رياضى زيادہ پڑھنے سے دماغ خشک ہوجاتا ہے... کيا واقعى رياضى اتنى مشکل ہے؟

image
 
عمومی طور پر رياضى خشک مضمون سمجھا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی پسندیدگی کی شرح کم ہے- حیرت انگیز طور پر اس میں بڑی تعداد ان طلبا کی ہے جو ریاضی کو سمجھنے کے باوجود، پرچہ حل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں- سوال حل نہ ہونے کا خوف ریاضی میں عدم دلچسپی کی بنیادی وجہ ہے-
 
جس طرح قبض بیماریوں کی ماں ہے، اسی طرح علم ریاضی ام الاسائنس کہلاتا ہے- گویا ریاضی کے بغیر نہ تو سائنس کا وجود ممکن ہے، نہ ہی بنیادی سائنس کی تکمیل ہو سکتی ہے- یہ ریاضی کے قوانین طبعیات، حیاتیات، کیمیا جیسے جدید اور عصری علوم میں استعمال کیا جاتا ہے- دنیا میں ہر شعبہ ہی ریاضی کا محتاج نظر آتا ہے- عام زندگی میں اس کا بہت دخل ہے- زراعت، انجینئرنگ گویا ہر شعبے میں کسى نہ کسى طرح ریاضی کا عمل دخل ہے-
 
دنیا بھر میں اس کی ضرورت و اہميت کے پیش نظر علم ریاضی کو خاص مقام حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاضی کی الگ جامعات قائم کی گئی ہیں- ریاضی کے لئے نصاب سازى اور ماہرین تعلیم کی تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے اور اس کے لیے خاص بجٹ بھی مختص ہے ليکن پاکستان میں علم ریاضی کى صورتحال بالکل مختلف اور اُلٹ ہے- نظام، نصاب اور مُعلم زبوں حالی کا شکار ہيں- کہیں نصاب بہتر ہے تو علم بانٹنے والے انصاف نہیں کر پاتے-
 
image
 
خوش قسمتی سے ریاضی کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق اگر کوئی پڑھانے والا ميسر ہو جائے تو نہ نصاب اس سے ميل کھاتا ہے، نہ نظام اسے کہیں نہیں ٹکنے دیتا ہے- اداروں میں رياضى کے لیے سخت اور تيکھے مزاج کے حامل اساتذہ کا انتخاب المیہ اور اداروں کی ’سمجھ بوجھ‘ کا ثبوت ہے- حساب پڑھانے کے لیے پیشتر اداروں میں خاص طور پر تناؤ کا ماحول اپنايا جاتا ہے- نتیجتاً مضمون کو سمجھنے کے بجائے محض سوالات حل کرنے کا کلچر عام ہوگيا اور طلبا مکھی پہ مکھی مار مانند علم کے حصول کو ہی تعلیم سمجھ رہے ہیں-
 
 کہا جاتا ہے کہ اچھا استاد ہی اچھا معاشرہ ديتا ہے- افسوس يہاں نہ تو اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہیں اور نہ خود کو ترقی یافتہ ممالک کے تحت اب گریڈ کرنے پر رضامند نظر آتے ہیں- عموماً اساتذہ ریاضی کے بنیادی اصول سمجھانے کے بجائے خود بھی محض 'پڑھانے’ پر انحصار کرتے ہیں اور مشقيں کروا کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں- مُعلم کے لیے تعلیم دینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ خود اس کی ضرورت، اہمیت اور منطق کو نہ سمجھے- پڑھانے والا مضمون کو جس نوعیت سے لیتا اور پڑھاتا ہے، اُسی اعتبار سے طلبا میں مضمون کو لينے کی اہلیت بن جاتی ہے- سوالات کو رٹے رٹائے انداز سے کروانا طلبا میں محدودیت کا سبب بن رہا ہے، سوال کو حل کرنے اور کھوجنے کی صلاحیت سے محروم ہو رہے ہیں اور مختلف پہلوؤں سے سوچنے کے اہليت نشونما نہیں ہو پاتی- نتیجتاً حساب غير دلچسپ اور مشکل مضمون لگنے لگتا ہے- مضمون کا خوف خون میں سرایت کرجاتا ہے اور وہ مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کھو بيٹھتے ہیں، عدم خود اعتمادى کا شکار ہوکر جستجو کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے- ایسے بہت سے طلبا نکمے کا ٹيگ لگائے مایوسی کے بادلوں میں گٍھرے نظر آتے ہیں-
 
