بِسمِ اللہِ الرحمٰن الرحیم
انسان کے لغوی معنی بشر اور آدمی کے ہیں۔بشر انسان کو کہتے ہیں۔
انسان اللہ رب العزت کی تمام تخلیق کردہ مخلوق میں سب سے عظیم مخلوق ہے۔اس
لیے اسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔
انسان کو اشرف المخلوقات کہنے کی وجہ کیا ہے؟
انسان کو اشرف المخلوقات کہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ پاک
نے بذات خود تخلیق فرمایا اور اپنی روح پھونکی ۔یہ شرف کسی اور مخلوق کو
حاصل نہیں ہے ۔
انسان کیا ہےاور اس کا مقام کیا ہے؟
انسان صرف ایک گوشت پوست کا پتلا یا ڈھانچہ نہیں ہے ۔بلکہ جو اصل چیز انسان
کے اندر پوشیدہ ہے وہ اس کا دل ہے ۔
حدیث قدسی ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
میں آسمانوں اور زمینوں میں نہیں ملتا ۔بلکہ میری ذات کی سمای بندہ مومن کے
دل کے اندر ہے۔
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پاسکے
اِک میرا ہی تو دل ہے جہاں تو سما سکے
اس پیکر خاکی میں جو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی چیز رکھ دی ہے"دل" کہ جو دل
ہے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کی جلوہ گاہ ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات
کا ٹھکانہ ہے۔جب انسان کو یہ بات پتہ چلتی ہے کہ میرا وجود کچھ نہیں ہے۔اصل
چیز انسان نہیں اس کا دل ہے ۔جو اللہ تعالیٰ کی ذات کی جلوہ گاہ ہے،تو
انسان کے ذہن میں ایک تخیّل واضح ہو جاتا ہے،کہ انسان کسی مکان میں بیٹھا
ہے اگر کوئی اس مکان پہ گل پاشی کرتا ہے ، یا اس مکان کے باہر گالی گلوچ
کرتا ہے، برا بھلا کہتا ہے، تو ان ساری باتوں کا اطلاق مکان پر نہیں ،بلکہ
مکین پر ہوتا ہے ۔یہ انسان جو مکان ہے ، وہ کس کا مکان ہے؟ اور اس حجرے
کےاندر کون رہتا ہے؟
حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اے تن رب سچے دا حجرہ وچ پا فقیرا جھاتی ہو
تیرا یہ وجود اللہ تعالی کا حجرہ ہے،اللہ تعالیٰ کی جلوہ گاہ ہے،اللہ کا
ڈیرہ ہے۔جب کوئی انسان اس کے قتل کی سازش کرتا ہے ،بہتان لگاتا ہے،برا بھلا
کہتا ہے ،غیبت کرتا ہے۔ان باتوں کا اطلاق مکان پر نہیں ہوتا۔ اگر کوئ محبت
،رحمت اور عزت سے پیش آئے گا تو یہ تعظیم اس انسان کی نہیں کر رہا بلکہ یہ
تعظیم اس انسان کی کر رہا ہے جو اسکے اندر موجود ہے ۔
ہم رزق کو کتنی حرمت اور تعظیم دیتے ہیں کہ کوئ اناج ہم زمین پر گرا ہوا
دیکھ لیں تو چوم کر اٹھا لیتے ہیں ،کہ اناج مثال کے طور پہ گندم جنت سے آیا
ہے۔اسی طرح مور کے پروں کو تعظیم کے طور پر مقدس کتب اور قرآن پاک میں
رکھتے ہیں کہ یہ جنت کا پرندہ ہے۔
ہجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے کتنی مشقت اٹھاتے ہیں کہ یہ سعادت ہمیں نصیب
ہو جائے، تو کیا انسان جنت سے نہیں آیا ؟ کیا وہ اشرف المخلوقات نہیں ہے؟
ہم اس کی تذلیل و تحقیر کیوں کرتے ہیں؟ اور انسان کے دل میں تو خدا رہتا ہے
،تو ہمیں تو سب سے زیادہ عزت و احترام انسان کو دینا چاہئے کیوں کہ اس میں
خدا رہتا ہے۔
قرآن مجید کی آیت مبارکہ ہے کہ
* اوربے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ۔
( القرآن، بنی اسرائیل، ۷۰:۱۷ )
جب الله پاک قرآن مجید میں فرما رہے ہیں کہ" ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔"
تو کیا ہمیں اس پر عمل نہیں کرناچاہئے؟ کیا ہمیں ایک دوسرے کی قدر نہیں
