بے اختیار اسے وہ لمحہ یاد آیا، جب اس نے اس سے اس کا نام پوچھا تھا....اس بیماری نے عاقب کی جان لے لی مگر کون جانے، وہ کس کے دل میں کتنا بستا ہو، لوگوں کی زندگی میں اس کا کردار ختم ہوا ہو پر میری زندگی میں وہ ہمیشہ روشن ستارہ رہے گا، اس دنیا میں سب ختم ہو جائے تو آخری بچ جانے والا احساس میری اور اسکی_علی اور عاقب کی دوستی ہو گی!!!
" />

عاقب کہانی کا مرکزی کردار بن گیا،

"کچھ لوگ زندگی سے اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ موت کا تصور کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے" دل کہیں ڈوب کر ابھرا.
بے اختیار اسے وہ لمحہ یاد آیا، جب اس نے اس سے اس کا نام پوچھا تھا....اس بیماری نے عاقب کی جان لے لی مگر کون جانے، وہ کس کے دل میں کتنا بستا ہو، لوگوں کی زندگی میں اس کا کردار ختم ہوا ہو پر میری زندگی میں وہ ہمیشہ روشن ستارہ رہے گا، اس دنیا میں سب ختم ہو جائے تو آخری بچ جانے والا احساس میری اور اسکی_علی اور عاقب کی دوستی ہو گی!!!

عاقب شبیر کہانی کا مرکزی کردار

اِک قِصَّہ اُڑتے .... پتوں کَا!!
جو سَبز رتوں میں خَاک ہُوئے
اِک نُوحَہ شَہد کے چھتوں کا
جوفَصلِ گُل میں رَاکھ ہُوئے
کُچھ بَاتیں اَیسِی رِشتُوں کِی
جو بِیچ نَگَر میں ٹوٹ گَئے
کُچھ یَادیں اَیسے ہَاتھوں کِی
جوبِیچ بھَنور میں چھوٹ گَئے


شدت درد اور تکلیف کا اندازہ وہی بہتر کر سکتا ہے جو خود اس میں مبتلا ہو یا کوئی قریبی چاہنے والا ہو یا جس میں اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کا دکھ درد محسوس کرنے کی صلاحیت عطا کی گئی ہو، یہ کہانی ہے ان چار دوستوں کی جن کی زندگیوں میں تلخی عروج پہ رہتی تھی اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا ہی لکھا تھا ان کے لیے،

ہوش سنبھالتے ہی اپنا ہاتھ خود کینولے کے لیے آگے کرنا،اور پھر رگوں کے نہ ملنے پر ہاتھ کے بجائے پیٹ، پاؤں، سر غرض کوئ بھی عضو محفوظ نہ ہونا، چار گھنٹے خون کا بیگ خالی ہونے کا انتظار کرنا، آئرن نکالنے کی دوائیں زندگی بھر فرض ہوجانا، چہرے کی ساخت تک تبدیل ہو جانا، یہ تو ابتدا تھی...

عام لوگوں کو بس ان کا علم ایسے تھا کہ ہفتے میں ایک بار خون کی بوتل لگتی ہے اور بس!!! اور اسی ایک بس سے آگے ان کی تکلیف اور سفر شروع ہوتا تھا. پہلے پہل ان تین لڑکوں کی بہت بنتی تھی آپس میں. زندگی مشکل ترین تھی اور وہ اس کو آسان کرنے کی ہر مشکل کوشش بھی مسکرا کے کرگزرتے تھے. یوں ہی ایک دن ان کی ملاقات ایک انسان سے ہوئی، جو ہسپتال کے ایک کونے میں چپ چاپ، مایوس، آنسوؤں میں ڈوبا بیٹھا رہا کرتا تھا، شاید دکھی زیادہ ہوتا تھا، ان میں سے ایک نے نام پوچھا اس سے، "عاقب شبیر" ہاں یہی بتایا تھا اس نے مگر اس کے لیے وہ اس کے بعد عاقی ہی رہا. یوں نام پوچھنے والے اور بتانے والے کے دل ہمیشہ کے لیے مل گۓ. اس ایک ملاقات کے بعد وہ ان کی زندگی کا اہم حصہ بن گیا....آنسو، مسکراہٹ، غم، خوشی سب ایک دوسرے سے بانٹا کرتے تھے. خود مرض میں مبتلا ہو کر بھی وہ باقیوں کو علاج اور دوائ تجویز کرتا تھا اور حیرت کی بات یہ کہ اس سے وہ ٹھیک بھی ہو جاتے تھے، وہ کہتے ہیں نہ کہ دل کا احساس مرہم کا کام کرتا ہے، ایسا ہی کچھ تھا.

