یہاں کوئی مچھلی اڑنے پر مجبور نہیں ہوگی... عثمانیہ دور کے اسکولوں کی دیوار پر ایسا کیوں لکھا ہوتا تھا؟ دلچسپ حقائق

image
 
پاکستان میں پی ٹی وی پر دکھائی گئی مقبول سیریز ارطغرل ڈرامے کے زریعے سلطنت عثمانیہ کے ایک شاندار مسلم ماضی کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ عثمانی ترکوں نے ایک باضابطہ حکومت قائم کی اور عثمان اول کی قیادت میں اپنے علاقے کو وسعت دی۔ وہ کائی قبیلے کے رہنما اور عثمانی خاندان کے بانی تھے۔ یہ عثمان ارطغرل غازی کے تین بیٹوں میں سے ایک تھے اور ان کی والدہ کا نام حلیمہ خاتون تھا۔ کچھ دلچسپ معلومات ان کے تعلیمی نظام کے بارے میں شئیر کی جارہی ہے۔
 
عثمانی اسکولوں میں ہر بچے کی صلاحیتیں جانچ کی جاتی تھی اور ہر بچے کا مختلف کورس ہوتا تھا۔دیواروں پر گریفیٹی کے طور پر لکھا ہوا سکولوں کا مندرجہ ذیل نعرہ تھا جو کہ تعلیمی نظام کی عکاسی کرتا تھا۔
 
"یہاں کوئی مچھلی اڑنے پر مجبور نہیں ہوگی اور کسی پرندے کو تیرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا"۔
 
سلطنت عثمانیہ کا پہلا اسکول جو 620 سال تک رہا وہ صیبیان اسکول تھا۔ جس اسکول نے عثمانیوں کی ذہنیت کو تشکیل دیا وہ صبیان اسکول ہی تھا۔ صبیان اسکول فلسفے، پالیسی، مقاصد، مواد، طریقہ کار، تدریسی عملہ، انتظامیہ، تشخیص میں اپنی مثال آپ تھے، یہ عثمانی اسکول کی ایک منفرد قسم تھی۔اس میں قرآن کی تلاوت لازمی تھی۔ان اسکولوں میں مذہبی معاملات اوربنیادی ریاضی پر زور دیا جاتا تھا۔ ریاست کی بقا کے لیے اس کا کردار درج ذیل سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
 
image
 
٭تین سال کی عمر سے بچوں کو پرائمری سکولوں میں داخل کرایا جاتا تھا۔
٭ تعلیمی نظام مخلوط تھا۔
٭غریب خاندانوں اور بچوں دونوں کو خوراک اور کپڑے فراہم کیے گئے اور مالی امداد دی گئی۔جو معاشرے میں سماجی یکجہتی کے لیے تھی۔
٭نسلی اور مذہبی فرقوں اور گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو ایک مشترکہ معیاری تعلیم فراہم کی گئی۔
٭دوسری قوموں کی تاریخ پڑھائی جاتی تھی۔
٭عثمانی بچوں کی ذہانت کے مطابق ان کو تعلیم دی جاتی تھی۔
٭ہینڈ رائٹنگ، موسیقی، حفظ، سائنس اور مناسب پیشے پڑھائے جاتے تھے۔
٭پرائمری سکول میں بچہ اپنی بالغ زندگی کا کیرئیر منتخب کر سکتا تھا۔
٭ اسکول کا اسٹاف ماہر ین پر مشتمل تھا جو مختلف مذاہب، زبانوں کے بچوں پر غور کرنے کے قابل تھے۔
 
اسکول کے فارغ التحصیل افراد نے تعلیم یافتہ طبقے کے طور پر نمایاں خدمات انجام دیں اور ساتھ ہی سرکاری اور مذہبی خدمات میں بھی کوشاں رہے۔
 
image
 
آج کی دنیا میں پرائمری اسکول کی خصوصیات اور افعال عیش و آرام پر مبنی ہیں اور بہت سے وہ ممالک بھی ہیں جو ابھی تک اس طریقہ تعلیم تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ جن میں صف اول پر ہمارا تعلیمی نظام ہے۔
 
ہمارے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے ملک میں ایک ہی نصاب کی ضرورت ہے، یہ پہلا قدم ہے کیونکہ بنیادی معیاری تعلیم حاصل کرنا برابری کے ساتھ سب کا حق ہے۔ ہمارے ملک کے طلباء کے درمیان امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، کیمبرج بورڈ کا طالب علم دوسرے صوبائی بورڈز کے مقابلے میں بہت زیادہ صلاحیتوں کا حامل ہے یہاں تک کہ ہم اپنے طلباء کے ساتھ تعلیم کے معاملے میں امتیازی سلوک کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری ایک مخصوص برادری ملک پر حاوی ہے۔ ہمیں اپنی آبادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں موجود بھر پور صلاحیتوں والے افراد کو ان کی صحیح ڈائریکشن میں رہنمائی کرنی ہوگی، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتےہوں۔ تاکہ وہ آگے جا کر ملک و قوم کے لئے فعال ثابت ہوں۔
YOU MAY ALSO LIKE: