سونا یعنی دولت روپیہ پیسہ نہیں ۔ بلکہ لوگ بنا سکتے ہیں
۔ قوم کو بڑا اور طاقتور وہ لوگ جو سچائی اور حرمت کی خاطر ثابت قدم رہتے
ہیں اور عرصہ دراز تک مصیبتیں اٹھاتے ہیں ۔ بہادر لوگ وہ ہیں جو کام میں
لگے رہتے ہیں جبکہ دوسرے سوئے رہتے ہیں ۔ بہادر لوگ جرات کرتے ہیں جبکہ
دوسرے میدان سے بھاگ نکلتے ہیں ۔ وہ بہادر لوگ قوم کو سہارا دینے والے ستون
گہرے تعمیر کرتے ہیں اور قوم کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیتے ہیں ۔ انہی
عظیم لوگوں کو کچھ لوگ اس قدر تکلیفوں میں مبتلا کرتے ہیں کہ آنے والی ان
کے نسلیں بھی ان کے اچھے کاموں سے توبہ کرتیں ہیں ۔ ہمارے مسلم سائنسدانوں
نے جو کچھ کرشمات کیے ۔ پھر ان کا جو حشر مسلمانوں کے ہی ہاتھوں جو رونما
ہوا اس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ انسانوں کا یہ بے درد جنگل کتنا
وسیع ہے ۔ جہاں پر ہر کوئی اپنی ڈگر پر رواں دواں ہے ۔ ہر کوئی اپنی من
مانی کر رہا ہے ۔ یہ ایک ایسا جنگل ہے ۔ جہاں پر ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو
وحشی درندوں کا کام کرتے ہیں ۔ کبھی کسی کی خواہش تما یا آرزو کا احترام
نہیں کرتے ۔ نہ جانے ایسے لوگوں کو کسی کی معصوم دِل کو ٹھیس پہنچا کر کیا
ملتا ہے ؟ میرے خیال میں ایسا کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ کہ ایسا ان کے
ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔ ان کی خواہشات کو بھی کچلا جا سکتا ہے ۔ ان کے
کارناموں کو بھی کچلا جا سکتا ہے ۔ جس طرح وہ دوسروں کی خواہشات و زندگی کو
بے دردی سے روند دیتے ہیں ۔ جب یورپ میں سر درد کو بدروحوں کا چمٹنا کہا
جاتا تھا اور ان بدروحوں کو نکالنے کے لئے چرچ لے جا کر سر میں کیلیں
ٹھونکیں جاتی تھی تو اس وقت مسلمان عراق میں بیٹھے جدید کیمسٹری اور ادویات
کی ترقی کی بنیاد رکھ رہے تھے ۔ جہاں ابن سینا "القانون فی الطب" کو تحریر
کررہا تھا ۔ جسے آگے جاکر ایک ہزار سال بعد اکیسویں صدی میں بھی پڑھا جانا
تھا ۔ وہیں جابر بن حیان وہ کتاب لکھ رہا تھا ۔ جسے اگلے سات سو سال تک
کیمسٹری کی بائیبل کا خطاب ملنا تھا ۔ وہ اس وقت ایسا تیزاب (Salphuric
acid) بنا رہا تھا ۔ جس کی پیداوار کسی ملک کی صنعتی ترقی کی عکاسی کہلانی
تھی ۔ وہیں مسلمان سیاح دنیا گھوم رہے تھے ۔ مسلمان ماہر فلکیات
(Astrologist) اپنا حصہ ڈال رہے تھے ۔ کبھی اسپین کو صاف ترین شہر بنا رہے
تھے ۔ تو کبھی بغداد کو علم کا گہوارا بنا رہے تھے ۔ تو کہیں نئے علاقے فتح
ہورہے تھے ۔ اس ترقی کی وجہ ان کا اپنے نصاب یعنی قرآن و حدیث کی پیروی
کرنا اور دینی علوم کو تمام علوم پر ترجیح دینا تھا اور تمام تر ہنر مندوں
کو اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کیلئے استعمال کرنا تھا ۔ پھر وقت بدل گیا
اور ہم نے اپنے نصاب قرانِ پاک کو چھوڑ کر ان علوم کی پیروی شروع کردی ۔ جن
میں نہ ہماری دنیوی ترقی تھی نا آخرت کی کامیابی اور ہم اس حیرانگی کا شکار
ہیں کہ " تبدیلی آ کیوں نہیں رہی ؟" کیسے آئے زندگیوں میں تبدیلی ۔ جب ہم
نے دین اسلام اور قرآن پاک کی تعلیم کو محض ثواب کی خاطر پڑھنا شروع کیا ۔
یہ نہیں سمجھا کہ قرآن کہتا کیا ہے ؟ بتلاتا کیا ہے ؟ سمجھاتا کیا ہے ؟ بس
ہم نے محض ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم نے قرآن پاک کو لے کر رکھ لیا ۔ اسکو
سجھنا پسند ہی نہیں کیا ۔مسلم سائنس دانوں کا جو حشرمسلمانوں کے ہاتھوں ہوا
وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم
سائنس دان تھے۔ ان میں سے چار سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔
یعقوب الکندیفلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی ، کیمیا اور فلکیات کا ماہر
تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو ملا کو خوش کرنے کی
خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے
مارے گئے ۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اور تماش بین عوام
قہقہہ لگاتے تھے ۔ابن رشدیورپ کی نشا ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے
اندلس کے مشہور عالم ابن رشد کو بے دین قرار دے کر اس کی کتابیں نذرآتش کر
دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اور
نمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور
گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔ابن سیناجدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی
گمراہی کا مرتکب اور مرتد قرار دیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے
اور وہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک
مشرق اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی ۔ یعنی القانون فی الطب، حالت
روپوشی میں لکھی ۔زکریاالرازیعظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب
زکریا الرازی کو جھوٹا، ملحد اور کافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا
کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں
پھٹ جاتی یا رازی کا سر ۔ اس طرح بار بار کتابیں سر پہ مارے جانے کی وجہ سے
رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔یہ سب کچھ
مسلمانوں نے ہی اپنے ہی شہرہ آفاق مسلمانوں کے ساتھ کیا کسی غیر کی کیا
مجال ؟ لمحہ فکریہ نہیں ۔ افسوس کا مقام ہے ۔ منقول
|