کہتے ہیں کہ نام شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے، حسینہ معین
کے معاملے میں یہ بات صد فیصد درست ثابت ہوتی ہے ۔ انکا لکھا ہوا ایک ایک
لفظ ڈرامے کی شکل میں اپنے حسن سے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیتا
تھا۔ کہانی اور مکالمات کی یہ ملکہ 20 نومبر 1941 کو کانپور میں پیدا ہوئ،
کراچی یونیورسٹی سے تاریخ میں ماسٹرز کیا اور درس و تدریس سے وابستہ
ہوگئیں۔ حسینہ معین کا ابتدائی حوالہ ریڈیو رہا لیکن وجہ شہرت پاکستان ٹیلی
ویژن پر انکے ڈرامے رہے جنکی ایک لمبی فہرست ہے جس میں شہزوری ،کرن کہانی
،انکل عرفی ،زیر زبر پیش،پرچھائیاں ،انکہئ ،تنہائیاں، بندش، دھوپ کنارے بے
مثال ہیں۔ جبکہ انہوں نے چند فلموں کے لئے بھی مکالمات تحریر کئے جن میں
نزدیکیاں اور حنا کو خاص سراہا گیا، ابتدا میں حنا کے لئیے انکا موڈ نہیں
بن رہا تھا لیکن پھر رشی کپور اور رندھیر کپور کی ذاتی درخواست پر حامی
بھری اور کمال کے مکالمات لکھ کر اس فلم کو کامیابی سے ہمکنار کروایا۔
انہوں نے طویل دورانیے کے بھی کئی ڈرامے تحریر کئے جس میں عید کے لئیے
خصوصی ڈرامے شامل ہیں، جبکہ کراچی کے گزشتہ خونیں حالات پر ایک ڈرامہ "چپ
دریا" تحریر کیا۔ اس ڈرامے نے ثابت کر دیا کہ حسینہ کے قلم سے ہر طرح کی
تحریر جنم لے سکتی ہے جیسے کہ "آہٹ" ایک معاشرتی اور حساس مسئلے پر لکھی
گئی ڈرامہ سیریل اور تان سین کی زندگی پر لکھا گیا ڈرامہ۔
جہاں حسینہ معین نے کنور آفتاب، محسن علی، شیریں خان، شہزاد خلیل،علی رضوی
ساحرہ کاظمی جیسے کہنہ مشق ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کیا، وہیں انکی ٹیم میں
شکیل، جمشید انصاری، راحت کاظمی ،ساحرہ کاظمی، جاوید شیخ، شہناز شیخ، مرینہ
خان، ساجد حسن، بدر خلیل اور ان جیسے کئی قد آور اداکار شامل رہئے۔ساحرہ
کاظمی واحد فنکارہ ہیں جنہوں نےبطور اداکارہ اور ہدایت کارہ انکے ساتھ کام
کیا۔کئ نامور خواتین اداکاروں کو متعارف کروانے یا انکے کیریئر کو دوام
بخشنے میں حسینہ معین کی کردار نگاری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مثلا" نیلوفر
علیم، روحی بانو، شہناز شیخ، مرینہ خان نادیہ خان اور نادیہ جمیل۔
فاطمہ ثریا بجیا اور حسینہ معین کے ڈرامے میں سب سے مضبوط یا مرکزی کردار
ڈرامے کی ہیروئین کا ہوتا تھا۔ بجیا کی ہیروئین مظلوم نظر آتی تھی جبکہ
حسینہ معین کی ہیروئین مضبوط اور دبنگ ہوتی تھی۔ ایک دفعہ انور مقصود نے
اپنے مخصوص انداز میں بجیا اور حسینہ معین کی ہیروئینوں کا تقابلی جائزہ
پیش کرتے ہوئے کہا "بجیا کی ہیروئین تیار ہونے کے بعد اپنا عطر ڈھونڈتی رہ
گئیں، جبکہ حسینہ کی ہیروئین اپنے والد کا آفٹر شیو لگاکر نکل بھی گئیں۔
بقول شعیب منصور
" حسینہ کی ہیروئین کتنی شیطان ہے
کہیں ہے شہناز شیخ،کہیں مرینہ خان ہے"
کچھ نقاد یہ بھی کہتے ہیں کہ حسینہ کی ہیروئین حقیقت سے دور ہوتی ہے، ایسی
لڑکیاں کہاں پائی جاتی ہیں۔ ارے بھائی ہر دوسرے گھر میں ہوتی ہیں انکو
چہچہانے کا موقع تو دو۔ اچھوتی کردار نگاری کے حوالے سے انکے کردار، روایتی
کرداروں مثلا" وڈیرہ، مولوی مظلوم عام آدمی یا گھریلو سازشی عورت سے قطعئ
مختلف ہوتے تھے لیکن اس طرح تو کچھ لوگوں کا یہ اعتراض صحیح ثابت ہو جاتا
ہےکہ حسینہ کے کردار حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔ ایسا قطعئ نہیں ہے انکے کردار
عام نظر آتے ہیں، کیا آپ کی کبھی انکل عرفی کے شہیر بھائی سے ملاقات نہیں
ہوئ۔ ان کہئ کے تیمور، زیر زبر پیش کی اکابوا، تنہائیاں کی زارا حسن کو
کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی ضرور دیکھا ہوگا ۔کچھ کردار مثلا" حسنات بھائی
یا قباچہ مزاح کے لئیے تخلیق کئیے گئے،یہ دوسری بات ہے کہ ان کرداروں
نےعوام کے ذہنوں میں اتنا گہرا تاثر چھوڑا کہ ان کو محاورے کی حیثیت حاصل
ہوگئی۔ بدر خلیل کا ان کہئ میں اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ امریکہ پلٹ خالا
کا کردار پھر انکا تنہائیاں میں آنی کا کردار خاص طور پر بولنے کا اسٹائل،
ایسا لگتا تھا کہ ہماری ایک باغ و بہار طبعیت کی مرحومہ خالا(مرحومہ لکھتے
