نجاتِ آخرت کا یقین و عدمِ یقین !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالمؤمن ، اٰیت 45 تا 50 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فوقٰه
اللہ سیاٰت ما
مکرواوحاق باٰل
فرعون سوء العذاب
45 النار یعروضون علیھا
غدواوعشیا ویوم تقوم الساعة
ادخلوا اٰل فرعون اشد العذاب 46 و
اذیتحاجون فی النار فیقول الضعفٰؤاللذین
استکبرواانا کنالکم تبعا فھل انتم مغنون عنا
نصیبامن النار 47 قال الذین استکبروااناکل فیھا
ان اللہ قد حکم بین العباد 48 وقال الذین فی النار
لخزنة جھنم ادعواربکم یخفف عنا یوما من العذاب 49
قالوااولم تک تاتیکم رسلکم بالبینٰت قالوا بلٰی قالوافادعوا
ومادعٰٓؤالکٰفرین الّا فی ضلٰل 50
اَنجامِ کار یہ ہوا کہ فرعون و آلِ فرعون نے مُوسٰی اور اُس پر ایمان لانے والوں کے خلاف جو تدبیر کی تھی اُن کی وہی تدبیر دُنیا میں اُن کو صُبح و شام جلانے والی جہنم کی ایک آتشی زنجیر بن گئی اور جب اُن پر اُن کا یومِ حساب آۓ گا تو اُن پر اُن کا یہ عذاب اور بھی زیادہ سخت کر دیا جاۓ گا اور اُس وقت اُن بڑے ظالموں کے چھوٹے ہمراہی کہیں گے کہ ہم جو دُنیا سے تُمہاری ہی اتباع کرتے ہوۓ سزا کے اِس مقام تک تُمہارے ساتھ کے ساتھ بندھے ہوۓ آۓ ہیں تو اَب تُم ہی کوئی ایسی کرنی کرو کہ ہمارے اِس عذاب میں کُچھ کمی ہو جاۓ جس پر اُن چھوٹوں کے وہ بڑے کہیں گے کہ ہم تو اِس جہنم میں وہ بے پر ، پرندے ہیں جو خود بھی نہیں اُڑ سکتے اور کسی اور کو بھی نہیں اُڑا سکتے ، اِس کے بعد وہ چھوٹے اپنے بڑوں سے مایُوس ہو کر جہنم کے مُنتظمین سے کہیں گے کہ تُم ہی ہماری یہ فریاد خُدا تک پُہنچادو اور تُم ہی ہماری اِس سزا میں کُچھ تخفیف کرادو تو وہ پُوچھیں گے کہ کیا دُنیا میں تُمہارے پاس اللہ کے رسُول نہیں آۓ تھے اور اللہ کے اُن رسُولوں نے تمہیں تُمہارے اُن اعمالِ بد کے اِس اَنجامِ بد سے آگاہ نہیں کیا تھا تو وہ کہیں گے کہ وہ تو ہمارے پاس ضرور آۓ تھے اور اُنہوں نے ہمیں آگاہ بھی کیا تھا لیکن ہم نے اُن کی باتوں پر یقین نہیں کیا تھا جس پر جہنم کے وہ مُنتظمین کہیں گے کہ اَب تو تُم خود ہی اللہ سے فریاد کرو لیکن ہمارا مشاہدہ یہی ہے کہ اللہ کے مُنکروں کی فریاد کا یہاں کوئی بھی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں جہنم کی جن بڑھتی شدتوں کا اور اہلِ جہنم کی جن بدلتی کیفیتوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن کو سمجھنے کے لیۓ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنا لازم ہے کہ جس طرح زمین کے تمام انسان اپنی جانوں اور اپنے جسموں کے اعتبار سے ایک دُوسرے سے مُکمل طور پر جُدا لیکن اپنے رشتوں کے اعتبار سے ایک دُوسرے کے ساتھ مُکمل طور پر جُڑے ہوتے ہیں اسی طرح دُنیا و آخرت ، دُنیا و جنت اور دُنیا و جہنم بھی انسانی حواس کے اعتبار سے ایک دُوسرے سے مُکمل طور پر الگ الگ لیکن انسانی احساس کے اعتبار سے ایک دُوسرے کے ساتھ مُکمل طور پر ملے ہوۓ جہان ہیں ، جو چیز دُنیا میں بُھوک اور پیاس یا اُمید و یاس کی طرح انسان کے لیۓ رَنج و راحت کا باعث ہے وہی چیز آخرت میں بھی انسان کے لیۓ رَنج و راحت کا باعث ہے اور انسانی رَنج و راحت کے جو سلسلے دُنیا سے شروع ہوتے ہیں وہی سلسلے آخرت تک انسان کے ساتھ جاتے ہیں اور انسانی رَنج و راحت کے جو سلسلے آخرت تک جاتے ہیں وہ سارے سلسلے اِس دُنیا سے گزر کر ہی اُس دُنیا تک جاتے ہیں ، اِس حوالے سے جو دُوسری بات سمجھنا لازم ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے عالَم عمل میں ہر عمل کا جو ایک رَد عمل ہے اُس رَدِ عمل کا انسانی زندگی میں عملی ظہور تو اپنے وقت پر ہی ہوتا ہے لیکن اُس کا فکری ظہور اُس تمام زمانے میں انسان پر ہوتا رہتا ہے جس زمانے میں انسان پر فکر و خیال کا وہ غلبہِ ذات قائم رہتا ہے جو انسان کو آنے والے کَل کی خوشی و غم اور جانے والے دن جانے والے دن کی جانے والی خوشی کے جانے کا احساس دلانا شروع کر دیتا ہے اور اٰیاتِ بالا میں عہدِ مُوسٰی و عہدِ فرعون اور قومِ مُوسٰی و قومِ فرعون کے حوالے سے یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ جو اہلِ زمین اللہ تعالٰی پر ایمان لاتے ہیں وہ دُنیا میں ہی ایمان کی راحت سے سرشار ہوجاتے ہیں اور دُنیا سے آخرت میں جاتے ہیں تو ایمان کی یہ سرشاری دُنیا سے آخرت میں اُن کے ساتھ جاتی ہے اور اُن کو سیدھی جنت میں لے جاتی ہے بخلاف اِس کے کہ جو لوگ دُنیا میں کفر کرتے ہیں اُن کا یہ کفر دُنیا میں ہی اُن کو آس سے بے آس بنا کر یاس کے اُس حلقہِ درد میں لے جاتا ہے جو حلقہِ درد دُنیا میں بھی درد بن کر اُن انسانوں کے ساتھ رہتا ہے اور آخرت میں بھی اُن کے ساتھ جاتا ہے اور اُن کو سیدھا رَنج و درد کے اُس جہنم میں لے جاتا ہے جو اُن کا اپنا ہی نوشتہِ جہنم ہوتا ہے ، قُرآنِ کریم نے سُورَةُالزُمر کی اٰیات 53 تا 75 میں بھی انسان کو یہی بات سمجھائی ہے اور اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بھی تاکیدِ مُکرر کے طور پر یہی بات دُھرائی ہے ، آخر اُس انسان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ جو قُرآن کو پڑھنے ، سمجھنے اور اِس کے اَحکامِ نازلہ پر عمل کا کبھی خیال بھی دل میں نہیں لاتا لیکن اپنی نجات کے لیۓ اِس لیۓ دن رات سجدے پر سجدے کرتا اور دُعا پر دُعا پر دُعا مانگتا رہتا ہے کہ نہ تو اُس کے پاس نجات کا کوئی عمل ہوتا ہے اور نہ ہی اُس کے دل میں نجات کا کوئی یقین ہوتا ہے اور یہ بے یقین انسان ایک اقبالی مُجرم ہوتا ہے جو زندگی میں بھی جہنم کے خوف کا شکار رہتا ہے اور مرنے کے بعد بھی جہنم کا شکار ہو جاتا ہے بخلاف اِس کے کہ جو انسان حتی الامکان اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کو سمجھنے کی اور حتی الامکان اُن پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اُس کا دل دُنیا میں ہی مُطمئن ہو جاتا ہے اور وہ دُنیا سے مطمئن ہو کر آخرت میں جاتا ہے تو آخرت میں بھی اُسی اطمینان کے ساتھ اطمینان کی اُسی اطمینان بھری جنت میں پُہنچ جاتا ہے جو اُس کا مقدر ہوتی ہے ، آخرت پر ایمان لانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان آخرت پر تو یقین کرکے مرے لیکن آخرت کے خالق پر یقین سے بے یقین ہو کر اپنی موت کو قبول کرے اِس لیۓ جو انسان اللہ تعالٰی کی ذات پر ایمان اور اُس کے اَحکام پر عمل کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے رونے بسُورنے کا اہتمام کر کے اہلِ دُنیا سے اللہ تعالٰی کی جھوٹی شکایت نہیں کرتا بلکہ وہ اللہ تعالٰی کی ذات پر اپنے اطمینان کا اظہار کر کے انسان کو اللہ تعالٰی کی ذات پر اعتماد و یقین کی تعلیم دیتا ہے اور اسی عملی حقیقت کا نام ایمان باللہ اور ایمان بالآخرة ہے ، اٰیاتِ بالا میں مُوسٰی و آلِ مُوسٰی اور فرعون و آلِ فرعون کی دُنیا سے شروع ہو کر آخرت تک ساتھ جانے والی اِن ہی دو کیفیتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور شاید غالب نے بھی انسان کی اسی کیفیت کا ذکر کیا ہے کہ ؏

تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا

اُڑنے سے پیشتر بھی مِرا رنگ زرد تھا
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558329 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More