پروپیگنڈا

محبت ایک حسین احساسات اور جذبات سے بھرپور کیفیت کا نام ہے۔یہ خدا داد صلاحیت ہے جس پر کرم الہی ہوتا ہے اسی کے دل میں یہ جذبہ بیدار ہوتا ہے لیکن افسوس ہم نے اس خوبصورت احساس کو غلط معنی میں پرو کر اس کے مفہوم کو داغدار کردیا ہے۔محبت کے مفہوم میں صرف مرد اور عورت کی محبت کو محض گردانا جاتا ہے جو کہ ہماری سب سے بڑی بھول ہے ،اس میں تو بہن بھائی، ماں، باپ، دوست،شوہر یا سہیلی بھی موجود ہیں۔ہمارے دین اسلام نے محبت کا مفہوم تو ہمیں یہی سیکھایا ہے لیکن کچھ شر پسندوں نے اس اصول سے جلن محسوس کرتے ہوئے محض اصل مقصد سے ہٹاتے ہوئے ہمیں ورغلانے کے لیے محبت کے نام پر 14فروری کو نام نہاد محبت کے عالمی دن کا انعقاد کیا ہے جس کو تہوار کی حیثیت دی گئی ہے۔یہ محبت جیسے پاکیزہ جذبے کی توہین کرتے ہوئے پروپیگنڈا نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟؟؟

جس دن کو محبت کے نام پر مناتے ہوئے عورت جیسی عظیم ہستی کا استحصال کیا جاتا ہے اس کو تو ہمارے مذہب میں سب سے زیادہ قابل عزت و تکریم عطا کی گئی ہے۔قرآن پاک میں سورۃ نور میں عورت کو جابجا اپنی شرم و حیا کی حفاظت کرنے کا درس دیا ہے اور اس کے لیے حدودو قیود کا تعین واضح کردیا گیا ہے۔ایسے میں کسی غیر محرم کے ساتھ محبت کے نام پر کھلونا بن کر استعمال ہونا یہ کہاں لکھا ہے؟؟؟

محبت کسی ایک دن کی محتاج نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی پوری دنیا میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے، اس دن لوگ اپنے پیار کا اظہار کرتے ہیں۔ اظہار محبت کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ تاہم پاکستان اور انڈیا میں زیادہ تر عاشق حضرات ویلنٹائن ڈے کے دن اپنے پیار و محبت کا اظہار محبت بھری شاعری سے کرتے ہیں۔

اسلام میں غیر مردوں اور غیر عورتوں کا ایک دوسروں سے ملنا اور اظہارمحبت کرنا منع ہے جبکہ مسیحی نقطہ نظر کے حامل افراد کے نزدیک چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ 2016 بھی مسیحی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیے۔ اسی کی کڑی کے طور پر بینکاک میں ایک مسیحی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کر دیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔

دنیا کے مختلف ممالک میں ویلنٹائن ڈے کو تہوار کی طرح منایا جاتا ہے۔درج ذیل میں چند ممالک اور یہ دن منانے کے حوالے سے تذکرہ کیا گیا ہے۔

حالیہ برسوں میں امریکا اور یورپ میں اس دن کو جوش و خروش سے منانے والوں میں ہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے (Gay)اورلڑکیاں پیش پیش تھیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سان فرانسسکو میں ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے برہنہ جلوس دیکھے۔ جلوس کے شرکاء نے اپنے سینوں اوراعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکا رکھے تھے۔ وہاں یہ ایسا دن سمجھا جاتا ہے جب ’محبت‘ کے نام پر آوارہ مرد اور عورتیں جنسی ہوسناکی کی تسکین کے شغل میں غرق رہتی ہیں۔ کچھ اسلامی ممالک میں اس دن اس رسم کیخلاف مہم بھی چلائی جاتی ہے۔

٭پاکستان:
پاکستان میں گذشتہ دو تین سالوں سے اس دن کے جشن منانے کا جذبہ نوجوانوں میں جوش پکڑتا جا رہا ہے، حالانکہ یہاں کا ماحول یورپ جتنا سازگار نہیں ہے اور آبادی کا معتدبہ حصہ اس دن کی تقاریب کو قبیح مانتا ہے۔ یہاں پر ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ شہری علاقوں میں اسے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ پھولوں کی فروخت میں کئی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی حال کارڈز کی فروخت کا ہوتا ہے۔

2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عوامی مقامات پر ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی لگا دی تھی۔

٭بھارت:
بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل نے ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو سنگین نتایج کی دھمکیاں دیتے ہوئے انھیں کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

