بشریٰ رحمن کی ملی وادبی خدمات

(سیدعلی بخاری،ڈپٹی ڈائریکٹر ہمدرد فاؤنڈیشن پنجاب)
شہید حکیم محمد سعید کی منہ بولی بیٹی اسپیکر شوریٰ ہمدرد لاہور مصنفہ ،ادیبہ ،شاعرہ ،افسانہ نگار محترمہ بشریٰ رحمنٰ رخصت ہوئیں ،29 اگست 1944؁ء کو بہاولپور میں پیدا ہوئیں. جامعہ پنجاب سے ایم -اے صحافت کی سند حاصل کی۔ان کے والد حکیم عبدالرشید شہر کی مصروف و معتبر شخصیت تھے ،ان کی والدہ نصرت رشید بھی شاعرہ تھیں. نعتیہ مجموعہ بھی شائع ہوا. بہن نزہت سابق میئر لاہور میاں شجاع الرحمٰن کی اہلیہ تھیں.انہوں نے بشریٰ رشید کے نام سے لکھنا شروع کیا. ایک طویل عرصہ تک دہلی کے ہر شمارے میں بشریٰ رحمنٰ کی کہانی لازم و ملزوم ہوتی تھی ۔میاں عبدالرحمن سے شادی کے بعد وہ بشریٰ رحمنٰ ہوگئیں. میاں صاحب بھی شگفتہ لکھاری رہے. انہوں نے خدمت انسانیت کیلئے چولستان میں پانی کی تلاش کا کام بھی کیا. بشریٰ رحمنٰ نے سترہ ناول لکھے جن میں خوبصورت، پارسا، پیاسی شرمیلی، اﷲ میاں جی، لگن، بت شکن، کس موڑ پہ ملے ہو اور لازوال شامل ہیں. ان کے سفر ناموں میں ٹک ٹک دیدم اورٹوکیو قابل ِ ذکر ہے۔ کچھ ناول ٹی وی پر ڈراماٹائز بھی ہوئے. "چادر چاردیواری اور چاندنی" کے نام سے کالم بھی لکھتی رہیں ،بشریٰ رحمنٰ نے وطن دوست کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا تھا. اس کے تحت اسی نام سے رسالہ بھی نکالتی رہیں.پی ٹی وی اور پرائیویٹ پروڈکشن کے لئے کئی ڈرامے بھی لکھے، ان کے ناول اور افسانے خواتین میں بہت مقبول تھے ۔انہوں نے اپنا سیاسی سفر 1983؁ء میں شروع کیا، 1985؁ء اور 1988؁ء میں رکن پنجاب اسمبلی بنیں،صوبائی اسمبلی میں خوب بولتی تھیں. انہیں بلبل پنجاب کہا جاتا رہا.مسلم لیگ (ق)کے دورِ حکومت میں آپ خصوصی نشست پر ممبر قومی اسمبلی رہیں اور گاہے گاہے قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی کے فرائض بھی سر انجام دیئے ۔2007؁ء میں انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔کسی بھی محفل جاتیں تو اپنی خداداد صلاحیت کے بل بوتے اور موقع کے لحاظ سے برجستہ گفتگو کرکے محفل لوٹ لیتیں تقریب کا موضوع کتنا ہی ہولناک کیوں نہ ہو وہ اپنی گفتگو میں نئی امید کی کرنوں کو روشن کرتیں اور مستقبل کے راستے دیکھادیتیں ،افسوس آج ہم ایک باکمال ایک نفیس محب وطن پاکستانی سے محروم ہوگئے۔گذشتہ دنوں ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام لاہور کے مقامی ہوٹل فلیٹیز میں’دُختر پاکستان مرحومہ بشریٰ رحمن کی ملی و ادبی خدمات‘کو خراج عقیدت پیش کیے جانے کے حوالے سے ’’تعزیتی یفرنس ‘‘کا انعقاد کیا گیا۔
قائم مقام اسپیکر شوریٰ ہمدردمحترمہ جسٹس (ر)ناصرہ اقبال نے صدارت فرمائی جبکہ ڈپٹی اسپیکر محترم قیوم نظامی،ڈپٹی اسپیکر محترم عمر ظہیر میر،محترم احمد اویس، محترم مجیب الرحمن شامی،محترم احمر بلال صوفی،محترم عمر میاں،محترم حسن میاں ، برگیڈیئر(ر)حامد سعید اختر،مولانا راغب نعیمی،محترمہ خالدہ جمیل چوہدری،محترم ارشد محمود،محترمہ سلمی اعوان،ڈاکٹر کنول فیروز،محترم کاشف ادیب جاویدانی،محترم ثمر جمیل خان،محترم عامر رضوی،محترمہ کنول نسیم،محترم پروفیسر خالد محمودعطاء،محترم مہناز رفیع،پروفیسر ایم اے صدیقی،محترمہ فاطمہ قمر،پروفیسر ڈاکٹر پروین اے خان،محترم عامر بلال صوفی،محترم رضوان نصیر،محترم ایم اے شکوری،پروفیسر وقار ملک،جناب ایم آر شاہد،ڈاکٹر اشرف چوہدری،محترم انوار قمر،راناامیر احمد خان،پروفیسر نصیر اے چوہدری،برگیڈیئر(ر)محمد سلیم،بیگم حسن میاں ودیگر شریک ہوئے ۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہواجسکی سعادت جناب قاری فاروق اکرم نے حاصل کی جبکہ رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گلہائے عقیدت حافظ مرغوب احمد ہمدانی نے نچھاور کیے،مرحومہ بشری رحمن کے ایصال ثواب کے لیے دعائیہ کلمات مولانا ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب نے ادا کیے اس موقع پر ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ دادا جان نے 1985؁ء میں مغلپورہ کے علاقے میں بچوں کے لیے ایک ادارہ جامعہ نعیمیہ کی بنیاد رکھی حضرت کی جناب غلام قادر صاحب اور جناب شجاع الرحمن صاحب کے ساتھ بھی قلبی تعلق رہاجو لاہور کے میئر رہے ہیں ۔جناب شجاع الرحمن نے اپنے گھر میں بچیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک ادارہ قائم فرمایا چنانچہ دادا جان ہمیشہ بچیوں کے پروگرام میں محترمہ بشریٰ رحمن کو انعامات کی تقسیم کے حوالے سے مدعو کیا کرتے تھے اور بچیاں اُن سے مل کر خوشی کا ٓاظہار کرتیں مرحومہ ہمارا اثاثہ وسرمایہ تھیں ،ہم اور ہمارے ادارے کی اس گھرانے سے گہری وابستگی ہے اور ہم آج مرحومہ کے وصال پر رنجیدہ بھی ہیں دعائیہ کلمات میں محترمہ کے ساتھ ساتھ مرحوم بیرسٹر راشد منیر کے درجات کی بلندی کیلئے بھی خصوصی دعا کی گئی،پروگرام کی ترتیب کے مطابق صدر ہمدر دفاؤنڈیشن پاکستان محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کا پیغام سنایا گیا جسمیں محترمہ کا کہنا تھا کہ بے حد ملنسار شگفتہ مزاج سلیقے سے گفتگو کرنے دل موہ لینے اور مشکل ترین حالات میں بھی امید کی شمع جلائے رکھنے والی پر عزم بہن بشریٰ رحمن کیا گئیں سب کو سوگوار کر گئیں نہ جانے کتنوں کے سر سے سائبان اٹھ گیا روشن مینار چھن گیا علمی ادبی سماجی اور سیاسی محفلیں بیرونق ہو گئی اور کتنے ہی ادارے ان کی سرپرستی تربیت اور مفید مشوروں سے محروم ہوگئے۔ایڈووکیٹ جنرل محترم احمد اویس نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ بشریٰ رحمن نہ صرف شوریٰ ہمدردبلکہ کہ ہر محفل کی جان ہوتی تھیں، ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی ،ان کے جانے سے کبھی نہ پُر ہونے والا خلاء پیدا ہو گیا وہ اس دُنیائے فانی سے چلی تو گئیں مگر محبت ، عقیدت و انسیت کا رشتہ انکے کا ساتھ ہمیشہ قائم رہے گا ،آج بھی ان کی آوازیہاں گونجتی سنائی دے رہی ہے ، وہ بڑے سے بڑے مسئلے کا حل مثبت انداز میں نکال لیتی تھیں ،ہمیں ان کے اہداف اور خواہشات جو معاشرتی اور معاشی سطح پر اصلاحات کی صورت میں لانا چاہتی تھیں کو عبور کرنا ہوگایہی اُنکی روح کی تسکین ہے،محترمہ خالدہ جمیل چوہدری نے کہا کہ وہ میری دکھ درد کی ساتھی تھیں وہ ایک سایہ دار درخت کی مانند تھیں ان سے جڑی یادیں مسلسل ذہنوں میں سمائی ہوئی ہیں اور وہ ایک نہ بھولنے والے سلسلے کی طرح ہمارے دلوں میں موجود ہیں،ان کا حافظہ اور ذہانت اﷲ کی جناب سے خصوصی عطاء تھی عالم اسلام کی عظیم بیٹی اپنی جگہ ایک ایسا تصور نقش کر گئی جو کبھی نہ مٹ پائے گا۔برگیڈیئر (ر)حامد سعید اختر کا کہنا تھا کہ ان کے قارئین ان کی تحریروں کی وجہ سے بھی یاد رکھتے تھے اور اُنکی بے بہا خوبیوں میں ایک خوبی اُنکی مہمان نوازی بھی تھی ،ان میں تنقید برائے اصلاح کا مزاج تھاجونہایت مثبت تھا ،وہ ہمیشہ تکرار سے بچتی رہیں ۔