#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ حٰمٓ السجدة ، اٰیت 47
تا 54 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الیه
یرد علم
الساعةوما
تخرج من ثمرات
من اکمامھا وما تخرج
من انثٰی ولا تضع الا بعلمهٖ
ویوم ینادیھم این شرکاءی قالوا
اٰذنٰک ما منا شھید 47 وضل عنھم ما
کانوا یدعون من قبل وظنوا مالھم من محیص
48 لایسئم الانسان من دعاء الخیر و ان مسه الشر
فیئوس قنوط 49 ولئن اذقنٰه رحمة منا من بعد ضراء
مسته لیقولن ھٰذالی وما اظن الساعة قائمة ولئن رجعت الٰی
ربی ان لی عندهٗ للحسنٰی فلننبئن الذین کفروا بما عملوا ولنذیقنھم
من عذاب غلیظ 50 واذا انعمنا علی الانسان اعرض وناٰبجانبهٖ واذا مسه
الشر فذو دعاء عریض 51 قل ارءیتم ان کان من عند اللہ ثم کفرتم بهٖ من اضل
ممن ھو فی شقاق بعید 52 سنریھم اٰیٰتنا فی الاٰفاق وفی انفسھم حتٰی یتبین
لھم
انه الحق اولم یکف بربک انهٗ علٰی کل شئی شھید 53 الٗا انھم فی مریة من
لقاء ربھم
الٓا انهٗ بکل شئی محیط 54
اے ہمارے رسُول ! قیامت کے آنے کا جو علم انسان کے خیال میں آتا ہے تو وہ
علم اُسی اللہ کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جو زمین کے اُن سارے پھلوں کے عملِ
ارتقاء کو جانتا ہے جو اُس کے عملِ تدریج کے ساتھ اپنے شگوفوں سے باہر آتے
ہیں اور اُسی اللہ کو علم ہوتا ہے کہ کون سی مادہ کس نر کے حمل سے کس لَمحے
میں حاملہ ہوئی ہے اور کون سی حاملہ نے اُس نر کے اُس حمل کو اپنے جسم سے
جُدا کردیا ہے اور وہی اللہ جانتا ہے کہ زمان و مکان کے کس دورانئے میں
قیامت کی وہ ساعت آجاۓ گی جب اہلِ شرک سے اللہ پُوچھے گا کہ کہو کہاں ہیں
تُمہارے بناۓ ہوۓ میرے وہ شریکِ اقتدار جن کو اِس دن سے پہلے تُم پُوجا اور
پُکارا کرتے تھے جس پر وہ مُشرک لوگ کہیں گے کہ ہم تو پہلے ہی اقرار کر چکے
ہیں کہ آج ہم مجرموں کے پاس اُن کے بارے میں بتانے کے لیۓ کُچھ بھی نہیں
کیونکہ ہمارے وہ سارے پُوجیۓ ہم سے گُم ہو چکے ہیں جن کو ہم اپنی حاجتوں کے
وقت پُکارتے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ اَب ہم پُوجا کرنے اور اُن پُوجا
کرانے والوں کے لیۓ بھاگنے اور چُھپنے کی کوئی بھی جگہ کہیں نہیں ہے ، یہ
وہ انسان ہے جو خیر طلبی پر آتا ہے تو ہر خوش حالی کے بعد ایک اور خوش حالی
کے لیۓ ہمیں پُکارتا چلا جاتا ہے اور اگر اِس خوش حالی کے دوران اِس پر
کوئی بدحالی آجاۓ تو وہ بالکُل ہی مایوس اور شکستہ پَر ہو کر رہ جاتا ہے
اور جب ہم اِس کو اِس یاس کے حال سے نکال کر آس کے حال میں لے آتے ہیں تو
کہتا ہے کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ قیامت کا برپا ہونا بھی محض ایک خیال ہے
تاہم اگر قیامت آبھی گئی تو اُس کے لیۓ وہاں بھی وہی مُسرت و خوش حالی ہو
گی جو مُسرت و خوش حالی اِس کو یہاں پر حاصل ہےحالانکہ یہ دن تو اِس مُنکر
انسان پر یہی حقیقت ظاہر کرنے کے لیۓ برپا کیا جاۓ گا کہ اُس کے اعمالِ خیر
و شر کیا ہیں اور اُن کی جزا و سزا کیا ہے اور اسی طرح اِس دُنیا میں
انسانی مزاج کا ایک اَحوال یہ بھی ہے کہ جب ہم اِس کو نعمت آشنا بنا دیتے