ایک اور انتہا پسند تنظیم ہندو مہاسبھا نے اعلان کیا ہے کہ وہ کْھلے عام آئی لو یو کہنے والے جوڑوں کی زبردستی شادی کروائے گی۔

٭انڈونیشیا:
2020ء انڈونیشیا میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی رہی۔ حکام نے مختلف ہوٹلوں پر چھاپے مار کر بہت سے جوڑوں کو گرفتار کیا۔

٭سعودی عرب:
2002ئاور 2008ء میں سعودی پولیس نے ویلنٹائن کے حوالے سے کسی بھی چیز کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی نے وہاں ایک کالا بازار (بلیک مارکیٹ) بنا دی جہاں ویلنٹائن کے پھول اور دیگر چیزیں ملتی تھی۔ 2012 میں مذہبی پولیس نے 140 مسلمانوں کو یہ تہوار مناتے ہوئے پکڑا اور دوکانوں پر فروخت ہوتے تمام پھول قبضے میں لے لیے۔سعودی عرب میں مسلمان یہ تہور نہیں منا سکتے جبکہ غیر مسلم گھروں میں اسے منا سکتے ہیں۔2020ء میں سعودی عرب میں کھل کر ویلنٹائن ڈے کو منایاگیا۔ پیار کرنیو الوں نے ایک دوسرے کے لیے پھول اور تحائف خریدے۔اس سال سرکاری سطح پر ویلنٹائن ڈے پر کوئی رکاؤٹ نہیں ڈالی گئی اور نہ ہی مذہبی حلقوں نے اس کی مخالفت کی۔اس کی وجہ ولی عہد محمد بن سلیمان کا سعودی عرب کو معتدل بنانے کا عزم ہے۔

ویلنٹائن ڈے نے پاکیزہ معاشرہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ بد امن اور داغ دار کیا ہے۔ اخلاقی قدروں کو تہس نہس کیا ہے، اور رشتوں، تعلقات، احترام، انسانیت تمام چیزوں کو پامال کیا ہے۔ لال گلاب اور سر خ رنگ اس کی خاص علامت ہے، پھول کی تقسیم اور اس موقع پر ویلنٹائن کارڈ کا تبادلہ بھی اظہارِمحبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر اس کی تجارت ہوتی ہے اور ہوس پرست اس کو منہ بولے دام میں خریدتے ہیں۔ منچلوں کے لئے ایک مستقل تفریح کا سامان بن گیا ہے۔ ویلنٹائن کی جھوٹی محبت کا انجام کیا ہوتا ہے اس کو مختصر جملوں میں بیان کیا گیا ہے:
٭عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا، محبت کی شادمی کا دردناک انجام، خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل۔
٭عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کردیا۔
٭محبوبہ محبوب سمیت حوالات میں بند۔
٭محبت کی ناکامی پر دوبھائیوں نے خود کشی کرلی۔
٭محبت کی ناکامی میں نوجوان ٹرین کے آگے گود گیا، جسم کے دوٹکڑے ہوگئے۔
٭ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین چچا اور ایک بچی سمیت قتل کرڈالا۔

یہ وہ اخباری سرخیا ں ہیں جو نام نہاد محبت کی بناپر معاشرتی المیہ بنی ،آئے روز یہ اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیں۔

مغربی تہذیب نے بہت سے بے ہودہ رسوم و رواج کو جنم دیا۔ اور بدتہذیبی اور بدکرداری کے نئے نئے طریقوں کو ایجاد کیا۔ جس کی لپیٹ میں اس وقت پوری دنیا ہے اور بطور خاص مسلم معاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ ریلیاں رچانے کے کلچر کو فروغ دینا شروع کیا۔اور اس کی آڑ میں بہت سی خرافات روایات اور بد اخلاقی و بے حیائی کو پھیلانے لگے۔ چناں چہ ان ہی میں ایک 14 فروری کی تاریخ ہے جس کو ’’یوم عاشقاں ‘‘یا ’’یوم ِ محبت ‘‘* کے نام سے منایا جاتا ہے اور تمام حدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور تہذیب وشرافت کے خلاف کاموں کو انجام دیا جاتا ہے اور ناجائز طور پر اظہار محبت کے لئے اس دن کاخاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ چند سال قبل یہ لعنت اس درجہ ہمارے معاشرہ میں عام نہیں تھی لیکن اب رفتہ رفتہ نوجوان طبقہ اس کا غیر معمولی اہتمام کرنے لگا ہے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے اور گویا کہ یہ دن ان کے لئے دیگر تمام دنوں سے زیادہ اہمیت کا حامل بن گیا کیوں کہ اس دن وہ اپنی آرزو کی تکمیل اور اپنے جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں اور غیر شرعی و غیر اخلاقی طور پر محبت کا راگ الاپ سکتے ہیں۔جب کہ شرعی اور اخلاقی نیز معاشرتی اعتبار سے اس کی بہت ساری خرابیاں اور مفاسد ہیں لیکن ان تمام کو بالائے طاق رکھ کر جوش ِ جنون اور دیوانگی میں اس دن کو منانے کی فکروں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اقبال کا بھی وہی نظریہ ہے جو اسلام کا ہے۔ اور اسی وجہ سے اقبال نے اپنے کلام میں عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی سے متعلق اپنے نظریات کو پیش کیا ہے۔ اقبا ل نے اپنی شاعری میں عورت کا مختلف انداز میں بار بار ذکر کیا ہے۔ وہ عورت کا ذکر نہایت عزت واحترام کے ساتھ کرتے ہیں۔ کبھی ماں کی شکل میں، کبھی بہن تو کبھی بیوی کی شکل میں، تو کبھی عورت کی جفا کشی اور دلیری پر دادِ تحسین دیتے ہیں تو کبھی اس کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ چنانچہ عورتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ :
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اْسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شَرَف ہے اِسی دْرج کا دْرِ مکنوں
مکالماتِ افلاطوں نہ لکھ سکی، لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں

عورتوں کی شجاعت وبہادری اور ان کی عزت واحترام کا عکس ہمیں اقبال کے کلام میں جابجا نظر آتا ہے۔ اقبال نے فاطمہ بنت عبداﷲ کی شجاعت کی مثال دی ہے جو پہلی جنگ عظیم کے وقت غازیوں کو پانی پلاتے وقت شہید ہوگئی تھیں۔ ان کو امت کی آبرو بتایا ہے اور ان کی شہادت پر فخر کیا ہے۔

لہٰذا ان تمام اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال عورت کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کو مخاطب کرتے ہیں۔ عورت کی نسوانیت پر کسی طرح کی آنچ نہ آنے دینے کی قسم کھاتے ہیں اور اس کی بڑائی کو سراہتے ہیں۔

یہ وہ تلخ حقائق ہیں اور ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریوں کی ایک مختصر روداد ہے،جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کے عنوان سے پوری دنیا میں کیا تباہی مچائی جاتی ہے اور کس طرح ایمان و اخلاق سے کھیلاجاتا ہے،معاشرہ کو بے حیا بنانے اور نوجوانوں میں بے غیرتی اور بے حیائی کو فروغ دینے میں اس دن کی کیا تباہیاں ہیں، اس حقیقت سے کسی عقل مند اور سلیم المزاج انسان کو انکار نہیں ہوسکتا کہ اس وقت پوری دنیا میں بے حیائی کو پھیلانے اور بدکاری کو عام کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہورہی ہیں، نوجوانوں کو بے راہ رو کرنے اور بالخصوص مسلم نوجوانوں سے جذبہ ایمانی کو کھرچنے اور حیا واخلاق کے جوہر سے محروم کردینے کے یہ دن اور اس طرح کے بہت سے حربے اسلام دشمن طاقتیں استعمال کررہی ہیں۔امت ِمسلمہ کے نوجوانوں کو ان تمام لغویات اور واہیات قسم کی چیزوں سے بچنا بے حدضروری ہے، اور معاشرہ کو پاکیزہ بنانے اور اخلاق وکردار کو پروان چڑھانے کے لئے اس طرح کی بے حیائی کو فروغ دینے والے دنوں کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے اور ا س کے بالمقابل اسلام کی حیا کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے سکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں کے ماحول میں بالخصوص اور نوجوان اپنے افراد واحباب اور دوستوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس دن کے حقیقت اور تباہ کاری سے آگاہ کریں اور ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو کسی بھی اعتبار سے معاشرہ میں بے حیائی کے پھیلنے کا ذریعہ بنے اور دنیا والوں کو اسلام کی بلند ترین تعلیمات کا خوبصورت نمونہ پیش کرنے کا موجب بنے۔اﷲ ہمیں ہدایت کی راہ دکھائے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا کرے،آمین۔
"کیا کہا ! تمیں عشق ہے محبت سے؟؟؟
میں بائیکاٹ کرتا ہوں ایسی محبت سے"
(ختم شد)۔
 

Faqiha Qamar
About the Author: Faqiha Qamar Read More Articles by Faqiha Qamar: 11 Articles with 7495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.