صفدر علی حیدری۔۔۔۔خطہ ہزار داستان اُوچ شریف کابہترین ادیب


تحریرو ملاقات: ذوالفقار علی بخاری

صفدر علی حیدری کا تعلق اُوچ شریف سے ہے۔بہاول پور سے جنوب مغرب کی طرف 73کلومیٹر کے فاصلے پر قائم یہ شہر بہت سے حوالوں سے ہمیشہ تذکروں میں رہا ہے۔اس شہر کے نام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب اس علاقے پر راجہ دیو سنگھ کی حکومت تھی تو حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری نے یہ شہر اس سے حاصل کر لیا اور راجہ دیو سنگھ وہاں سے بھاگ نکلا۔ راجہ دیو سنگھ کی خوبرو لڑکی اوچاں رانی نے اسلام قبول کر لیا تو حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری نے اس علاقے کا نام اس خاتون سے منسوب کرتے ہوئے اوچ رکھ دیا۔ حضرت صفی الدین گاذرونی، حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت، حضرت صدر الدین راجن قتال، حضرت فضل الدین لاڈلہ، حضرت جمال الدین خنداں رو، حضرت کبیر الدین حسن دریا، حضرت غوث بندگی اور حضرت بہاء الحلیم جیسی عظیم ہستیاں اسی خطہ ہزار داستان اُوچ شریف میں آسودہ خاک ہیں۔




صفدر علی حیدری اپنے منفرد اسلوب، سادگی اورکھری باتوں کی وجہ سے اپنے حلقہ احباب میں مقبولیت رکھتے ہیں۔صفدر علی حیدری کی پانچ کتب منظر عام پر آ چکی ہیں۔ان میں شہر خواب،مٹھی میں کائنات،دستک،گھڑی کی ٹک ٹک،ناقابل اشاعت شائع ہوچکی ہیں جب کہ ان کی مزید پانچ کتب زیر طبع ہیں۔ ان سے قارئین ہفت روزہ مارگلہ نیوز انٹرنیشنل کے لئے ایک ملاقات رکھی گئی جس کا احوال آپ کی نذر ہے۔




آپ کا قلم سے رشتہ کب اور کیسے جڑا ہے، اب تک کتنا اورکن رسائل وجرائد میں لکھ چکے ہیں؟
صفدر علی حیدری: اکثر ادیب یہی جواب دیتے ہیں کہ میں نے بچپن سے لکھنا شروع کیا۔ اتفاق سے میرا جواب بھی یہی ہے۔ غالبا میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا جب میں نے ایک سرخ رنگ کی پاکٹ ڈائری خریدی۔ اس کے پہلے صفحے پر میں نے لکھا کہ اس ڈائری میں میں اپنے شعر لکھا کروں گا۔میں نے کوئی چھبیس شعر لکھے۔ ایک دو تو مجھے آج بھی یاد ہیں۔ایک شعر پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ یہ میں نے لکھا ہے اور وہ بھی اتنی کم عمری میں
اس دل کی حسرت رہ جائے دل میں
جب پہنچے گا بندہ تیرے سامنے
خیر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ پھر دوران تعلیم چھٹی یا ساتویں میں میں نے بچوں کی کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ خبریں کے چلڈرن ورلڈ کا خاص طور پر ذکر کروں گا جس میں پہلی بار چھپا اور پھر چھپتا چلا گیا۔ نوائے وقت کے پھول اور کلیاں اور پاکستان کے بچوں کے میگزین میں بھی خوب لکھا۔2003 میں اخبارات کی نامہ نگاری اور کالم نگاری شروع کر دی۔ نامہ نگاری تو خیر ایک ہی سال چل پائی مگر کالم نگاری جاری رہی۔پھر درمیان میں گیپ آیا لیکن 2013 سے میرے ادبی سفر کا پھر سے آغاز ہوا اور بھرپور طریقے سے ہوا جو اب تک جاری ہے، الحمدللہ.