ہوئے دل کٹ سا جاتا ہے) کو دیکھ کر لکھا گیا ہے۔ مضبوط اسکرپٹ ، متاثر کن
مکالمات اور شائستہ مزاح حسینہ معین کے ڈراموں کا خاصہ رہا ہے۔ وہ خود بھی
بڑی بذلہ سنج تھیں، ایک پروگرام میں معین اختر نے کہا کہ "آپ کے نام کے
ساتھ بھی معین لگا ہوا ہے" تو انھوں نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا " معین
میرے والد کا نام ہے اور وہ ایک شریف آدمی تھے" معین اختر جیسی حاضر جواب
شخصیت بھی انکے اس جواب سے لاجواب ہوگئ۔
حسینہ معین اپنے جونیئر فنکاروں کے لئیے حسینہ آپا تھیں ہی، پھروہ جگت آپا
ہو گئیں،اور آخر وقت تک حسینہ آپا رہیں۔ کچھ تو دیکھنے میں انکے ہم عمر بھی
انکو حسینہ آپا ہی کہا کرتے تھے۔ غالبا" یہ انکی قابلیت اور بلند شخصیت کی
وجہ سے شوبز میں انکا خاص احترام تھا۔ انکو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے
بھی نوازا گیا جسکے بارے انکے پرستاروں کو شکایت رہئ کہ یہ بہت دیر سے دیا
گیا۔ سرحد پار بھی انکے بہت پرستار تھے، انکے ڈرامے وہاں کی خواتین میں بہت
مقبول تھے۔ مشہور شخصیات میں دلیپ کمار اور رشی کپور بھی انکے پرستاروں میں
شامل تھے، دلیپ کمار نے بارہا انکے ڈرامے ان کہئ کی تعریف کی اور خصوصا"
سلیم ناصر کی اداکاری کو سراہا۔رشی کپور نے ان سے حنا کے مکالمات لکھوا کر
اپنے پرستار ہونے کا ثبوت دیا۔ ہمارا بھی ان سے جب بھی آمنا سامنا ہوا
ہمارے عقیدت بھرے سلام کا انھوں نے بڑے تپاک سےجواب دیا۔ وہ کراچی آرٹس
کونسل کی گورنننگ باڈی کی بھی ممبر رہیں جن سے انکی ہمہ جہت شخصیت اور
صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
نجی چینلز آنے کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن خاص طور پر ڈرامہ پس منظر میں
جاتا گیا اور ڈرامے کا انداز بھی تبدیل ہوگیا، لوگ ڈرامے کا پرانا سنہرا
دور یاد کرکے آہیں بھرا کرتے ہیں کہ کیا دور تھا جب ڈرامے کے اوقات میں
سڑکیں ویران ہوجایا کرتی تھی، لوگ تقریبات کے اوقات ڈرامے کے حساب سے مقرر
کیا کرتے تھے۔ نجانے کیا ایسا ہوا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے نامور ڈرامہ
نگار بشمول حسینہ معین اور امجد اسلام امجد نئے دور کے چینلز سے اتنا دل
برداشتہ ہوئے کہ انھوں نے اسکرین کے لئیے مکمل طور پر لکھنا بند کر دیا۔
چند سال پہلے ہم نے اپنے بچوں کو مشہور ڈرامہ سیریلز انکہئ اور وارث
دکھائیں تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ایسے ڈرامے کیوں
نہیں بنتے، انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ ساری اقساط ایک ساتھ دیکھ لیں۔ پی
ٹی وی کو چاہیے کہ حسینہ آپا کے پرانے ڈراموں کو مناسب تشہیر کے ساتھ
دوبارہ نشر کریں تاکہ نئی نسل انکے حسین کام سے آشنا ہو سکے۔ انکے انتقال
کے بعد سننے میں آیا کہ وہ اپنی سوانح عمری پر کام کررہئ تھیں، جو لوگ اس
پروجیکٹ میں انکے ساتھ تھے ان سے گزارش ہے کہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں
اور اگر یہ شائع ہونے کے قریب ہے تو اس کی تشہیر کی جائے تاکہ اس عظیم
شخصیت کے بارے میں لوگ زیادہ سے زیادہ جان سکیں اور نئے لکھنے والوں کو
تحریک کے ساتھ تربیت کا بھی موقع مل سکے ۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ حسینہ
آپا کی خواہش تھی کہ وہ اپنے ڈراموں کو ناول کی شکل میں شائع کرسکیں۔اگر
ایسا ہوجائے تو یہ انکے کام کو نہ صرف لمبے عرصے تک زندہ رکھنے کا باعث
ہوگا بلکہ اردو سے محبت کرنے والوں خصوصا" انکے چاہنے والوں پر احسان ہوگا۔
گزشتہ سال 26 مارچ کو یہ عظیم تخلیق کار اپنے تمام چاہنے والوں کو اداس
چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملی، اللہ تعالٰی ان کو جنت میں اعلی مقام
عطا فرمائے۔ ان کے انتقال پر پوری فنکار برادری میں سوگ کی فضا طاری ہوگئی،
خاص طور سے انکے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں میں۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد
شاہ نے انکے انتقال کو اپنا ذاتی نقصان قرار دیا، آرٹس کونسل میں "حسینہ
معین ہال" انکے نام سے موسوم ہے۔ |