تنقید! لکھاری اورقارئین!
آئے روز ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ الفاظ سنتے اور بولتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تنقید آخر ہے کیا؟
اس کا مطلب اور مقصد کیا ہے؟
اگر ہم لفظی اعتبار سے دیکھیں تو اس کے معنی ہیں پرکھ،چھان بین کرنا یا
کھوٹا کھرا جانچنا ہے۔
جبکہ اس کے لغوی معنی ہیں:’’وہ تحریر جس میں کسی فن پارے کے حسن و قبح پر
فنی اصول و ضوابط کی روشنی میں اظہار رائے کیا گیا ہو‘‘۔
یہ تو ہوگیا تنقید کا تعارف اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک لکھاری اور تنقید
کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
اگر دیکھا جائے تو ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے،بالکل جیسے پھول
بغیر خوشبو کے ادھورا ہے ویسے ہی لکھاری بغیر تنقید کے بے اثر اور نامراد
ہے۔لکھاری کے لیے تنقید کا کام بالکل ایسے ہی ہے جیسے اندھیرے میں جگنو
یعنی یہ لکھاری کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
عموماََ ہم دیکھتے اور سنتے ہیں کہ فلاں نے فلاں پر تنقید کی،یہاں پر سوال
جنم لیتا ہے کہ کیا یہ تنقید بغیر کسی بغض و حسد یا مفاد سے بالاتر تھی یا
محض اس کا مقصد لکھاری کو پریشان کرنا اور اس کوزچ کرنا تھی؟؟؟
تنقید کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ایک قسم ہے تنقید برائے تنقید :اس کی مثال
بالکل ایسی ہے جیسے راہ گزرتے کسی شخص نے راستے سے گزرتے دوسرے شخص کا
راستہ روکنے کی کوشش کی ہو یا اس کے راستے میں کنکر اٹھا کر رکھ دیے ہوں۔یہ
ہوتی ہے تنقید برائے تنقید۔
جبکہ دوسری قسم ہے تنقید برائے اصلاح:ایک بچہ ناسمجھ ہے اسے معلوم نہیں کہ
کس کے سامنے کیا اور کیسے بات کرنی ہے،ایسے میں اس بچے کے بڑوں پر فرض ہے
کہ اس پر تنقید کریں تاکہ وہ اپنی اصلاح خود کرے۔اس کو کہتے ہیں تنقید
برائے اصلاح۔
اپنے اردگرد ہم نظر دوڑا کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کتنے اچھے اور
بہترین لکھاری ہیں جو کہ خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور وہ ان سے
مستفید ہوتے ہوئے آئے روز نت نئی جدید روایات،آئیڈیاز اور اسلوب پیش کررہے
ہیں۔ایسے میں اگر وہی لکھاری کسی اور سے مرغوب ہو کر اس کی دو چار سطریں
اپنی تحریر میں شامل کر لے تو شور مچ جاتا ہے۔ سب اس کو نقلی یا نقل چور کا
خطاب دیتے ہیں۔اگر حقیقت پسندی سے اس کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ
یہ کوئی جرم نہیں ہے۔
اگر اس لکھاری کی تحریر سے ملتی جلتی کوئی دوسری تحریر نظروں سے گزرے تو
ضروری نہیں کہ اس نے اس کی نقل کی ہے۔یہ بھی تو ممکن ہے کہ دوسری تحریر
پہلے لکھاری سے متاثر ہو کر نقل کی گئی ہو،کوئی دوسرا بھی تو نقل کرسکتا ہے
کسی اور زبان یا انداز میں۔
افسوس صد افسوس !ہم پاکستانی اتنے جذباتی ہیں کہ بغیر تصدیق کیے یا معلوم
کیے بغیر لکھاریوں پر تنقید کے جعلی وار کرنے شروع کردیتے ہیں جو کہ بے
بنیاد ہوتے ہیں اور ان کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ہے۔ہمیں اس بات کو ذہن
نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی پیدائشی مصنف پیدا نہیں ہوتا ،سب دنیا
میں آکر اپنے سے بڑے یا ساتھیوں سے سیکھتے ہیں۔اگر ایسے میں کسی کے خیال کو
منفرد انداز میں پیش کیا جائے تو یہ الگ بات ہے بجائے اس پر الزام تراشی کی
جائے۔
یہاں پر ایک بات جو بہت اہم ہے وہ بتاتی چلوں کہ قارئیں خاموش تماشائی نہیں
ہیں ان کا حق ہے کہ وہ تنقید کریں ،اظہار خیال میں سب کو آزادی رائے کا حق
یکساں میسر ہے لیکن یاد رہے کہ آپ کی تنقید جہاں فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے
وہی پر کسی کے لیے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔لکھاریوں پر ایسے تنقید
کرنا کہ :’’یہ کون سا مشکل کام ہے؟ایسا تو کوئی لکھ ہی نہیں سکتا‘‘۔وغیرہ
وغیرہ ۔یہ مصنف کی حق تلفی ہے۔ماضی میں تاریخ کو اگر کنگھالا جائے تو معلوم
ہوگا کہ کتنے نامور ادیب ایسے تھے کہ جب وہ لکھتے تھے تو پوری دنیا عش عش
کر اٹھتی تھی۔قارئیں کو اگر تنقید کا اختیار دیا گیا ہے تو ان کو چاہیے کہ
اپنی عزت آپ کے تحت اپنی حد میں رہ کر تنقید برائے اصلاح کریں۔
اگر ہم اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری ایمانداری کے ساتھ تنقید
کریں تو وہ مصنف کے لیے سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب مصنف کو بھی اس امر کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ قارئین کی رائے
اور تنقید کو اہمیت دیں نہ کہ اس کو یکسر نظر انداز کردے۔جو تنقید صحیح
معنوں میں فائدہ دے اس پر عمل درآمد کرے اور باقی کو بیشک صرف نظرانداز
کردے۔یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگرکوئی شاعر یا قلمکارتنقید کو نہیں
سننے لگا تو پھر اُس کے اندر بہتری کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا اُس کی
اصلاح تب ہی ہو سکتی ہے جب وہ تنقید کو سنے اگروہ محسوس کرتا ہے کہ اُسے
اپنی سوچ کو بدلنا چاہیے تو جیسے کہا جاتا ہے کہ ’’ زبان خلق کو نقارہ خدا
سمجھو‘‘ اسی طرح سے پرستاروں کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہیے کہ اسی سے ہی
وہ ہمیشہ عروج کی مسند پر قائم رہ سکتا ہے۔
مندرجہ بالا اگر تمام مفید نقطہ جات پر عمل کیا جائے تو بہت سے مصنفین اور
قارئین کے مسائل خود ہی دم توڑ دیں گے۔انشاء اﷲ۔
ختم شد۔
|