ہیں تو وہ ہم سے اپنا رُخ ہی پھر لیتا ہے اور جب اِس پر کوئی آفت آجاتی ہے
یہ طویل دورانیۓ کی دُعاؤں میں ڈُوب جاتا ہے اِس لیۓ آپ انسان کو اِس اَمر
سے آگاہ کردیں کہ تُم اپنی جس عقل سے زندگی کے دیگر معاملات پر غور و فکر
کرتے ہو اپنی اُسی عقل سے کبھی اِس بات پر بھی کُچھ غور کر لیا کرو کہ جو
قُرآن اللہ نے تُمہاری بَھلائی کے لیۓ نازل کیا ہے اگر تُم اِس کو چھوڑ کر
اِس سے دُور چلے گۓ تو پھر اُس دن تُمہارا کیا اَنجام ہو گا جس دن تُم تنہا
اپنے رب کے سامنے اپنے اعمالِ نیک و بد کی جواب دہی کے لیۓ پُہنچو گے تاہم
تُم آنے والے جس زمانے کی حقیقت کے بارے میں مُتجسس رہتے ہو ہم اُس زمانے
کی حقیقت کو تُمہاری جان اور تُمہارے جہان میں ظاہر کرتے رہیں گے یہاں تک
تُم دل کے یقین کے ساتھ جان لو گے کہ قُرآن ایک کتابِ برحق ہے اور اِس کا
وہ سارا علم بھی علمِ برحق ہے جس علم کو اللہ اپنی قُدرت سے تُمہاری جان و
جہان پر بتدریج ظاہر کر رہا ہے اور تُم میں سے جو لوگ اپنے رب کے سامنے پیش
ہونے کے بارے میں اپنے دل میں کوئی شک رکھتے ہیں تو اُن کو یہ بات کبھی بھی
فراموش نہیں کرنی چاہیۓ کہ اللہ کا یہ عالَمِ خلق اور اِس عالَمِ خلق کی ہر
ایک چیز اپنے ہر ایک زاویۓ کے ساتھ اللہ کی گرفت میں ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ہم اِس سُورت کے آغازِ کلام میں اِس سُورت کے موضوعِ کلام کے حوالے سے اِس
سُورت کا جو خلاصہِ کلام تحریر کر چکے ہیں اُس خلاصہِ کلام میں یہ بات بھی
تحریر کر چکے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالٰی اپنی اُلوہیت میں وحدهٗ لاشریک ہے
اسی طرح اُس کا رسُول بھی اپنی عبدیتِ کاملہ میں وحدهٗ لاشریک ہے اور اُس
پر نازل ہونے والی یہ تنزیل بھی انسانی ہدایت کے اعتبار سے اُس کی وحدہٗ
لاشریک تنزیل ہے اور اِس سُورت کے اُس افتتاحِ کلام کے بعد اَب اِس سُورت
کے اختتامِ کلام پر جو ارشاد فرمایا گیا ہے اُس ارشاد کا ماحصل یہ ہے کہ
اِس سُورت کے اِس آخری مضمون کا لفظی تعلق تو صرف اسی ایک سُورت کے ساتھ ہے
لیکن اِس سُورت کے اِس مضمون کا علمی تعلق قُرآنِ کریم کی ہر ایک سُورت کے
ہر ایک مضمون کے ساتھ ہے اور قُرآنِ کریم کے اِس ہمہ گیر مضمون کا تعلق
قُرآن کے اُس ہمہ گیر مضمون کے ساتھ ہے جس مضمون کا نام قیامت ہے اور جس
قیامت کا مُجمل ذکر اگرچہ قُرآنِ کریم کے 70 مقامات پر آیا ہے لیکن اِس کا
قدرے مُفصل ذکر سُورَہِ لُقمان کی اُن آخری دو اٰیات میں آیا ہے جہاں پر یہ
فرمایا گیا ہے کہ اِس زمین پر قیامت کے آنے کا علم صرف اللہ تعالٰی کے پاس
ہے ، اِس زمین پر بارش کے برسانے کا علم بھی صرف اللہ تعالٰی کے پاس میں ہے
، رحمِ مادر میں موجُود جنین کی ذات اور اُس کی بدلتی کیفیات کا علم بھی
صرف اللہ تعالٰی کے پاس ہے ، اِس زمین سے جانے والے دِن کے بعد اِس زمین پر
آنے والے دن کون سا انسان کیا کرے گا اِس کا علم بھی صرف اللہ تعالٰی کے
پاس ہے اور اِس بات کا علم بھی صرف اللہ تعالٰی کے پاس ہے کہ کون سا انسان
کَل کس زمین پر رہ کر جیۓ گا اور کون سا انسان کَل کس زمین پر جا کر مرے گا