کرنی چاہئے ؟ کیاایک دوسرے کو عزت نہیں دینی چاہئے؟
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے
احترام ،وقار اور مساوات اور مبنی ہے۔قرآن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے
نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی ہے۔آدم علیہ
السلام کی تخلیق کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حضرت آدم علیہ
السلام کو سجدہ کرنے کاحکم دیا۔اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوقات پر
فضیلت عطا کی گئی۔
قرآن حکیم
میں ارشاد باری تعالی ہے:
ولقد كرمنا بني آدم و حملتهم في البر والبحر
ورزقنهم من الطيبت و فضلتهم على كثير ممن خلقنا
تفضيا
"اور بے
شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور
ہم نے ان کوخشکی اور تری میں (مختلف سواریوں پر سوار کیا اور ہم نے انہیں
پاکیزہ چیزوں
سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات
پر جنہیں ہم نے پیدا کیا فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔"
القرآن بنی اسرائیل ۷۰:۱۷
اللہ تعالیٰ نے بیشک انسان کو بہت عزت بخشی۔اسے اشرف المخلوقات بنایا ،تمام
مخلوقات پر برتری عطافرمائی۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی سہولت کے لیے خشکی اور
تری میں بہترین اسباب مہیافرمائے۔جنّات،فرشتے،ہجر،شجر،جنت،
دوزخ،زمین،آسمان حتی کہ خانہ کعبہ سے بھی زیادہ فضیلت انسان کو حاصل ہے۔
کائنات کی تمام تخلیقات میں اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم ،پر رونق اور شاداب
تخلیق انسان ہے۔
اس کی ایک بہترین اور اعلیٰ مثال اللہ تعالی کی اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہوتی
ہے کہ جس میں اللہ تعالٰی روح پھونکنے سے متعلق حضرت آدم علیہ السلام کے
بارے میں کیا فرماتے ہیں۔
فا ذا سو یتہ و نفخت فيه من روحی فقعوا لہ ساجدین
ترجمۃ
تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے
لیے سجدے میں گر پڑنا۔
الحجر: 29
یہ اس روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تمام حیوانات سے بہت زیادہ عقل و
شعور،قوت ارادہ ،اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کے وقت فرشتوں کا تعارف اس طرح کروایا۔
فرمایا: و اذ ا قال ربك للملایکتہ انی جا عل في الارض خلیفہ
البقرہ 2: 30
ترجمہ
اور( وہ وقت یاد کریں ) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں
اپنا نائب بھیجنے والا ہوں۔
یعنی اللہ پاک نے انسان کے لیے خلیفہ کا لفظ استعمال فرمایا ،یعنی انسان کا
مقام و مرتبہ جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو
اپنا نائب بنایا ہے ۔اور کئی مقامات پر انسان کی امتیازی حیثیت تمام زی
حیات اور غیر ذی حیات میں سب سے افضل قرار عطا فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت احسن صورت میں تخلیق فرمایا
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے
وا لتین و الزیتون وطور سینین و ھذا ا لبلد الامین لقد خلقنا الانسان فی
احسن تقویم
ترجمہ
انجیر کی قسم اور زیتون کی قسم اور سینا کے پہاڑ طور کی قسم اور اس امن
والے شہر مکہ کی قسم ۔بیشک ہم نے انسان کو بہترین ( اعتدال اور توازن والی)
ساخت میں پیدافرمایا۔
التین 95: 1 تا 4)
انسان کے اندر اللہ پاک نے جو اپنی روح پھونکی ،اس کا باطنی طور پر اپنی