اسی سلسلے میں جامعہ کی طالبہ اپنا تجربہ بیان کرتى ہيں کہ گیارہویں جماعت میں نمبرز کم آئے تو نکمی کی چھاپ لگ گئی، پڑھائی خاص طور پر ریاضی مجھے اپنے بس کا روگ نہ لگتی- کتاب کھولتے ہى ڈپريشن طارى ہوجاتا اور آئندہ رياضى نہ پڑھنے کا پختہ ارادہ باندھ ليا تھا“ - گفتگو جوڑتے ہوئے مزید بتاتی ہیں کہ خوش قسمتی سے آخرکار مجھے ایسی استاد کا ساتھ ميسر آگيا، جنہوں نے میری تمام گُتھيوں کو سُلجھانا شروع کيا اور آہستہ آہستہ مجھے حساب کے بنیادی اُصول اور قوانین سمجھانا شروع کيے پھر ایسے محسوس ہوتا کہ ریاضی کے ہندسے اور علامتیں مجھ سے باتیں کر رہی ہیں اور کچھ کہہ رہی ہیں تو دلچسپی بڑھنے لگی- مسئلے کو حل کرنے کی مہارت بنتی چلى گئی جس سے خود اعتمادی کا گراف اونچا ہوتا گیا اور مجموعی طور پر دیگر مضامین بھی پڑھنے کا دل چاہتا“ - آخر میں مسکراتے ہوئے بتايا کہ “آج ، ریاضی دان بننے کى ميرى منزل نزديک ہے " -
 
image
 
حساب طلبا کى شخصيت سازى میں کُليدى جُز ہے- ماہر نفسیات بھی تائیدی رائے دیتے ہیں کہ ریاضی کا مضمون دیگر نصابی کتب کے مقابلے میں طلبا کی ذہنی صلاحيت میں انتہائی مثبت اور تیز کام کرتا ہے، ايسے طلبا زندگى میں پيش آنے والے چيلنجز کا سامنا اور مسائل کا بہتر حل کرنے کے حامل ہوتے ہیں-
 
 ہمارے معاشرے کا ایک اور المیہ علم ریاضی کو بطور 'پيچيدہ ٹيٻو' پیش کرنا بھی ہے- علمِ ریاضی کے متعلق غلط تصورات رائج کر دیے گئے - جہاں والدین پریشان دکھائی دیتے ہیں، وہيں بچوں کو زیادہ ریاضی پڑھنے سے ٹوکتے بھى ہیں کہ کہیں ایسا کرنے سے دماغ خشک نہ ہو جائے- والدین، اساتذہ اور بچے تکون کی مانند ہیں - ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریوں کو ازسرنو سمجھيں اور غلط مفروضات میں پڑنے کے بجائے تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کى کوشش کريں-
 
ماہرین تعلیم کی آراء کی روشنی میں نصاب کى جديد طريقہ ہائے تعليم کے تحت تشکیل اور اساتذہ کی نئے سرے سے تربیت وقت کى اہم ضرورت ہے تاکہ طلبا ریاضی بنیادی اصولوں کے مطابق سمجھ سکیں- ہندسوں، علامتوں کی سمجھ بوجھ ، بنیادی اصولوں کا مقصد، کلیے قانون کے استعمال جیسے رموز سے آشنا ہوں گے تو پھر عين ممکن ہے کہ ہمارے طلبا ریاضی کو پڑھنے کا مقصد اور روزمرہ زندگی سے جوڑنے کے قابل ہوسکيں-
YOU MAY ALSO LIKE: