|
|
ہمارے معاشرے کو مرد کا معاشرہ قرار دیا جاتا ہے اس میں
کچھ پیشےایسے ہیں جہاں پر مردوں کی اجارہ داری ہوتی ہے اور اس میں کسی عورت
کی موجودگی اور کام کرنا حیران کن ہی محسوس ہوتا ہے- |
|
مگر آچ کی عورت جہاں جہاز سے لے کر ٹرک تک چلا رہی ہے
اور ہر کاروبار زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں
مگر اس کے باوجود معاشرے میں آدھی رات کے وقت گاڑی میں نکل کر سبزی منڈی
میں کام کرنے والی عورت کے بارے میں کبھی کسی نے نہیں سوچا ہوگا- |
|
پینسٹھ سالہ کنیز فاطمہ کا شمار بھی ایسی عورتوں میں
ہوتا ہے جو کہ ایک ایسے پیشے سے وابستہ ہیں جس کے بارے میں آج سے قبل کسی
اور عورت نے کرنے کا کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا- |
|
تفصیلات کے مطابق اپنے شوہر کی موت کے بعد کنیز فاطمہ نے
اپنے بچوں کا سہارا بننے کے لیے پہلے سبزی بیچنا شروع کی جس کے بعد ایک
سوزوکی خرید کر منڈی سے سبزی لے کر آنے کا کام شروع کر دیا- |
|
|
|
کنیز فاطمہ رات تین بجے گھر سے نکلتی ہیں اور سبزی منڈی
جا کر وہاں سے سبزی اپنی گاڑی میں لوڈ کر کے اس کو ان سبزی فروش افراد تک
پہنچاتی ہیں- جہاں پر سے وہ دن چڑھنے تک سب کو پہنچا کر گھر پہنچتی ہیں- |
|
کنیز فاطمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم
دلوا رہی ہیں ان کا یہ ماننا تھا کہ اگر وہ تعلیم یافتہ ہوتیں تو آج سوزوکی
چلانے کے بجائے جہاز چلا رہی ہوتیں- مگر اپنے بچوں کی اس کمی کو پورا کرنے
کے لیے وہ ہر طرح کی محنت کرنے کے لیے تیار ہیں- |
|
اس شعبے میں کام کرنے کے حوالے سے ان کا ماننا ہے کہ آج
کی عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے اور جو کام مرد کرنے سے کتراتے
ہیں- آج کی عورت ان کاموں کو کرنے میں بھی کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ
نہیں کرتی ہیں- |
|
ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے
بہتر ہوتا ہے کہ عورت ہونے کے باوجود اپنی عزت نفس کا خیال رکھیں اور اپنے
زور بازؤ پر یقین رکھیں- کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا ہے آج کی عورت ہر ہر
شعبے میں مردوں کے برابر کام کر رہی ہیں اگر عورت خود مضبوط ہو تو معاشرہ
اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا ہے- |
|
|
|
کنیز فاطمہ جیسی عورتیں اس وقت معاشرے میں ایک مثال ہیں
ان کا مقابلہ بخوبی ان عورتوں سے کیا جا سکتا ہے جو کہ فائٹر جہاز کے پائلٹ
کے طور پر کام کر رہی ہیں کیوں کہ دونوں قسم کی عورتیں اپنی محنت اور لگن
سے اپنے اپنے شعبے میں ایک نئی مثال قائم کر رہی ہوتی ہیں- |