”بہاول پور میں اجنبی“
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
نقد وتبصرہ: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان
برقی پتہ:[email protected]
دنیا کے بکھیڑوں سے نکل پائیں گے کیسےکہتے تو تھے آئیں گے مگر آئیں گے کیسے
”بہاول پور میں اجنبی“ نے پہلی نظر میں چونکا دیاکہ ایسا منفرد نام بہت کم ہی کتب کا دکھائی دیتا ہے جو قاری کو فوری طور پر اپنی گرفت میں کرلیں۔
سرورق دیکھ کر ہم یہی سوچتے رہے کہ شاید بہاول پورمیں کوئی اجنبی وارد ہوا تھا جس کی روداد بیان کی گئی ہے لیکن جوں جوں کتاب پڑھتے گئے تو بہت کچھ سمجھتے گئے اورسب سے اچھی بات یہ محسوس ہوئی کہ مظہر اقبال مظہر واقعی ”اپنا بندہ“ ہونے کے مستحق ہیں۔انہوں نے جس عمدگی سے بہاول پور شہر کا تعارف اورتاریخ بیان کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے یعنی راقم السطور یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ انہوں نے جس طرح سے بہاول پور کے حوالے سے معلومات بیان کی ہیں وہ کوئی بہاولپوری باشندہ اتنی خوب صورتی سے نہیں بیان کر سکا ہے لیکن یہ اجنبی نہیں ”اپنا بندہ“ لگتا ہے تب ہی تو بہاول پور کے عشق میں گرفتار ہے۔
کہتے ہیں کہ ”جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیداہی نہیں ہوا“ لیکن راقم السطور کے بقول”جس نے بہاول پور نہیں دیکھا اُس نے کچھ بھی نہیں دیکھا“کہ کئی تاریخی مقامات کا حامل شہر بہاول پور میٹھی زبان سرائیکی کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور اس میں جو کشش ہے وہ مظہر اقبال مظہر صاحب کو یوں محسوس ہوئی کہ انہوں نے اس حوالے سے سفرنامہ لکھ دیا یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ان کی یاداشت برسوں پرانے واقعات کو بھی خوب یاد رکھے ہوئے ہے۔ آج ہم اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ اپنے لئے وقت نہیں نکال سکتے ہیں تو کیسے کسی شہر کی خوب صورتی اورتاریخ کو یاد رکھیں لیکن یہ بہاول پور شہر سے محبت ہی تھی جس نے یادوں کو ہمیشہ کے لئے کتابی صورت ”بہاول پور میں اجنبی“میں محفوظ کر دیا ہے۔کتاب کا انتساب ”والدہ محترمہ کے ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ، بہاولپور“ کے نام کیا گیا ہے جو مظہراقبال مظہر صاحب کی گہری محبت کو بخوبی ظاہر کرتا ہے۔ یہاں ایک کڑوی بات بھی عیاں ہو رہی ہے کہ ہم اکثر وطن سے دور جاتے ہیں وطن کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں لیکن یہاں بہاول پور شہر میں ایک اجنبی آیا اور اُس کو اس شہر کی فضا نے اپنے اندر یوں سمو لیا کہ جونہی اُسے وقت ملا اُس نے اُس مٹی کاقرض اُتار دیا جہاں اُس کی زندگی کے بہترین ایام گذرے تھے۔
مظہر اقبال مظہرصاحب نے مختلف مقامات کی سیر کرواتے ہوئے ہمیں بھی اُن دنوں کی یاد دلوائی ہے جوسن 2001-2002میں گورنمنٹ صادق گریجویٹ کالج آف کامرس، بہاولپورمیں ہم نے گذارے تھے تب ہماری زندگی بھی ایک امتحان کا شکار ہوئی تھی جس کی وجہ سے ایک تاریخی مادر علمی میں ہمیں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تھا اوریہاں بھی ایک امتحان تھا جو صاحب کتاب کو شہر بہاولپور لایا تھا۔اسی سفر بہاول پور نے ان کے دل کو یوں اپنے بس میں کیا ہے کہ وہ برطانیہ میں رہ کر بھی اسی شہر کے عشق میں مبتلا ہیں۔