آپ کو کہاں تک تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملا ہے؟
صفدر علی حیدری: ایم اردو, بی ایڈ۔ میرا شعبہ تعلیم کا ہے۔ ایک پرائیویٹ ادارے میں جاب کرتا ہوں۔ میں نے سرکاری استاد بننے کی کوشش نہیں کی حالانکہ کوشش کرتا تو باآسانی نوکری مل جاتی۔




والدین اور دیگراحباب نے ادبی میدان میں آگے بڑھنے میں کتنا حوصلہ بڑھایا ہے؟
صفدر علی حیدری:میرے والد صاحب سردار کاظم علی حیدری ایک ممتاز علمی ادبی سماجی مذہبی شخصیت تھے انھوں نے میری کالم نگاری کو بہت پسند کیا۔ وہ البتہ مجھے آسان لکھنے کا درس دیتے تھے۔ امی جان اور دادی اماں نے بھی خوب حوصلہ بڑھایا۔ بھائی بھی حوصلہ افزائی میں پیچھے نہیں رہے۔ اصل میں میرا خاندان ادبی مذہبی سیاسی اور سماجی پس منظر کا حامل ہے میرے دادا سردار کریم بخش حیدری قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور دوست تھے۔ وہ ایک بے مثال خطیب بھی تھے۔ میرا نانا سردار الہی بخش دردی ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ سو میں کہہ سکتا ہوں کہ میرا ایک ادبی گھرانے سے تعلق ہے۔ گویا ادب میرے جین میں ہے۔




”جنوبی پنجاب کے ادیبوں کا استحصال ہو رہا ہے“ کیا آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں؟
صفدر علی حیدری: جی بالکل ایسا ہی ہے۔ آپ سرائیکی شاعری میں مزاحمتی رنگ دیکھتے ہیں تو یہ ان محرومیوں کا ردعمل ہے جو اس خطے کے امن پسند لوگوں کا مقدر بنا دی گئی ہیں یہاں کے ادباء و شعراء کو آگے نہیں آنے دیا جاتا حالانکہ ٹیلنٹ کے لحاظ سے اس خطے کے لوگوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اس خطے کے شعراء و ادباء نے پوری دنیا میں اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔اگر میں ان لوگوں کا نام لینا شروع کروں تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔




ادب کے فروغ میں کیا ادیبوں کی گروہ بندی کوئی رکاوٹ پیدا کر رہی ہے؟
صفدر علی حیدری:جی بالکل ایسا ہی ہے۔ گروہ بندی جس بھی شعبے میں ہو استحصال کا سبب بنتی ہے،بد قسمتی سے ادب بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔آج ہی میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ فلاں مقابلے میں کتابیں بھیجوں تو انھوں نے کہا مت بھیجیں۔ وہ تین بار بھیج چکے مگر ایک بار بھی انعام نہ لے سکے حالانکہ وہ صدارتی ایوارڈ یافتہ لکھاری ہیں۔ان کا ایک جرم یہ بھی ہے کہ ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔




ایک اچھے ادیب کی تعریف کن الفاظ میں کرنا چاہیں گے؟
صفدر علی حیدری:ایک اچھا ادیب بے باک ہو گا،اس کا قلم بکاؤ مال نہیں ہو گا وہ اپنے قلم کو معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کرے گا۔وہ اپنے فن سے بے انتہا مخلص ہو گااگر اس میں یہ چار خوبیاں نہیں تو وہ سب کچھ ہو سکتا ہے سوائے ادیب ہونے کے۔




آپ کے خیال میں کس طرح سے بچوں کو کتب بینی کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے؟
صفدر علی حیدری:اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو جنوں بھوتوں پریوں اور پرستان کی کہانیوں سے دور رکھا جائے۔یہ بات ہمیں مان لینی چاہیے کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔بچوں کو سائنس کے ساتھ سماجی موضوعات پر۔ ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر مبنی تحاریر پڑھنے کو دی جائیں۔ والدین ان کی کتب بینی پر زور دیں۔سیل فون کی بجائے ان کو پڑھنے کی طرف راغب کریں،انھیں کتاب سے پڑھ کر یا ویسے ہی کہانیاں سنائیں،ان کے ساتھ وقت گزاریں۔سیل فون سے خود بھی کچھ وقت کے لیے دور رہیں اور ان کو بھی دور رکھیں،اسکولوں میں لائبریری کا پھر سے احیاء کریں۔ بچوں کو ان کی سالگرہ پر کتابوں کا تحفہ دیں۔




