پہاڑوں کا راہی اور سفرنامہ نگار،عمر فاروق عارفی

عمر فاروق عارفی ایک ہنس مکھ اور سلجھے ہوئے نوجوان لکھاری ہیں ۔ان کا تعلق (خٹک)فیملی سے ہے لیکن ان کی پیدائش بورے والا کے گاؤں 455ای بی میں ہوئی وہیں زندگی کے ابتدائی 22سال گزارے ہیں۔یہ شعبہ الیکڑونکس میں گریجوایٹ ہیں اور پانچ سال سے اورئینٹ گروپ میں جاب کررہے ہیں۔شاعری کا شغف رکھتے ہیں،اچھے نعت خواں بھی ہیں اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بھی ہیں۔چار سالوں میں تین سفرنامے لکھ چکے ہیں ،آج ان سے انٹرویو کے ذریعے ان کی شخصیت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے،امید ہے آپ اس سے محظوظ ہونگے۔
س:آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟بچپن کہاں اور کیسا گزرا؟
ج: میرا آبائی علاقہ اٹک ہے، ہمارے بڑے خانیوال آگئے، والد صاحب عالم دین اور سکول ٹیچر تھے وہ بورے والا میں ملازم ہوئے اس لیے ہم سب بہن بھائیوں کی پیدائش بوریوالا کی ہے، میں نے بچپن اور جوانی کی ابتدائی سیڑھیاں بوریوالا ہی میں چڑھی ہیں، بچپن ایک دینی ماحول میں گزرا، بہن بھائیوں میں خوب مزاح چلتا تھا۔
س:آپ کے نام میں عارفی ہے کیا یہ آپ کا تخلص ہے؟
ج: اس کے پیچھے اصل میں ایک کہانی ہے جو میں عموماً کم ہی بتایا کرتا ہوں، مجھے بچپن سے نعت پڑھنے کا شوق تھا، کالج کے دنوں میں میں نے ساہیوال کے نعت خوان شاہد عمران عارفی صاحب کو سننا شروع کیا، انکی شخصیت اور سیرت کی چھاپ میرے دل میں بیٹھ گئی، میں اپنے نام کیساتھ خٹک کا اضافہ کرتا تھا۔ایک دن ایک دوست نے کہا کہ آپ جن کو نقل کرتے ہو اسکا نام بھی نقل کرو، خٹک میں لسانیت کی بو آتی ہے مجھے انکی بات پسند آئی اور میں نے اسی دن سے یہ نام استعمال کرنا شروع کردیا۔
س:نوجوانی کی عمر میں دین سے اس قدر لگاؤ کہ امامت اور نعت خوانی کا شرف بھی حاصل ہوا،یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
ج: میں نے جیسا کہ پہلے بتایا کہ والد صاحب امام و خطیب بھی تھے اور اسکول میں اردو عربی کے استاد بھی تو اس لیے یہ چیزیں میری گھٹی میں شامل تھیں، دوسرا والد صاحب کی لائبریری کو سب سے زیادہ میں کھولتا تھا اور کوئی کتاب نکال کر پڑھا کرتا تھا۔
س:کیا آپ کا بچپن سے مطالعہ ہی لکھاری بننے کے لیے محرک ثابت ہوا؟
ج: میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ دوچیزیں میں نے اباجان سے سیکھیں، ایک اوقات کار بناکر وقت گزارنا اور دوسرا مطالعہ کا شوق۔میرا خیال ہے کہیں نا کہیں یہ چنگاری سلگتی رہی اور پھر بہت بعد میں اسکا اندازہ ہوا کہ میں لکھ سکتا ہوں۔
