نتائج بھی شاید اِس لیۓ اخذ
نہیں کیۓ ہیں کہ اِن اہلِ تحریر و اہلِ تفسیر نے پہلے اپنے موروثی نظریات
اپنے سامنے رکھے ہیں اور اُس کے بعد قُرآنی اٰیات کو اپنے اُن موروثی
نظریات کی دلیل بنا کر پیش کیا ہے جس سے اُن کے موروثی نظریات تو قُرآن
پڑھنے والے کی نظر میں آگۓ ہیں لیکن وہ نتائج قُرآن پڑھنے والے کی نظر سے
اوجھل ہوگۓ ہیں جن کا قُرآن پڑھنے والے انسان پر اُجاگر ہونا لازم تھا لیکن
ہم چونکہ اُن سارے نتائج کا مُکمل احاطہ کرنے اور کرسکنے کا ارادہ نہیں
رکھنے اِس لیۓ ہم اُن نتائج میں سے صرف اُس ایک نتجے کا اپنی اِس اُمید پر
ذکر کریں گے کہ شاید ہماری اِس کوشش سے وہ سارے تنائج قُرآن کے قاری پر خود
ہی واضح ہو جائیں جن کو ہم اِس مُختصر مضمون میں واضح تو نہیں کرسکتے لیکن
اِس خاص حوالے سے ہم جس خاص نتیجے کا ذکر کرکے دیگر تمام نتائج کی طرف توجہ
دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ عہدِ مُوسٰی کے فرعون کی ایک مُنتخب پارلیمانی
حکومت تھی جس کی مُنتخب پارلیمان میں اُس کے مُنتخب نمائدے شامل ہوکر کثرت
راۓ سے وہ سارے فیصلے کیا کرتے تھے جن فیصلوں پر فرعون کے شاہی حُکم کے بعد
عمل در آمد کر دیا جاتا تھا ، اٰیاتِ بالا میں فرعون کے جس پارلیمانی اجلاس
کا ذکر کیا گیا ہے اُس پارلیمانی اجلاس کے انعقاد کا مقصد بھی یہی تھا کہ
اُس پارلیمان سے قتلِ مُوسٰی کے لیۓ کثرتِ راۓ کا ایک پارلیمانی فیصلہ حاصل
کیا جاۓ اور اُس فیصلے کے بعد فرعون کے شاہی حُکم سے مُوسٰی علیہ السلام کو
قتل کر دیا جاۓ ، یہی وجہ تھی کہ مُوسٰی علیہ السلام پر ایمان لانے والا جو
انسان اِس سے پہلے اپنا ایمان چھپاۓ ہوۓ تھا اِس موقعے پر وہ اپنے ایمان
اور اپنی زبان کے ساتھ کُھل کر فرعون کی اُس پارلیمان کے سامنے آگیا تھا جس
پارلیمان میں غلام جمہُور کی غلامانہ سرشماری کی ایک واحد غلامانہ دلیل کے
ساتھ انسان کی موت اور زندگی کے فیصلے کردیۓ جاتے تھے اور آج اُسی غلام
پارلیمان کے غلام نمائندوں کی اُسی غلامانہ سرشماری کے ذریعے مُوسٰی علیہ
السلام کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا جا رہا تھا جس کو ٹالنے کے لیۓ اللہ
تعالٰی نے اُس وقت اُس مردِ مومن کو فرعون کے اُس ایوانِ نمائندگان پر
مُسلط کر دیا تھا جس کے عاقلانہ طرزِ استدلال نے فرعون کو ورطہِ حیرت میں
ڈال دیا تھا اور فرعون نے اپنے فرعونی طرزِ تکلم کو اپنی ایک عام پارلیمانی
راۓ کا نام دے کر بہت مُشکل کے ساتھ خود کو شرمندگی سے بچایا تھا ، اٰیاتِ
بالا کا موضوعِ سُخن چونکہ اہلِ ایمان کو اللہ تعالٰی کی طرف سے ملنے والی
امداد ہے اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں ایک طرف تو