، اُس سُورت کے اُس آخری مقام کے بعد اَب اِس سُورت کے اِس آخری مقام پر
بھی اُس سُورت کے اُس مُفصل مضمون کا ایک دُوسرے زاویۓ کے ساتھ اعادہِ ثانی
کیا گیا ہے لیکن قیامت کے اُس پہلے اور اِس دُوسرے مضمون کے باہمی فرق کو
جاننے سے پہلے یہ بات جان لیجئے کہ علم کا مَرکز اور علم کا مَخرج اللہ
تعالٰی کی ذات ہے اور اللہ تعالٰ کی ذات کی طرف سے اہلِ زمین کی طرف جو
علمِ ہدایت آتا رہا ہے وہ صرف اللہ تعالٰی کے انبیاء و رُسل کے مُعتبر
ذریعے سے آتا رہا ہے اور اُن انبیاء و رُسل کے ذریعے سے اتنا ہی علم آتا
رہا ہے جتنے علم کی جس وقت کے انسان کو جس وقت جتنی ضرورت رہی ہے ، اَنبیاۓ
کرام کے ذریعے اہلِ زمین کی ہدایت کے لیۓ آنے والے اِس علم کے اِس ذریعہِ
خاص کے بعد علم کا دُوسرا وہ عام ذریعہ علمِ فطرت ہے جو انسان کی فطرت میں
رکھا گیا ہے اور جس علمِ فطرت کو ہر انسان اپنے فطری تجسس کے ذریعے کھوجتا
رہتا ہے اور ہر انسان اپنے ظرف کے مطابق اُس علم کو حاصل بھی کرتا رہتا ہے
کیونکہ اِس علم کی اشتہا ہر انسان میں زندگی کی ابتدا سے زندگی کی انتہا
ہوتی ہے ، یعنی جب تک انسان زندہ رہتا ہے وہ اِس علم کو سیکھتا رہتا ہے اور
جب انسان مرجاتا ہے تو اُس پر اِس علم کا یہ دروزاہ تو بند ہو جاتا ہے لیکن
موت کے بعد ملنے والی نئی زندگی میں ایک نۓ علم کا ایک نیا دروازہ کھول دیا
جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور انسان کا یہ علم اُس لامحدُود مُدت
تک جاری رہتا ہے جس لامحدُود مُدت تک اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان کو یہ
علم دینا مطلوب ہوتا ہے اور انسانی علم کا تیسرا ذریعہ اَنفس و آفاق ہے جس
کا اٰیاتِ بالا میں ذکر کیا گیا ہے ، انسان کے علمِ اَنفس سے انسان کا وہ
علم مُراد ہے جو انسان کی فطرت کے مطابق انسان کے مَن کی دُنیا میں آتا
رہتا ہے اور انسان کی علمی و عقلی صلاحیت کے مطابق مَن سے مُتشکل ہو کر
آفاق میں ظاہر ہوتا رہتا ہے ، زمین پر ارتقاۓ اشیاء کا جو ہنگامہ سمندر سے
زمین اور زمین سے خلا و فضا تک پھیلا ہوا ہے اور مُسلسل پھیل رہا ہے وہ
فاطر و فطرت کے اُسی علمِ فطرت کا ایک کرشمہ ہے جو انسان کی جان سے نکل کر
جہان میں مُسلسل پھیل رہا ہے اور قیامت کے حوالے سے اٰیاتِ بالا میں انسان
کے اسی علمِ انفس و آفاق کا ذکر کیا گیا ہے جو زمان و مکان میں ہوا کی طرح
جاری رہتا ہے لیکن سُوۓ اتفاق یہ ہوا ہے کہ سُورَہِ لُقمان میں قیامت کا جو
ذکر آیا ہے اُس کو قُرآن کے روایتی شُرّاح نے اللہ تعالٰی کے اور انسان کے
درمیان علم کا یہ مقابلہ بنایا ہوا ہے کہ فلاں علم جس کو قُرآنِ کریم نے
اللہ تعالٰی کے ایک علمِ خاص کے طور پر مُتعارف کریا ہے وہ علم تو انسان نے
بھی حاصل کرلیا ہے تو پھر اِس علم میں اللہ تعالٰی کی وہ کون سی خصوصیت ہے
جس کا قُرآن نے دعوٰی کیا ہے اور جس کی قُرآن نے تعلیم دی ہے ، سب سے پہلی
گزارش یہ ہے کہ قُرآن نے جس علم کو اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ خاص کیا ہے