راقم السطور کے نانا مرحوم عبدالقادرخان لودھی محکمہ زراعت میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے تو اکثر ان کے ہاں بہاولپور جانے کا اتفاق ہوتا تھااسی شہر کے الفتح پبلک اسکول سے تعلیم کا سلسلہ بھی جڑا تھا اور بھی کئی یادیں اسی شہر سے منسوب ہیں جو ہم کبھی ضبط تحریر میں نہیں لا سکے لیکن مظہر اقبال مظہر صاحب کم سے کم شہر بہاولپور سے عشق میں ہم سے بازی لے گئے ہیں جو پھر بھی باعث مسرت ہے کہ ہمارے شہر کے بارے میں ایک کشمیری نے کچھ لکھا ہے اورہمیں ان کے خطہ سے محبت ہے کہ کشمیری سچے، خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بلند حوصلہ بھی رکھتے ہیں تب ہی تو وہ آج تک غلام نہیں بنائے جا سکے ہیں اورآج بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں،اگردیکھا جائے تو بقا اورشناخت کی جنگ ہی زندگی میں ہلچل رکھتی ہے۔
بہرحال، کتاب کی فہرست کا جائزہ لیں تو علم ہوتا ہے کہ فرید گیٹ، جامع مسجد الصادق، چوک فوارہ، بہاول وکٹوریہ ہسپتال، قائد اعظم میڈیکل کالج، سنٹرل لائبریری بہاولپور جیسے خوب صورت مقامات کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہیں جو کسی بھی سیاحت کے شوقین کو بہاول پور کھینچتی ہیں۔بہاول پور کے نوابوں کا تذکرہ بھی اس سفرنامے میں پڑھنے کو ملا ہے کچھ ایسی معلومات بھی ہیں جوعمومی طور پر لوگوں کے علم میں نہیں ہیں۔ نواب آف بہاولپوریعنی نواب صادق محمد خان پنجم کو ”محسن پاکستان“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت انہوں نے مالی امداد دی تھی۔ ان کوملنے والے القابات کی تعداد ہی لگ بھگ دو درجن کے قریب ہے۔انہوں نے ریاست بہاولپور کو ایسی شناخت دی جو انگریزوں کے دور میں ایک مثال سمجھی جا سکتی ہے کہ ریاست بہاولپور فرنگی سرکار سے کبھی مرغوب نہیں ہوئی اورہمیشہ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کیے۔ نواب صادق محمد خان پنجم کو بہاولپور ریاست کا مقبول ترین سربراہ ریاست قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے مفاد عامہ کی خاطراتنے کام کیے کہ آج تک نواب صاحب کو بہاولپورکا بچہ بچہ یاد رکھتا ہے کہ پاکستان بننے سے قبل شاید ہی کوئی ایسادوسرا شہر ہوگا جہاں اس قدر ترقی ہوئی ہو جتنی بہاول پور میں قیام پاکستان سے قبل ہوئی تھی۔اسکول، کالج، ہسپتال، پارک، لائبریری، یتیم خانہ اوردیگر بہت سی سہولیات بہاول پور کے عوام قیام پاکستان سے قبل ہی حاصل کر چکے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کیا یہ سہولیات ستر سال بعد دیگر شہروں کو حاصل ہیں؟
بقول مظہر اقبال مظہر”بہاولپور والوں کو ہی نہیں، تمام سرائیکی بولنے والوں کو اگر سرائیکی صوبہ بنانا ہے تو اس سے پہلے انہیں اپنی جداگانہ سیاسی شناخت کو منوانا ہوگا۔“
مظہر اقبال مظہر صاحب نے شناخت کے حوالے سے بہت کچھ ایسالکھا ہے جو کہ راقم السطور کے دل کی آواز ہے واقعی یہ ایک المیہ ہے کہ کشمیر کوجنت کہا جاتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کے باشندے گھٹن اورجبرکے سائے تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اورعالمی سطح پر کوئی شنوائی کرنے ولا بھی نہیں ہے اسی طرح سے سرائیکی صوبے کے نام پر بھی بات ہوتی ہے لیکن عملی طورپرکوئی سرائیکیوں کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہے یہاں تک کہ ادیب بھی بھرپورشناخت تب حاصل کر پاتے ہیں جب وہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کو ڈنکے کی چوٹ پر منواتے ہیں کہ بیشتر کو تو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش ہوتی ہے۔