عاقب کہانی کا مرکزی کردار بن گیا، وہ آہستگی سے دوست کو سمیٹ لیا کرتا تھا، ہوا کی مانند وہ اس کو ساتھ اڑایا کرتا، زندگی اس کے ساتھ اور قہقہوں سے پر رونق لگتی، وہ ساتھ ہوتا تو وقت کے ٹھہرنے کی دعا کی جاتی، اپنے دوستوں میں سب اس کو سلیم البیلا سمجھتے تھے، وہ اپنے وجود اور الفاظ سے ان کی مسکراہٹوں کا سبب تھا، ایک بار یوں چاروں کو موٹر-سائیکل پہ جاتے ہوئے پولیس والے نے روکا تو کہنے لگا، آنکھوں سے دکھتا نہیں ہے؟ جگ نہیں ہے تمہیں کہاں بٹھائیں!!!

یوں وقت گزرتا گیا اور پھر جیسے غم کی آندھی نے ان کی خوشیوں کے بادلوں کا آپس میں ٹکراو کروایا اور پھر ٹپ ٹپ دکھ برسنے لگا، کہانی اب جس طرف چل پڑی تھی کسی نے سوچا ہی نہیں تھا، کہانی کے مرکزی کردار کو نظر لگ گئی جیسے. وہ کسی کام سے لاہور گیا اور واپس اپنے ساتھ بخار لے آیا، دوستوں کو خبر ہوئی تو بھاگے چلے گئے، اس میں بھی جیسے کوئ جان آ گئ طبیعت کچھ سنبھلی اور اس کے بعد ایسے بگڑی کے آئ سی یو کا مہمان بن گیا، دعائیں منتیں محبتیں کچھ کام نہ آ سکیں.

اس روز وہ ناشتے پہ بیٹھا تو فون کی گھنٹی بجی، فون اٹھا کر اس نے کان سے لگایا، اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس لمحے جو وہ الفاظ سننے جا رہا ہے وہ اس کی زندگی کے سب سے زیادہ تلخ الفاظ ہیں، وہ ان الفاظ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا تھا، وہی اس کا بھائ جیسا دوست تھا...اس کی جان تھی اس میں، فون پر اس کو اس کے بھائی کی موت کا بتایا جا رہا تھا..... تمہارا عاقی نہیں رہا علی، دوسری طرف کوئی بول رہا تھا پر اس کا دماغ، دل اور کان جیسے سن ہو گۓ تھے،

یہ کیا ہوا، اس نے تو وعدہ کیا تھا وہ اسکو اکیلا نہیں چھوڑے گا پھر کیوں؟ کیوں وہ اسکی آنکھوں کو کبھی نہ ختم ہونے والے آنسو دے گیا؟ اس نے آنکھیں بند کر کے تکلیف اپنے اندر اتار لی، وہ جانتا تھا کہ عاقب باقیوں کے لیے شاید چلا گیا ہے مگر اس کے لیے وہ ہمیشہ اس کے اندر ہے وہاں، جہاں وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، وہاں جہاں سے وہ مر نہیں سکتا، ہاں وہ اسکے ساتھ ہے!!

اس نے فون کی سکرین روشن کی سامنے ان دونوں کی تصویر تھی وہ ہنس رہا تھا، اس نے ایسے ہی اس کے جنت میں ہنسنے کی دعا مانگی، "کچھ لوگ زندگی سے اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ موت کا تصور کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے" دل کہیں ڈوب کر ابھرا.

بے اختیار اسے وہ لمحہ یاد آیا، جب اس نے اس سے اس کا نام پوچھا تھا....اس بیماری نے عاقب کی جان لے لی مگر کون جانے، وہ کس کے دل میں کتنا بستا ہو، لوگوں کی زندگی میں اس کا کردار ختم ہوا ہو پر میری زندگی میں وہ ہمیشہ روشن ستارہ رہے گا، اس دنیا میں سب ختم ہو جائے تو آخری بچ جانے والا احساس میری اور اسکی_علی اور عاقب کی دوستی ہو گی!!!

(دعاِ مغفرت)
 

Ali naqi khan
About the Author: Ali naqi khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.