میرا ایک ساتھی بتاتا ہے کہ اس کے گاؤں میں ایک شخص نے
قبرستان سے متصل زمین خریدی۔ قبرستان کی جگہ کو شامل کر کے وہاں آٹا پیسے
والی چکی لگائی۔ پہلے دن ہی نیا پٹہ ٹوٹا اور اس شخص کا بازو ٹوٹ گیا۔
بزرگوں نے اس کو سمجھایا تو اس نے غصب شدہ چھوڑ کر چکی کو ذاتی جگہ منتقل
کیا۔ میرا ساتھی بتاتا ہے آج بھی اس کی چکی موجود ہے۔
راولپنڈی میں میری رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک قبرستان ہے۔ میرے
بچپن میں اس قبرستان میں ایک روح کے بھٹکنے کے قصے عام تھے۔ اس بد روح کا
چشم دید شاہد تو کوئی نہ تھا مگر ہر دسویں آدمی کے کسی جاننے والے کو یہ
روح ضرور نظر آتی تھی۔ یہ بدیسی روح کسی انگریز کی بتائی جاتی تھی۔ حلیہ اس
کا بڑا ڈراؤنا تھا۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس ٹائی پہنے اس انگریز کا مگر سر
کٹا ہوا تھا۔
پرانے قبرستانوں کو مسمار کر کے جب شاندار عمارتیں بن جاتی ہیں اور لوگ اس
میں بس جاتے ہیں۔ تو پھر معاشرتی اختلافات جنم لیتے ہیں۔کچھ گھرانے ایسے
بھی ہوتے ہیں۔ جن میں لڑائی جھگڑا روز کا معمول ہوتا ہے۔ اس معمول سے اکتا
کر جب گھر کا سیانا کسی باہر کے بابے سے مشورہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا
ہے۔ اس رہائش کے نیچے کبھی قبرستان تھا۔ اس قبرستان میں مدفون مردے کی کوئی
بے چین روح ہے جو اس گھر پر قابض ہو کر گھر کا سکون برباد کیے ہوئے ہے۔
اسلام آباد کا شہر میرے دیکھتے دیکھتے بسا۔ یہ علاقہ مختلف چھوٹے چھوٹے
گاوں کا مسکن تھا۔ آہستہ آہستہ گاوں مٹتے گئے اور شاندار سیکٹر تعمیر ہوتے
رہے۔ اسلام آباد کا ڈی چوک اپنی سیاسی گہما گہمی کے سبب معروف ہو چکا ہے۔
اور شہراہ دستور اہم ترین سڑک ہے اسی سڑک پر موجودایوان صدر سے چند قدم کے
فاصلے پر دو قبریں اب بھی موجود ہیں جو پرانے قبرستان کی یادگار ہیں۔ پنجاب
ہاوس کے قریب خیابان اقبال کے شروع میں برگد کا درخت جس پر چار سو سال
پرانا ہونے کا کتبہ موجود ہے کے سائے میں بھی ایک قبر موجود ہے۔ یہاں بھی
کسی زمانے میں قبرستان ہوا کرتا تھا۔
جب وزیر اعظم ہاوس کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس وقت بھی اس جگہ قبرستان
ہونے کا ذکر ہوا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شاندار وزیر اعظم ہاوس میں
اس کے مکمل ہونے کے پہلے دن سے لے کر آج تک کوئی ایک وزیر اعظم بھی سکون سے
نہ رہ سکا۔ کسی کو نکالا گیا تو کسی کو دھتکارا گیا۔ آپ کو یاد ہو گا وزیر
اعظم بننے سے پہلے عمراں خان نے اس جگہ نہ رہنے کا اعلان کیا تھا۔ اور
عمران خان اس عمارت میں منتقل نہیں ہوئے اور حفظ ما تقدم کے طور پر بنی
گالہ ہی میں مقیم رہے۔ اس کے باوجود ان کے اقتدار پر سیاہ بادل منڈلانا
شروع ہو گئے ہیں۔
اس عمارت کے سابقہ تمام مکینوں کو (قربانی) کا مشورہ دیا جاتا رہا۔ سیاسی
لوگوں میں شیخ رشید نے ہمیشہ قربانی کا ذکر کیا۔ سابقہ وزیر اعظم کو اونٹوں
کا خون بہانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ عمراں خان کئی بار (بکروں) کی قربانی
کر چکے ہیں۔ اب نوبت خون کوجلانے تک پہنچ چکی ہے۔ مگر بات بنتی نظر نہیں
آرہی۔ ہمارے وزیر مذہبی امور اپنے علاقے کی معروف روحانی شخصیت ہیں۔ کیا ہی
اچھا ہو ان کی سرپرستی میں یہ عمل وزیر اعظم ہاوس سے باہر کرنے کی بجائے
وزیر اعظم ہاوس میں بھی کر ڈالا جائے۔ حفظ ما تقدم کے طور پر یہ عمل فیض
آباد میں بھی کر ڈالا جائے تو کم از کم لاہور کی طرف سے آنے والی سیاسی
نحوست کا خاتمہ تو ہو۔۔۔ |