سیاحت کے دلداہ احباب کو یہ بات ”بہاول پور میں اجنبی“ پڑھتے ہوئے ضرور معلوم ہو جاتی ہے کہ جب آپ دوسرے شہر جاتے ہیں اورآپ کا اجنبی ہونا ظاہر ہو جاتا ہے تو پھرآپ سے نرخ اُسی لحاظ سے لیے جاتے ہیں۔ اس پر کام ہونا چاہیے کیوں کہ اگرسیاحت کرنے والوں کو ہی لوٹا جائے گا تو پھر تاریخی مقامات دیکھنے کو ن جائے گا؟
سرائیکی زبان کے شیکسپیر کہلانے والے شاکرشجاع آبادی کے حوالے سے صاحب کتاب فرماتے ہیں کہ ان کے بغیر سرائیکی شاعری کا ذکر نامکمل ہے تو دوسری طرف عاشق بزدار کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ”اساں قیدی تخت لہور دے“ لکھ کر سرائیکستان کی حالیہ تاریخ کو ایک مصرعے میں قید کر دیا ہے۔
اس سفر نامے کے آخر ی حصے میں دو افسانے بھی شامل ہیں۔”دل مندر“ میں محبت کی ان کہی داستان کا جہاں تذکرہ ہے وہی اس کے المناک اثرات بھی قار ی کو محسوس ہوتے ہیں اور”ایک بوند پانی“زندگی کے لازم جز پانی کی قلت کے بھیانک اثرات کے حوالے سے خوب صورت افسانہ قاری کو جھنجوڑ دیتا ہے۔مظہر اقبال مظہر نے بطور سفرنامہ نگار اورافسانہ نگار اپنی ایک مخصوص پہچان بنالی ہے جو کہ بطور ادیب ان کو ہمیشہ نمایاں کرتی رہے گی۔
شمس رحمان اس سفر نامے میں شامل دو افسانوں کے حوالے سے کچھ یوں عرض کرتے ہیں ”افسانوں میں انسانی دکھوں اورطبقاتی فاصلوں کو خوب نمایاں کیا گیا ہے۔“
ڈاکٹرنسترن احسن فتیحی جو کہ بھارت سے تعلق رکھتی ہیں کے بقول”بہاول پور میں اجنبی“ ہجرت کے کرب میں اپنی لسانی، تہذیبی،ثقافتی شناخت اورقومی تشخص کو تلاش کرتا ہوا اپنے ساتھ قاری کو بھی لے کر بہاولپور کی ایک خوبصورت سیر پر نکلتا ہے۔اسطرح عالمی منظرنامے پر بکھرے ہوئے اردو زبان و ادب کے قاری اور تخلیق کار اپنی اس مشترکہ تہذیبی اورثقافتی وارثت میں خود کو لوکیٹ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔“
عنایب اللہ عاجز صاحب کی نظر میں ”بہاولپور میں اجنبی“ کے مصنف نے بہاولپور شہر میں بیتائے ہوئے شب و روز کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔کتاب کے چند صفحات پڑھنے کے بعد میں مکمل طور پر اس کے سحر میں مبتلا ہو چکا تھا۔ایک اچھے لکھاری کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ آپ اس کی تحریر کی گرفت سے اس وقت تک باہر نہیں نکل سکتے جب تک وہ تحریر ختم نہ ہو جائے۔یقینا مظہر اقبال مظہر میں ایک اچھے لکھاری والی تمام خوبیاں موجود ہیں اورمیں محسوس کر رہا ہوں کہ ادبی دنیا سے وابستہ ان کا مستقبل بہت روشن ہے۔“
اگرآپ دل چسپ سفرنامے اورافسانے پڑھنے کے شوقین ہیں اوربہاول پور کو جاننے کے بھی خواہش مند ہیں تو یہ کتاب آپ کے لئے انمول تحفہ ہے، راقم السطور کو یقین ہے کہ یہ آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔
”بہاول پور میں اجنبی“ کو محض پانچ سو روپے میں درج ذیل پتے سے منگوایا جا سکتا ہے۔پریس فار پیس فاؤنڈیشن، لوہار بیلہ، برانچ پوسٹ آفس ڈھلی، باغ۔آزاد کشمیر0316-9493700
|