عہدِ مُوسٰی کے اُس مردِ مومن کے الفاظ { اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ }
کو نقل کر کے عہدِ موسٰی میں مُوسٰی علیہ السلام کو اُس مردِ مومن کے ذریعے
دی گئی اُس تاریخی امداد کا ذکر کر دیا ہے تو دُوسری طرف عہدِ محمد علیہ
السلام میں سیدنا محمد علیہ السلام کو ابو بکر صدیق کے ذریعے دی گئی اُس
امداد کا ذکر بھی کر دیا ہے جس کا ہم اِس سے پہلے ذکر کر چکے ہیں اور تیسری
طرف اٰیتِ بالا کے اِنہی الفاظ کی اِس یَک رنگی کے ذریعے حالات کی وہ یَک
رنگی بھی ظاہر کردی گئی ہے جو عہدِ مُوسٰی و عہدِ محمد علیہ السلام کے
درمیان موجُو تھی ، دُنیا میں چونکہ ہمیشہ ہی بھیجے سے خالی سر والے اکثریت
میں اور اہلِ عقل ہمیشہ ہی اقلیت میں رہے ہیں اِس لیۓ دُنیا کے تمام بے
ضمیر حکمرانوں نے ہمیشہ اُنہی بے دماغ سروں کو پسند کیا ہے جو بے دماغ سر
اُن کے اشارہِ ابرُو کے ساتھ نیچے جُھکتے اور اُن کے اشارہَ ابرُو کے ساتھ
ہی اوپر اُٹھتے تھے اور دُنیا میں اللہ تعالٰی کے تمام انبیاء و رُسل انہی
جُھکے ہوۓ سروں کو اُٹھانے کے لیۓ تشریف لاۓ تھے اور مُوسٰی و محمد علیہ
السلام بھی اِنہی انسانی گردنوں کو غلامی کی اِنہی بوجھل زنجیروں سے آزاد
کرانے کے لیۓ دُنیا میں تشریف لاۓ تھے ، حقیقت یہ ہے کہ مُوسٰی وفرعون اور
محمد و دُشمنانِ محمد علیہ السلام کے درمیان نُکتہِ اختلاف ہی انسانی سروں
کو جھکانے اور انسانی سروں کو اُٹھانے کا نُکتہِ اختلاف تھا اور اسی بنا پر
فرعون کی اُس فرعونی پارلیمان میں خطاب کے دوران خطاب کرنے والے اُس مردِ
مومن نے اُسی قوم کا حکمران بننے والے یُوسف کے دورِ حکمرانی کا حوالہ دیا
تھا اور یہ حوالہ بھی دیا تھا کہ جب یُوسف علیہ السلام دُنیا سے رُخصمت ہوۓ
تھے تو فرعون کی اُس فرعونی جمہوریت کے نمائندے خوش ہو گۓ تھے کہ دل بدلنے
کی وہ تحریک شاید ہمیشہ کے لیۓ ختم ہو گئی ہے اور سر گننے کی یہ تحریک شاید
ہمیشہ کے لیۓ شروع ہوگئی ہے لیکن اُس مردِ مومن کے اُس پارلیمانی خطاب سے
ثابت ہو گیا کہ انسانی سروں کو شاہوں کی ٹھوکروں سے بچانے کی یہ تحریک
نبیوں اور رسولوں کے زمانوں میں بھی زندہ زندہ رہنی ہے اور نبیوں اور
رسولوں کے زمانوں کے بعد کے زمانوں میں بھی اُن کی زندہ تعلیمات کی صورت
میں اِس تحریک نے ہمیشہ زندہ و تابندہ رہنا ہے ، فراعنہِ مصر کی اولاد نے
اگرچہ مصر سے نکلنے کے بعد فراعنہِ مصر کے اُس سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ
دینے اور کمزور انسانوں کو شہ زور انسانوں کا غلام بنانے کی اُس فرعونی
تحریکِ جمہوریت کو دُنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیلا دیا ہے لیکن اَب یہ
تحریک مرے ہوۓ اُس بکرے کی ماں ہے جس نے ایک نہ ایک دن افلاس کے مارے
انسانوں کی چُھری تلے آنا ہی آنا ہے !!
|