ادبی دنیا میں خوشگوار اوربْرے تجربات نے آپ کو کس قدر متاثر کیا ہے؟
صفدر علی حیدری:ادبی دنیا میں ہر دو تجربات ہوئے،قارئین نے محبت دی مگر مدیران کا رویہ بہت عجیب سا رہا۔میں سمجھتا ہوں کہ آج کا مدیر مر چکا ہے۔یہ اگرچہ ایک سخت رائے ہے مگر حقیقت یہی ہے،بہت کم مدیروں کو میں نے اپنے منصب کا اہل پایا،اکثر کو میں نے لکھاریوں کی حوصلہ شکنی کرتا دیکھا۔مجھے لگتا ہے کہ وہ نئے لکھاریوں کو لکھنے کی سزا دیتے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ لکھنے والے چھپنے کا انتظار کیے بنا بس لکھتے چلے جائیں۔




نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی آپ کے نزدیک کیوں ضروری ہے؟
صفدر علی حیدری:اگر ان کی حوصلہ افزائی نہ ہوئی تو وہ لکھنا چھوڑ دیں گے،جلد مایوس ہو جانے والے ہوتے ہیں۔ان میں سیکھنے کا جذبہ تو ہے لیکن برداشت کی کمی ہے،انھیں اپنے سینئرز کی عزت کرنا ہوگی۔باقی آج کا مدیر تو یہ طے کر چکا ہے کہ اس کے نئے لوگوں کی ہر ممکن حوصلہ شکنی ہی کرنی ہے۔سو میرا مشورہ ہے وہ لکھتے چلے جائیں۔کچھ رسائل ابھی ایسے ہیں جو ان کو مناسب پلیٹ فارم مہیا کر رہے ہیں۔ الحمدللہ۔




کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج کے لکھاری موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق موضوعات کاانتخاب کر رہے ہیں؟
صفدر علی حیدری:اس کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نا ں میں بھی،بہت اچھا کام بھی ہو رہا ہے اور عامیانہ بھی۔ایک چیز کا میں ذکر کرنا چاہوں گا آج کل دھڑا دھڑ ناول لکھے جا رہے ہیں جن کا معیار خاصا ناقص ہے۔لوگوں نے اس صنف کا جتنا آسان لے رکھا ہے یہ اتنی ہی دشوار ہے۔




سستی کتب کی اشاعت کے حوالے سے آپ ناشران کو کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟
صفدر علی حیدری:میں خود بھی ایک پبلشر ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ آج کے ناشر اپنے کام سے انصاف نہیں کر رہے وہ کمائی کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔اپنے پلے سے کچھ لگانے کو تیار نہیں اور تو اور ان پبلشرز کا رویہ بھی مایوس کن ہے جو خود بھی ادیب ہیں۔معیار گر گیا ہے،ناشران مسودے پڑھتے تک نہیں،ایک ادارے نے ساٹھ ستر نئے ادیبوں کو پھنسایا اور یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ انھوں نے بھی لکھاریوں سے ہی ان کے مسودے کی پروف ریڈنگ کروائی۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ رویہ کتاب کی زندگی کو مختصر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔




رسائل و جرائد کے فروغ کے لئے آپ کن اقدامات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں؟
صفدر علی حیدری:تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔اس سلسلہ میں ہر دو کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ قارئین ان رسائل کے سالانہ خریدار بنیں۔ تبصرے لکھیں۔ لطیفہ، حاصل مطالعہ یا کٹ پیس وغیرہ کے لیے چھوٹی چھوٹی تحاریر لکھیں۔لکھاری حضرات معیاری تحاریر بھیج کر رسائل کو چار چاند لگائیں۔ان کو اعزازی شمارہ بھی دیا جائے اور معاوضہ بھی،رسالے کے مدیران اپنا معیار بنائیں اور صرف معیاری تحاریر کو رسالے میں جگہ دیں۔حکومت کو بھی ان رسائل کو اشتہارات دے کر ان کی معاونت کرنی چاہیے۔




نئے لکھاریوں کوکن موضوعات پر کام کرنے کی ضرورت ہے؟
صفدر علی حیدری:میرا یہ مشورہ سب کے لئے ہے کہ وہ موضوعات میں تنوع لائیں۔سب سے زیادہ موضوعات پر محنت کی ضرورت ہے۔روایتی کہانیوں جنوں بھوتوں پریوں اور ماورائی موضوعات کو اب چھوڑ دیں،جدید مسائل پر لکھیں۔کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک سینئر لکھاری نے اپنی کتاب کا ٹائٹل فیس بک پر شئیر کیا تو اس پر کسی دیو کی تصویر دیکھ کر میں نے سر پکڑ لیا۔میں نے اپنی بچوں کی پہلی کتاب ”گھڑی کی ٹک ٹک“میں ایک تجربہ کیا۔میں نے اس میں ایک بھی ماورائی کہانی شامل نہیں کی۔میرے قارئیں نے اسے بہت پسند کیا، الحمدللہ۔




