دنیا عارضی ہے

دنیا کی چیزیں کتنی ہی پرکشش کیوں نہ ہوں  سب عارضی ہیں ایک دن ختم ہونے والی ہیں

Munir Anjum

دنیا کی چیزیں کتنی ہی پرکشش کیوں نہ ہوں سب عارضی ہیں آپ لوگوں سے یا لوگ آپ سے کتنی ہی محبت کیوں نہ کرتے ہوں یہ محبت بھی ایک دن ختم ہونے والی ہے اور ایک مستقل ٹھکانہ جو ہمارا منتظر ہے جو روز ہمیں ستر بار آواز دیتا ہے کہ اے انسان میں تنہائی کا گھر ہوں نیکیوں کا ساتھ لے کر آنا میں اندھیروں کا گھر ہوں نیک اعمالوں کی روشنی لے کر آنا میں مٹی کا وہ گھڑا ہوں جہاں تو جو دنیا سے لائے گا اسی کا بدلہ پائے گا میں اللہ کے نیک بندوں کے لیے اتنی کشادہ اور وسیع ہو ں کہ جہاں تک ان کی نظر جاتی ہو میں ان کے لیے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوں میں نیک بندوں کے لیے آرام کا وہ سامان ہوں کہ قیامت تک اس میں جنّت کی کھڑکیاں کھل جائیں گی ۔اور اس کے برعکس گنہگار بندوں کے لئے اتنی تنگ ہوں کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جائیں اور قیامت تک اس کے ساتھ یہی سلسلہ چلتا رہے گا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان کا مفہوم ہے کہ قبر کو مٹی کا ڈھیر مت سمجھو یہ یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گهڑہ ہے انسان جو بھی اچھا برا عمل کرتا ہے اس میں محفوظ ہو جاتا ہے ۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے ۔ جب کوئی نیک بندہ مرتا ہے تو قبر کہتی ہے کہ تیرا آنا مبارک ہو بہت اچھا کیا جو تو آ گیا زمین پر جتنے بھی آدمی چلتے تھے مجھے سب سے زیادہ محبت تجھ سے تھی اب تو آیا ہے تو میرے حسن سلوک کو دیکھ پھر وہ قبر اس کے لیے اتنی کشادہ ہو جاتی ہے کہ جہاں تک اس کی نظر جاتی ہے اس کی قبر میں جنت کی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہیں اور جب کوئی برا یا گناہ گار آدمی مرتا ہے تو قبر کہتی ہے کہ تیرا آنا نامبارک ہو بہت برا کیا جو تو آیا زمین پر جتنے بھی آدمی چلتے تھے مجھے سب سے زیادہ نفرت تجھ سے تھی اب تو آیا ہے تو میرے سلوک کو دیکھ پھر وہ قبر اس بندے کے لئے اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور یہ سلسلہ روز قیامت تک چلتا رہتا ہے ۔۔اب سوال یہ ہے کہ جنت کیسے حاصل کرنی ہے اور دوزخ سے کیسے بچنا ہے اللہ رب العزت نے انسان کے سامنے ایک واضح راستہ صراط مستقیم رکھا ہے یہ وہ راستہ ہے جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام اور ایک لاکھ چوبیس ہزار صاحبہ کرام اور بزرگان دین نے اپنایا ہے ۔۔اس نے سب سے پہلی بات کہ کلمہ پڑھ کر اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور کلمہ پڑھنے کے بعد سب سے پہلے انسان پر نماز فرض ہوئی اور قیامت میں سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا آپ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ جس کی نماز اچھی نکل آئی اس کے باقی سوال و جواب بھی آسان ہوجائیں گے اور جس کی نماز پوری نکلی اس کے باقی سوال و جواب بہت دشوار ہوں گے اور یہاں پر نماز کا ایک اور بڑا فائدہ لکھتا جاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جو بندہ پانچ وقت نماز کا اہتمام کرتا ہے اللہ تعالی اس کو پانچ انعام دیتے ہیں ایک زندگی میں اور چار مرنے کے بعد زندگی کا انعام یہ ہے کہ اس پر رزق کی تنگی ہٹا دی جاتی ہے جو آج کل سب سے بڑا مسئلہ ہے ہر بندہ رزق کے لیے پریشان ہے اور حلال اور حرام کی فکر نہیں کر رہا دوسرا انعام کہ اس پر سے عذاب قبر ہٹا دیا جاتا ہے عذاب قبر جس پر آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ لوگ اپنے مردے دفنانا چھوڑ دیں گے ورنہ میں اللہ سے کہتا کہ ان کو عذاب قبر دکھا دیں تیسرا اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور جس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ہو گا وہ خوش وخرم لوگوں کو دکھاتا پھرے گا اعمال نامہ کی مثال آج کل کے حساب سے جب ہم پاس ہوتے ہیں کسی امتحان میں کوئی گریجویشن وغیرہ کی ڈگری ہم کو ملتی ہے تو ہم کتنے خوش ہوتے ہیں اور وہ اعمال نامہ تو اللہ رب العزت کی طرف سے ہوگا ۔۔چوتھا انعام ۔وہ پل صراط سے بجلی کی طرح گزار دیا جائے گا پل صراط ہے کیا ؟تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز اور بال سے بھی باریک میلوں لمبا راستہ جس کے نیچے جہنم کی آگ جل رہی ہوگی اور لوگ کٹ کر اس میں گر رہے ہو ں گے اور اللہ ہمیں نماز کی برکت سے اس پر سے بجلی کی طرح گزار دے گا ۔پانچواں انعام ۔بغیر حساب کتاب جنت میں داخل کر دیا جائے گا یعنی اس سے کوئی سوال و جواب نہیں ہوگا سوال و جواب کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ قیامت کے بعد جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگا تو آدمی کے قدم اس وقت تک زمین سے نہیں حرکت نہیں کریں گے جب تک وہ اپنے سوال و جواب نہ دے دے اور وہ دل اتنا لمبا ہوگا کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ۔۔اور آخر میں۔۔ میں یہ بات آپ کو واضح کرتا چلوں کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے اول اللہ رب العزت نہیں چاہتے کہ میرا بندہ آگ میں جلے اگر اللہ رب العزت نے جہنم بنائی ہے تو اس سے بچنے کے لئے راستہ بھی بتا دیا ہے اب ہماری مرضی ہے کہ ہم کس راستے کو چنتے ہیں اور ایک بات کہ ہم کو ہر اپنے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ اللہ کے سامنے دینا ہے اور اللہ کبھی بھولنے والا نہیں اور نہ انصافی کرنے والا نہیں جو یہاں کر کے جائے گا اسی کا بدلہ وہاں پائے گا ۔۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس رستے پر چلائے جس رستے پر ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چل کر دکھایا ہے اور ہم کو راستہ دکھانے کے لئے خود کتنی تکلیفیں برداشت کی ہیں اللہ پاک ہمیں دین کی صحیح سمجھ نصیب فرمائے۔۔ آمین یا رب العالمین
 

Munir Anjum
About the Author: Munir Anjum Read More Articles by Munir Anjum: 23 Articles with 22419 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.