محترم راشد محمود نے کہا کہ ان کی اپنی زمین سے جڑی ہوئی وابستگی ،اپنی ثقافت ،اقدار ، روایات ،مذہب ،سیاسی نظریات اور سب سے بڑھ کر پاکستان سے ان کی ذات منسلک تھی اور مجھے اعزاز ہے کہ میں نے اُنکے تحریر کردہ ڈراموں میں کردار ادا کیا۔محترم قیوم نظامی نے کہا کہ مرحومہ بہت عمدہ افسانہ نگار تھیں،اُنکی زندگی کے کئی پہلو پھولوں کے گلدستے کی مانند تھے ،پانچ سال صوبائی اسمبلی اور پانچ سال قومی اسمبلی کی ممبر رہیں ، اسمبلیوں میں بھی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار رہیں، صوفیانہ مزاج تھا اور یہ مزاج اُنہیں اپنے والد حکیم عبدالرشید بہاولپوری سے ورثہ میں ملا جنہوں نے الکلیات الرسولﷺ کے نام سے ایک کتاب کی تحریر فرمائی ،جس کا دیباچہ شہید حکیم محمد سعید نے لکھا ، محترمہ نے اس کی دوبارہ اشاعت ’’دربار رسول ﷺکے فیصلے ‘‘کے عنوان سے کچھ عرصہ قبل کروائی،وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھیں ،خواتین کے حقوق کے لئے کوشاں رہیں ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ عورت کو آزادی تو مل گئی لیکن عزت نہیں ملی ۔محترمہ سلمہ اعوان نے کہا کہ میرے ان کے ساتھ کئی بیرونی سفر بھی ہو چکے ہیں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی معروف و مقبول تھیں مجھے بہت دکھ ہواکہ اتنی بڑی شخصیت کی رحلت پر کسی بھی میڈیا نے اُنکی خدمات کے اعتراف میں کوئی خصوصی اشاعت یا پروگرام منعقد نہیں کرایا ۔
میں ذاتی طور پر ہمدردفاؤنڈیشن پاکستان کی مشکور ہوں کہ انہوں نے بشریٰ رحمان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اتنی خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا ۔محترم کاشف ادیب نے کہا کہ محترمہ میرے لیے ایک ماں کا درجہ رکھتی تھیں،ہمیشہ رہنمائی فرماتیں ،ماں جیسا پیار کیا ،شوریٰ ہمدرد کا ممبر بنایا اور ہمیشہ والد محترم کی خدمات کو سراہا۔محترمہ کے برخوردار جناب عمر میاں نے کہا کہ وہ کمال ماں تھی اور باکمال دوست ،میں پیدا ہوا تو ماں کو دیکھا اور بڑا ہوا تو اُنکی شکل میں ایک دوست کو پایا ،آج میں نے اپنے دوست کو بظاہر کھو دیا لیکن وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی۔وہ عاشق رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم تھیں یہی وجہ ہے کہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا تذکرہ اُنکی زبان سے ہم اکثر سناکرتے تھے ۔حسن میاں کہنا تھا کہ والدہ میں ایک اور کمال یہ تھا کہ وہ مشکل سے مشکل لمحات کو بھی آسانیوں میں بدل دیتی تھیں،ریفرنس میں شریک مرحومہ کے دوسرے برخوردار محترم حسن میاں نے اس موقع پر کہا کہ امی کا ہمدرد فاونڈیشن پاکستان اور حکیم صاحب ومحترمہ سعدیہ راشد کے ساتھ بہت گہرا تعلق اور رشتہ تھا جو ان کے آخری سانس تک قائم رہا۔محترم عامر رضوی نے کہا کہ میں نے مرحومہ کی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے اور میں نے محسوس کیا کہ وہ کسی خاص طبقے کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی لکھاری تھیں۔ محترمہ کنول نسیم نے کہا کہ وہ معاشرے کی اصلاح کیلئے مصروف عمل رہیں وہ اسلامی اصولوں کے مطابق عورت کا مقام دیکھنا چاہتی تھیں اور انکی تحریریں اسکا منہ ببولتا ثبوت ہیں وہ ہمارے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔پروفیسر خالد محمود عطاء نے کہا کہ مرحومہ کے لہجے میں کمال کا جذبہ ،تازگی اور محبت تھی ،اﷲ ان کے درجات بلند فرمائے ۔