آپ کی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جس نے آپ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہوں؟
صفدر علی حیدری:میں نے وہ واقعہ ”گھڑی کی ٹک ٹک“میں کہانی کی صورت میں درج کیا ہے۔بازگشت کے نام سے۔میں ایک بلی کے بچے کی موت پر کئی گھنٹے رویا جب بھائی گھر آیا اور اسے رونے کی وجہ معلوم ہوئی تو اس نے میرا خوب مذاق اڑایا۔اس واقعے نے مجھے بہت متاثر کیا۔میں جھینپ کر اور سہم کر رہ گیا۔میں نے بیان کرنے کی بجائے لکھنے کا راستہ اپنایا کہ یہ دنیا حساس لوگوں پر ہنستی ہے ان کا مذاق اڑاتی ہے سو بہتر ہے وہ خیالات ان کی بجائے اپنے پڑھنے والوں کو سنائے جائیں۔میں کہہ سکتا ہوں کہ اس ایک واقعے نے مجھے لکھاری بنا دیا۔




کیا آج کے لکھاری کو سوشل میڈیا کا استعمال فائدہ دے سکتا ہے؟
صفدر علی حیدری:جی ہاں دے سکتا ہے فائدہ اور اس نے دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا نے نوجوان کو ادب سے جوڑ دیا ہے ورنہ مدیران تو ان کا خون ہی کر چکے ہوتے۔یہاں ہر ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ لکھاری حضرات کو اپنی تحریر کی پروف ریڈنگ میں احتیاط کرنا ہو گی۔انھیں اپنے دماغ کو سنسر بورڈ بنانا ہو گا تاکہ معیاری ترین ادب تخلیق ہو سکے ورنہ پھر حالت ان ناولوں جیسی ہو گی کو دھڑا دھڑ اگلے جا رہے ہیں۔




کسی بھی لکھاری کو زندگی میں سراہنا کیوں ضروری ہے؟
صفدر علی حیدری:یہ انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ اچھا ادب تخلیق کر سکے اور یہ سراہنا تو ہر شعبے کی ترقی کا ضامن ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں اسے خوشامد سمجھ کر ترک کیا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں لوگوں کو سراہے جانے کی کتنی فکر ہے۔ سوشل میڈیا پر صرف لائکس کے لیے کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔یہی حسرت بتاتی ہے کہ ہم کتنا ترسے ہوئے لوگ ہیں۔




آپ کی نظر میں طبع زاد اورترجمہ نگار میں سے کون زیادہ اہمیت کا حامل ہے؟
صفدر علی حیدری:طبع زاد کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔میں تو ادیب ہی اسے مانتا ہوں جو خود لکھتا ہو باقی ترجمہ نگار وں کا بھی ایک مقام ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ یہ بھی دیکھے کہ کون سا مواد ترجمہ کر رہا ہے،آیا وہ مواد اس قابل بھی ہے،اس کی ہمارے معاشرے کو ضرورت بھی ہے۔میں بہر حال ترجمے سے زیادہ اس بات کے حق میں ہوں کہ تاریخی واقعات کو مختصر انداز میں اگلی نسلوں کو منتقل کیا جائے۔اس سلسلہ میں میرا نئے لکھاریوں کو یہ مشورہ ہو گا کہ وہ اپنے مطالعے کو اپنے لفظوں میں بیان کریں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ذاتی واقعات کو کہانیوں کی صورت میں ڈھالیں۔




کن نئے قلم کاروں کے کام کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
صفدر علی حیدری:بلال اسلم،مبین امجد،اسلم ہمشیرا،بنت قمر مفتی،انابیہ خان فوری طور پر یہی نام ذہن میں آ رہے ہیں،بہت سے دوست بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔میں ابھی تحریر کو سراہتا ہوں۔۔۔ یہ نہیں دیکھتا کہ کس نے لکھا ہے،یہ دیکھتا ہوں کہ کیا لکھا ہے۔




اپنے قارئین کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
صفدر علی حیدری:ادب سے جڑے رہیں،سیاست اور مذہب پر کبھی بحث نہ کریں،کتاب دوست بنیں،سوشل میڈیا سے ہٹ کر بھی دیکھیں،ایک دنیا اور بھی ہے جو ان کے آس پاس سانس لے رہی ہے۔
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 526174 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More