س:قدرت کے حسین نظاروں سے عشق کا دعوی تو ہر کوئی کرتا ہے ،آپ نے عملی طور پر اپنی محبت کا ثبوت کب اور کیسے دیا؟
ج: میرا ہرسفر ہی اس بات کا ثبوت ہے، پہاڑوں کو دیکھ کر روح میں ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے، میں دوستوں سے چھپ کر اشکبار ہوجاتا ہوں، جھیلوں پہ بیٹھ کر زارو قطار آنسو ٹپک پڑتے ہیں، زبان گنگ ہوتی ہے اور آنکھیں بولتی ہیں، میں رتی گلی جھیل سے لیکر کمراٹ ویلی کے آخری سرے تک جتنی جھیلوں پہ جاسکا میں نے ہرجگہ آنسو بہائے، لیکن اتنا ضرور کہتاہوں یہ میرے اختیار میں نہیں ہے، میں نے بہت سمجھنے کی کوشش کی لیکن نتیجے پہ نہیں پہنچ سکا۔ بس پھر اسے سمجھنا چھوڑ دیا کہ ہر بات ہر انسان کیلیے شاید جاننا ضروری نہیں۔ٹریک کرکے جب میں واپس آتا ہوں تو میں اپنے بوٹوں سے مٹی جھاڑنا پسند نہیں کرتا، مجھے یاد ہے 2019 میں نیلم سے واپسی پہ راولپنڈی پہنچ کر سب نے بوٹ صاف کیے تھے اور میں ساتھیوں کو ڈانٹ رہا تھا، کہ کیسے گوارا کرتے ہو آپ لوگ۔2016 میں باقاعدہ پہلا ٹور تھا ناران سے واپسی پہ لاہور میں آکر میں کمرے میں اتنا رویا کہ ہچکی بندھ گئی میں شاید کیفیت کو لکھنے سے قاصر ہوں۔
س:آپ کی بنائی تحریک ٹیم MLGکا مخفف کیا ہے؟اس کو بنانے کی ضرورت کیونکر پیش آئی اور اس کے اغراض و مقاصد کے متعلق کچھ تفصیل سے بتائیں۔
ج: MLG کا مطلب Mountains Lover Group" "ہے، میری ٹیم کا ہر سفر ان نکات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے،
1. سیروتفریح پہ جانے کا مقصد محض وقت پاس کرنا نہیں ہوتا بلکہ میرے نزدیک قدرت کے رنگ اور نشانیاں دیکھ کے اﷲ کی ذات پہ ایمان مزید مضبوط کرنا۔
2. بھوک پیاس اور رستے کی تکلیفوں کا سامنا کرکے اپنے اندر برداشت پیدا کرنا۔
3. دوسروں کی خدمت کا مادہ پیدا کرنا بھی سیروتفریح کے بڑے مقاصد میں شامل ہے۔
4.سیاحتی مقامات پہ جاکر علامتی صفائی مہم چلا کر لوگوں کے اندر صاف ستھری سیاحت کا فروغ اور جذبہ پیدا کرنا۔
5. سفرنامہ لکھ کر کتابی شکل میں لانا، لوگوں سے ان علاقوں کے بارے معلومات کا تبادلہ کرکے رہنمائی کرنااور کتاب بینی کا مرتا ہوا شوق دوبارہ سے زندہ کرنا۔
س:لکھنے کی ابتداء کب کی؟سب سے پہلے کیا لکھا اور سفرنامے لکھنے کا خیال کیسے آیا؟
ج:" بچوں کا اسلام" کے پہلے شمارے سے میں قاری رہا ہوں، ان دنوں بڑے شوق سے خط لکھتا تھا، چند ایک خط چھپے تو خوشی سے وہ سب کو دکھاتا تھا کہ میرا خط شائع ہوا۔پہلی دفعہ ایک تخیلاتی انٹرویو مدیر اشتیاق احمد مرحوم کا لکھاجو مزاح سے بھرپور تھااور مزے کی بات یہ کہ میری وہ تحریر سالنامہ میں شائع ہوئی 2009 سے 2014 کے درمیان ہی کوئی سالنامہ تھاٹھیک سے سال یاد نہیں ہے اس کے بعد کتابوں سے لگاؤ تو رہا لیکن لکھنے کا سلسلہ نہ چل سکا۔باقاعدہ لکھنے کا خیال 2017-2018 کے سالانہ ٹور کے بعد آیا جب میں نے فیس بک پہ اپنا ایک دن کا سفرنامہ لکھا تو بہت زیادہ پذیرائی ملی۔فیصل آباد سے کسی نے کہا کہ ہم پہلی دفعہ گھر سے نکل کر ناران جانا چاہتے ہیں۔ہم نے آپ کی تحریر پڑھی ہے۔مجھے اس سے واقعی بہت زیادہ حوصلہ اور مسرت ملی۔ بورے والاسے حنیف زاہد صاحب نے حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ آپ میں سفرنامہ نگار بننے کی صلاحیت ہے محنت جاری رکھو۔
س۔کیا سفرنامے سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟
ج: سیاحت تو بہت فروغ پاچکی ہے میرا خیال ہے اب صاف ستھری سیاحت کے فرو کیلئے ہمیں کام کرنا ہوگا۔ہم ساری عمر کچرا پھیلانا سیکھتے ہیں اٹھانا نہیں۔ پڑھا لکھا انسان شاپر گھوما کر کچرا باہر پھینکتا ہے اور ایک ان پڑھ اسکو اٹھاتا ہے۔ اس سے بڑی دکھ بھری بات اور کیا ہوگی؟ ہماری تعلیم وتربیت کا جنازہ تو اسی وقت نکل جاتا ہے۔ سفرنامے تو کردار ادا کرتے ہیں اور لکھنے والوں کو اس پہلو پہ نظر رکھتے ہوئے لکھنا چاہیے۔
س: آپ کے خیال میں کیا سفرناموں کو پڑھ کر لوگ سیاحت کی طرف مائل ہو سکتے ہیں؟
ج: بالکل ہوتے ہیں،آپ اچھالکھیں تو لوگ خود بخود اس کی طرف کھنچتے چلے آتے ہیں۔ اس کی مثال میں نے آپ کو اوپر سوال کے جواب میں پیش کی ہے کہ فیصل آباد سے کسی اجنبی نوجوان کا فون آیا کہ انہوں نے میرا سفرنامہ فیس بک پہ پڑھنے کے بعد پہلی دفعہ گھر سے نکلنے کی ٹھانی۔
س: دورحاضر کے کن نئے ادیبوں کے کام کو بے حد پسند کرتے ہیں؟
ج: سفرناموں کے حساب سے یہ پوری صدی "مستنصر حسین تارڑ صاحب" کے نام ہے ۔وہ آسمان ادب و سیاحت کا دب اکبر ہیں، وہ ہمارے درمیان موجود ہیں اس لیے مجھے وہ سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔وہ اپنے قلم کے زور پہ کبھی پرانے نہیں ہونگے۔"ابن آس محمد"کے نام کا تعارف سوشل میڈیا پہ ہوا، سوشل میڈیا پہ ہی ان کو کچھ پڑھ سکا ہوں خوب لکھتے ہیں اور بچوں میں"محمد احمدرضاانصاری" بہت اچھی کوشش کرتا ہے خوب محنتی نوجوان ہے،ادب اطفال میں یہ بہت چمکے گا۔ صاحب سوال نے بھی انتہائی تھوڑے عرصہ میں بہت متاثر کیا ہے۔
س:اب تک آپ کی کتنی کتب منظر عام پر آچکی ہیں؟
ج: میری دو کتب ''جنت میں گزرے چنددن'' اور "سکون کے متلاشی'' منظرعام پہ آچکی ہیں۔تیسری کتاب سفرنامہ وادی کمراٹ ''پربتوں کے راہی'' مکمل ہوچکا ہے، ان شاء اﷲ چندماہ تک چھپ جائیگا۔" والد صاحب کی سوانح حیاتــ" اور گاوں میں گزرے دنوں پہ میری کتاب ''دیہاتی خوشبوئیں'' زیرقلم ہے۔یہ لمبا منصوبہ ہے اس پہ کم ازکم دو سال مزید لگ جائیں گے،اس پہ تیس فیصد کام کیا جاچکا ہے۔
س:مستقبل قریب میں خود کو کہاں پر پاتے ہیں اور مزید کیا کرنے کی جستجو ہے؟
ج: انسان کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہوتا اصل میں اس کا اپنی ذات ہی سے مقابلہ ہوتا ہے۔ میں اس دھرتی کیلئے کچھ کرجاؤں، اس پہ بسنے والے مظلوم انسانوں کیلئے کاش کچھ کرسکوں۔کسی کو رستہ دکھا سکوں، میری زندگی کی خواہش ہے کہ میں کم ازکم دس سفرنامے ضرور لکھوں۔ سیاحت کے وسیع میدان میں اپنا آٹے میں نمک کے برابر حصہ ڈال سکوں۔
س:ادبی سفر میں آپ کو اور آپ کے کام کو کس قدر پذیرائی حاصل ہوئی؟
ج: الحمدﷲ! امید سے بڑھ کر پذیدائی ملی ہے لیکن کچھ میری کمزوریاِں ہیں جس کی وجہ سے میں قومی سطح پہ لوگوں کی نظر میں نہیں آسکا جنہوں نے مجھے پڑھا وہ متاثر ہوئے اور حوصلہ بھی بندھایا۔
س:کہاں الیکٹرونکس کا گریجویٹ اور کہاں قلم کتاب کا ساتھ؟اگر آپ مصنف نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
ج: آپ کی زندگی میں کچھ فیصد آپ کے مقدر کا کھیل بھی شامل ہوتا ہے،ویسے میرا نظریہ تو یہ ہے کہ زندگی میں بڑا مقام پانے کیلئے رکاوٹ نہ ہو تو زندگی میں حرکت ممکن نہیں۔ زندگی میں بہت سے ایسے کردار ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں جو زندگی میں آ نے والی ناگہانی رکاوٹوں سے تحریک لیتے ہیں وقت کے ساتھ وہ ایسے ٹھوس عزم و ارارادوں کے امین بنتے ہیں کہ پھر مشکلات بھی اس بندے کو مرشد کہتی ہیں۔ کیا ہوتا یہ تو میرے لیے کہنا ناممکن ہے، بس مطالعہ کے شوق کی وجہ سے چنگاری تو شروع سے سینے میں تھی لیکن اس کو پھونک حالات نے ماری اور مجھے تحریک ملی اور یہ الفاظ سینے سے کاغذ پہ منتقلی کا باعث بنے۔
س:اپنی ذاتی زندگی اور مصروفیت کے متعلق کچھ بتائیں۔
ج: میں نجی کمپنی میں ملازم ہوں، فکر معاش کیلئے لاہور میں رہائش پذیر ہوں، گھر پہ والدہ ہوتی ہیں اور میرے ساتھ ان کی دعائیں ہوتی ہیں۔ کھانا بنانا بھی شوق ہے، آجکل تو خوب محنت سے نئے نئے کھانے بناتا ہوں کیونکہ شادی بھی اسی سال ہو نے والی ہے ان شاء اﷲ۔ ڈیوٹی کے بعد دوستوں سے گپ شپ، مطالعہ اور لکھنا میرا معمول ہوتا ہے۔
س:صاحب کتاب ہونا ایک مصنف کے نزدیک کس قدر اہمیت کا حامل ہے؟کتاب کب اور کیسے لانی چاہیے؟
ج: صاحب کتاب ہونا اﷲ کی ایک عنایت ہے اس پہ پہلے تو اس ذات کا شکر کرنا واجب ہے جس کی خاص عنایت اور کرم سے توفیق ملی ہے۔ دیکھیں ہمارے خطے میں لاکھوں لوگ پیدا ہوئے جو بڑے برگزیدہ تھے لیکن چند ایک کا نام تاریخ نے یاد رکھا جن کی کوئی کتاب تھی یا کتاب سے تعلق تھا۔ بچوں کو ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں سے ان کے نام ازبر یاد ہیں جن کی کوئی کتاب تھی۔ انسان کی زندگی خود ایک سبق ہوتا ہے، اس لیے میرے خیال میں آپ لکھنا شروع کریں جیسے ہی موقع ملے کتاب چھپوانی چاہیے کسی کی زندگی میں اسے یہ اعزاز مل جائے تو یہ خوش نصیبی ہے۔ غلطیاں تو بعد میں دور ہوسکتی ہیں اورتنقید کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے اس لیے لکھنے والے کو موقع اور گنجائش بنتے ہی کتاب چھپوانی چاہئے۔
س:آپ کے خیال میں ایک ادیب کی معاشرے میں کیاحیثیت ہے؟
ج: ادیب کی حیثیت ایک نبض شناس استاد سی ہے وہ معاشرے میں رہنے والے افراد کی نفسیات کو جانتا ہے اور اس کو اپنے الفاظ میں اپنے کرداروں کے روپ میں معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ادیب میں گھمنڈ نہیں ہونا چاہیے اگر اس میں لکھنے کی قابلیت ہے تو یہ اس ذات کا خصوصی انعام ہے،وہ یہ انعام چھیننے پہ بھی قدرت رکھتا ہے۔ میں نے پہاڑوں پہ چڑھتے یہی دیکھا ہے کہ اوپر چڑھنے کیلئے سر جھکا کر چڑھنا پڑتا ہے، عاجزی ہی ایک اچھے ادیب کا شیوہ ہونی چاہئے۔ہمارے ہاں ادیب کی قدر نہیں کی جاتی۔مرنے کے بعد ہرسال ایک تقریب اس کی یاد میں منعقد کرواکے کھاپی کر لوگ گھر چلے جاتے ہیں۔ یہی حال زندہ ادیبوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے، نوجوانوں کو تیار کرنے والے کس کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے ہیں کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی، اس میں ریاست کو ماں کی طرح سرپرستی کرنی چاہیے۔
س:آپ کا مقصد حیات کیا ہے؟زندگی کو کس نظریے سے دیکھتے ہیں؟
ج: زندگی ایک برف کی مانند ہے جو پگھلتی جاتی ہے۔یہ ہم پہ منحصر ہے کہ برف کو یونہی پگھلنے دیا جائے یا اسے اٹھا کر پانی ٹھنڈا کرنے کیلئے استعمال میں لاکر ضائع ہونے سے بچالیں، باقی ہمارا ایمان ہے کہ مرنے کے بعد پوچھ گچھ ہونا بھی باقی ہے تو اس لیے اﷲ اور رسولﷺ کی ناراضگی سے بچنا اور انسانیت کو دکھ نہ دینا میرا مقصد زندگی ہے۔اﷲ مجھے اس کی توفیق سے نوازے ۔،آمین۔
س:اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: محنت کریں، لوگ کیا کہتے ہیں اس پہ دھیان نہ دیں،محنت کرینگے تو اس کا پھل ضرور ملے گا۔ بعض اوقات یہ دیر سے ملتا ہے اور یہ ہمارے صبر کا امتحان بھی ہوتا ہے اس لیے ایسی چیزوں پہ صبر کریں، برداشت نہیں، برداشت پہ اجر نہیں جبکہ صبر پہ اجر ملے گا۔
(ختم شد)۔
 

Faqiha Qamar
About the Author: Faqiha Qamar Read More Articles by Faqiha Qamar: 11 Articles with 6016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.