وہ قُرآن نے انسان کی علمی ضرورت کے مطابق خاص کیا ہے اُس علم کی عملی صورت
میں ظاہر ہونے کی اُس صورت کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے جس کو ہر انسان دیکھ
سکتا ہے ، جیسا کہ بارش برستی ہے تو ہر ایک انسان دیکھتا ہے کہ بارش برس
رہی ہے اور بارش برسنے والی ہوتی ہے تو ہر انسان اپنے تجربے اور مشاہدے سے
جانتا ہے کہ بارش برسنے والی ہے اور جو عورت حاملہ ہوتی ہے تو وہ بذاتِ خود
بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ اُس کے رحم میں کیا ہے ، اسی طرح انسانی علم و
تجربات کے دُوسرے علمی و عملی اور سائنسی تجربات کو بھی دیکھا اور سمجھاجا
سکتا ہے لیکن قُرآن میں جہاں جہاں پر اللہ تعالٰی کے اِن خاص علوم کو بیان
کیا گیا ہے وہاں پر ہر گز ہر گز یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ تعالٰی اپنے اِن
علوم سے عالَم کے جن اسرار و رموز کو جانتا ہے وہ اُن اسرار و رموز کو
انسان پر کبھی بھی ظاہر نہیں کرے گا ، قُرآنِ کریم کی موجُود اٰیات میں
قُرآن نے اسی نُکتے کو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اِن سرار و رموز کو
اب تک کیوں نہیں واضح کیا ہے اور اگر وہ انسان پر یہ علوم اور اِن علوم کے
یہ اسرار واضح کرے گا تو کب کرے گا اور کس طرح کرے گا ، اِس سوال کا جواب
پانے کے لیۓ اگر آپ اٰیاتِ بالا کے پہلے چار الفاظ { الیه یرد علم الساعة }
کا اہل روایت کے کسی بھی قُرآنی ترجمے میں لفظی ترجمہ دیکھیں گے تو وہ
ترجمہ یہ ہوگا کہ { قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے } سوال یہ
ہے کہ قیامت کا وہ علم اللہ تعالٰی کے علمِ بیکراں سے باہر کہاں ہوتا ہے
جہاں سے قیامت کا وہ علم اللہ تعالٰی کی طرف لوٹاجاتا ہے اور کیوں لوٹایا
جاتا ہے ، یہی وہ نُکتہِ ضرورت ہے جس کو قُرآن نے بیان کیا ہے اور اِس مقصد
کے لیۓ بیان کیا ہے کہ انسان جب بھی اپنے اِن فطری و فکری علوم کو کام میں
لاتے ہوۓ علم کے پُراسرار دائروں کے قریب پُہنچ جاتا ہے تو اُس کی کوشش سے
قیامت کے علم اور لالہ و گُل کی زرخیزی کے اُس علم کو اُس کے فہم سے دُور
کرکے اللہ تعالٰی کے مرکزِ علم و مَخرجِ علم کے قریب کردیا جاتا ہے کیونکہ
انسان کے محدُود علم کے مطابق تو حصولِ علم کا وہ وقت بروقت ہوتا ہے جس وقت
انسان اپنے علم و خیال کے مطابق علم کے اُس دائرے کے قریب پُہنچ جاتا ہے
لیکن اللہ تعالٰی کے علمِ لامحدُود کے مطابق انسان کا اُس وقت اُس دائرہِ
علم کے قریب جانا بہت ہی قبل اَز وقت ہوتا ہے اِس لیۓ انسان کو اُس چیز کے
حصول کا صحیح وقت آنے تک اُس چیز کے حصول سے روک دیا جاتا ہے ، اِس کلام کا
نتیجہِ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالٰی انسان پر اپنے جو علوم ظاہر کرتا ہے وہ
ایک تدریج کے ساتھ ظاہر کرتا ہے اور اُن علوم کے ظاہر کرنے کے مقررہ وقت پر
ظاہر کرتا ہے بالکُل اسی طرح جس طرح زمین کا ہر پھل ایک تدریج کے ساتھ پک
کر انسانی ہاتھوں میں اور رحمِ مادر سے ایک بچہ ایک تدریج کے ساتھ پَل کر
اور انسانی سانچے میں ڈھل کر ایک زندہ ہستی کے طور پر انسانی نگاہوں کے
سامنے آتا ہے !!
|