ذات سے نسبت کی طرف اشارہ فرمایا،لیکن باقی دیگر مخلوقات کے اندر جو روح ہے
اس کا ذکر اپنی ذات سے نسبت نہیں فرمایا
یہ تو تذکرہ تھا باطنی نسبت کا ۔
اب ظاہری نسبت کا ذکر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم یوں بیان فرماتے ہیں کہ
بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت میں پیدا فرمایا
( فتح الباری،حافظ ابن حجر 6: 366)
یہ نہیں کہا جا رہا کہ انسان کی صورت اللہ تعالیٰ جیسی یا اللہ تعالیٰ کی
صورت انسان جیسی ہے۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صورت انسانی بے مثال ہے،اس کی
کوئی مثال نہیں۔یعنی اللہ اور انسان کے درمیان کوئی نہ کوئی ظاہری نسبت
موجود ہے ۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تصور نے ایک ایسے معاشرے کے قیام کی
بنیاد فراہم کی جس میں انسانی حقوق کا احترام،
انسانی تہذیب و تمدن بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
اورہم انسانیت کی رہنمائی کے لئے ہمیشہ
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کےمحتاج رهیں گے۔
۱۔ بخاری ، الصحيح, ۳ : ۱۰۹۸ رقم:۵۲ ۲۷
۲. مسلم ، الصحيح،۳: ۱۳۶۴ ، رقم : ۱۷۴۴
حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ اپنی
کتاب نور الهدى میں فرماتے ہیں کہ
انسان آدم علیہ السلام ہیں، جوشخص حضرت آدم
علیہ السلام کے مرتبے پر پہنچ جاۓ وہ انسان ہے۔
اگر کوئی کہے کہ کیا اولا دآدم حضرت آدم
کے مرتبے تک پہنچنے کی قدرت رکھتی ہے تو
اس آیت کریمہ کے مطابق یہ عین ممکن ہے:
۔”اور ہم نے اولاد آدم کو بھی مکرم کیا ہے ۔‘‘
کتاب نور الهدى،ص 523
ڈاکٹر علامہ اقبال کے نزدیک انسان ہی سب سے اعلیٰ و ارفع مخلوق ہے اسی کی
وجہ سےکائنات وجود میں آئی۔ ہر شے کی حقیقت انسان ہے۔اس دنیا کو اور جو کچھ
اس میں ہے ،کو انسان کی خاطر پیدا فرمایا اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے
لیے۔
نہ تو زمین کے لیے ہے نہ آسمان کے لیے
جہاں تیرے لیے ہے تو نہیں جہاں کے لیے
انسان کی حقیقت اور مقام کے اس سربستہ راز کےسینہء کائنات سے افشاں ہونے پر
اقبال کہتے ہیں کہ
میں ہی تو ایک راز تھا سینہء کائنات میں
اقبال اپنی کتاب "بال جبریل" کی نظم " فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں "
میں فرشتوں کے اس رشک کا بہت حسین پیرائے میں ذکر کرتے ہوئے ان کی زبان میں
انسان سے مخاطب ہیں
سنا ہے خاک سے تیری نمود
ہے ،لیکن
تیری سرشت میں ہے کوکبی
و مہتابی!
جمال اگر اپنا خواب میں بھی
تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تری
شکر خوابی
" قلب مومن مراۃ الرحمٰن"
انسان کا دل رحمان کا آئینہ ہے۔
اور مومن وہ ہے جس میں صفت ایمانی پائی جائے اور اس کا قلب و باطن اللہ کے
حضور اس طرح جھک جائے کہ اسکے دل میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے متعلق کوئی ادنٰی درجے کا شک یا وہم بھی موجودنہ ہو۔کیوں کہ مومن
کا دل خدا کا عرش ہے۔ مومن کے دل میں خدارہتا ہے۔اس لیے کسی بھی انسان کا
دل دکھانے یا اس کی تذلیل کسی بھی بنیاد پر کرنا گناہ کبیرہ کے زمرے میں
آتا ہے۔لہٰذا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اور حضرت آدم
علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناطے ہمیں ایک دوسرے کی عزت کو مقدم رکھتے
ہوئے ایک دوسرے سے پیار محبت اور عاجزی سے پیش آنا چاہئے۔
|