محترمہ مہناز رفیع نے کہا کہ جہاں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات ہوتی وہاں سب سے پہلے پہنچتیں اور اُنکے کمالات میں ایک یہ بھی کمال کہ وہ خوبصورت انداز میں نعتیں پڑھا کرتی تھیں۔میری دیرینہ ساتھی تھیں ،اﷲ ان سے راضی ہو۔پروفیسر ایم اے صدیقی نے کہا کہ خالی ہاتھ جانا بظاہر منفی پہلو دکھائی دیتا ہے لیکن میرے نزدیک مثبت پہلو یہ تھا کہ وہ سب کچھ اپنے معاشرے اور اپنی اولاد کو اپنی تحریروں اور زندگی گذارنے کی شکل میں دے کر خالی ہاتھ اﷲ کے حضور پیش ہو گئیں ۔محترم عمر ظہیر میر نے کہا کہ محترمہ بشریٰ رحمن کی تحریروں اُنکے خیالات میں استقامت کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا پہلو بے حد نمایاں نظر آتا رہا ۔محترم مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ بشریٰ رحمن کے تعزیتی ریفرنس میں مدعو کیا جاؤں گا ۔ایسے لوگ جب گفتگو کرتے ہیں تو موتیوں کی مالا بن جاتی ہے وہ ہمیشہ مسکراتی رہتی میری بہن بہت بڑی شاعرہ ،ادیبہ اورصحافی کے ساتھ ساتھ روحانیت کے بے پناہ کمالات پر مبنی شخصیت کی مالک تھیں ،کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا ،دل جوڑ تی تھیں،ان کے شوہر بھی اسی طرح کے اوصاف کے انسان تھے ،انہوں نے مزید کہا کہ حکیم صاحب کے داماد اور سعدیہ بہن کے شوہر بیرسٹر راشد منیر احمد کی وفات جو ایک ہی روز ہوئی جبکہ تدفین کا وقت بھی ایک ہی تھا ،یہ ایک دن میں دو صدموں میں ہم سعدیہ بہن کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔محترمہ فاطمہ قمر نے کہا کہ قومی زبان کے رائج اور اس حوالے سے وہ کوشاں رہیں جب عمرے سے واپس آئیں تو کہنے لگیں کہ وہاں جب اردو ترجمہ دیکھتی تو تمہاری یاد آ جاتی۔پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے کہا کہ آج ہم ایک مخلص اور محب الوطن پاکستانی سے محروم ہو گئے اُنہوں نے اپنے گھر کا نام ہی وطن دوست رکھا ہوا تھا ،کہتی تھیں کہ واہگہ بارڈر پر جب یہ لکھا دیکھا کہ عارضی دیوار ہے تو میں نے اپنے دوپٹے سے اُس تحریر کو صاف کیا اور لکھا یہ پکی دیوار ہے ۔صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے محترمہ جسٹس (ر)ناصر ہ اقبال نے کہاکہ میری بشریٰ رحمن سے بہت پرانی اور گہری دوستی تھی جب جامعہ پنجاب میں شعبہ صحافت کی بنیاد رکھی گئی تو پہلے ہم دو تھیں جنہو ں نے شعبہ صحافت داخلہ لیا اور وہ ایم اے کر گئیں جبکہ میری اُس دوران شادی ہوگئی ،انہو ں نے کہا کہ بشریٰ وطن دوست کے ساتھ ساتھ انسان دوست تھیں ،وہ ساری عمر نونہالوں ،نوجوانوں کی راہنمائی کرتی رہیں ،شوریٰ ہمدرد سے انہیں ابتداء سے ہی گہری وابستگی رہی حتی کہ کوڈ 19کے دنوں میں بھی اجلاس قواعدوضوابط کے مطابق اپنے گھر کے باغیچے میں کرنا شروع کر دیئے ۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بشریٰ کا پیغام عام کرنے کیلئے مختلف تنظیمیں اور خاص طور پر میڈیا بشریٰ رحمن کی خدمات کے اعتراف میں پروگرامز ترتیب دیں۔

 

Haji Muhammad Latif Khokhar
About the Author: Haji Muhammad Latif Khokhar Read More Articles by Haji Muhammad Latif Khokhar: 141 Articles with 97808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.