سفر واقعہ معراج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم

واقعہ معراج امام الانبیاء سرکار مدینہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک معجزہ ہے جو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عرش معلی پر بلایا اور آپ سے ہم کلام ہوئے نظر ونیاز کی باتیں ہوئیں،اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو تحفہ دیااور آپ ؐ نے قبول فرمایا،یہ واقعہ معراج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم تاریخ میں ایک منفرد حیثیت کا حامل بن گیا جس کی وجہ سے آج مسلمان نماز ادا کرتے ہوئے فرض ادا کرتے ہیں،قرآن مجید نے اس واقعہ کو اپنی زبانی بیان کر کے ثبت کردیا سورۂ نجم میں فرمایا پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اﷲ نے اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمائی تھی وہ نازل فرمائی ،پھر فرمایااور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک او رمرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس، جس کا نام سدرۃ المنتہیٰ ہے، اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں(نبی کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔احادیث متواترہ سے ثابت ہے، یعنی صحابہؓ، تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔

قرآن کریم اور احادیث میں ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں، بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم ﷺ کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا، بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا جوکہ مختلف مراحل سے گزر کر اتنا بڑا سفر اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کر دیا۔ اﷲ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے، اس کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے۔کیوں کہ وہ تو قادر مطلق ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہو جاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب ﷺکو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔
حضور اکرمﷺکے پاس سونے کا طشت لایا گیا،جو حکمت او رایمان سے پُر تھا، آپﷺ کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا او رپھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیا، جو لمبا سفید رنگ کا چوپایا تھا، اس کا قد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا،وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔

اس پر سوار کرکے حضورنبی اکرمﷺ کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیائے کرام نے حضو راکرم ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام او رساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام، سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اس کے بعد البیت المعمور حضور اکرم ﷺ کے سامنے کر دیا گیا، جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے اﷲ کی عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں، جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرۃ المنتہیٰ کو اﷲ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا، اﷲ کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے۔ سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں، دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ حضور اکرمﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں فرات اور نیل ہیں(فرات عراق اور نیل مصر میں ہے)اس وقت اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانی تھی اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضو رﷺ چند مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کر دی گئیں یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور ﷺ نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اﷲ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی ’ ’ لا یبدل القول الذی‘‘ کہ میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے۔ یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا او راپنے بندوں سے تخفیف کر دی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بنا کر دیتا ہوں۔ غرض کہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہی ہیں۔اس موقعہ پر حضو راکرمﷺ کو اﷲ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ، یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم ﷺ کا اپنی امت کی فکر اور اﷲ کے فضل وکرم کی وجہ سے پانچ نماز کی ادائیگی پر پچاس نماز کا ثواب دیا جائے گا(1)سورۃ البقرہ کی آخری آیت آمن الرسول سے لے کر آخر تک) عنایت فرمائی گئی(2)اس قانون کا اعلان کیا گیا کہ حضور اکرم ﷺ کے امتیوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے، بلکہ توبہ سے معاف ہو جائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر او رمشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا ہے او رحضو راکرم ﷺکا یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیائے کرام کی امامت میں وہاں نماز پڑھنا، پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیاء کرام سے ملاقات او رپھر اﷲ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ، جنت ودوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا جو ملک شام سے واپس آرہا تھا،جب حضور ﷺنے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے اور جھٹلانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیق کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپؐ کے پاس خبر آتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا لقب صدیق ؓ پڑ گیا۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور دونوں جہاں کی کام یابی وکام رانی عطا فرمائے۔ آمین!

 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 187445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.