|
|
مارچ کا مہینہ مارچ کے حوالے سے گہماگہمی کا مہینہ جانا
جاتا ہے- خاص طور پر گزشتہ کچھ سالوں سے عالمی دن پر ریلياں اور مارچ کا
انعقاد بھرپور طریقے سے کیا جاتا ہے- خواتین کے حقوق کے لیے نکالے جانے
والے اس مارچ نے ابتداء سے ہى متنازع شکل اختيار کر رکھى ہے اس کى وجہ عورت
مارچ میں استعمال کئے جانے والے بينرز اور نعرے ہیں- |
|
يہ سلوگن ہمیشہ ہلچل مچائے رکھتے ہیں - 'میرا جسم
میری مرضی' کے سلوگن نے حقوق کى اس جدوجہد کو نئی سمت فراہم کى- 2018ء سے
آغاز کیے جانے والے عورت مارچ میں ہر بار کچھ نیا ہی دیکھنے کو ملتا ہے،
کبھی نئے نعرے، طرح طرح کے بینرز اور نئی سوچ سامنے آتی ہیں جواپبى طرف
کھنچتے ہیں- |
|
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان بینرز نے مرد و خواتین کو آمنے
سامنے لا کھڑا کر دیا ہے- یہ بینرز خواتین کے اصل حقوق سے توجہ ہٹا کر
مردوں کو کٹہرے میں کھڑا کرتے دکھائی دیتے ہیں- عورت کے حقوق کا ترجمان
ہونے کےباوجود اس کا محور محض مرد ہی دکھائى ديتا ہے جس نے ايک نئى بحث کو
جنم ديا- |
|
|
|
کہیں توپوں کا رخ نانا کی طرف ہوتا ہے تو کبھی مسجد کی
قاری صاحب نشانہ ہوتے ہیں- اگر یہ کہا جائے کہ اس سلوگن کی آڑ میں مردوں کو
برا بھلا کہا جاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا- یہی وجہ ہے کہ اس کی مخالفت میں
حیا مارچ اور مردوں نے بھى ریلیاں منعقد کيں- |
|
سال 2020ء میں مرد مارچ کا انعقاد کیا گیا-ان کا کہنا
تھا کہ عورت مارچ دراصل اینٹی مرد مارچ ہے- یہ محض مردوں کی برابری کے لیے
عورت کارڈ استعمال کر رہے ہیں- اصل حقوق وہی ہیں جو قانون اور دین دیتا ہے- |
|
انہوں نے ازراہ مذاق کہا کہ جو خواتین خود چھپکلى اور
کاکروچ نہیں مار سکتيں وہ بھلا مکمل طور پر آزاد کیسے ہو سکتی ہیں ؟ |
|
|
|
صنفی انقلاب کا آزادی مارچ میں ايسے بينرز بھی حصہ ہوتے
ہیں جو اکثر معاشرتی اقدار اور رشتوں کو حقوق کى رکاوٹ بتاتے ہیں- اپنا
موزہ خود ڈھونڈو، کھانا خود گرم کرو، دوپٹہ اتنا پسند ہے تو خود پہن لو،
جیسے بینرز معاشرتی اور خانگى زندگی کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں - |
|
اس بار عورت مارچ کا سلوگن 'میرا جسم میری مرضی' کے
بجائے 'اجرت، تحفظ اور سکون ' رکھا گیا ہے- اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نئى
چھتری تلے کیا پرانی کہانی ہى دہرائی جائے گی؟ |