قُرآن کا قانُونِ عمل اور نتائجِ عمل

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالشُورٰی ، اٰیت 20 تا 23 !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
من
کان یرید
حرث الاٰخرة
نزدلهٗ فی حرثهٖ
ومن کان یرید حرث
الدنیا نؤتهٖ منہا ومالهٗ
فی الاٰخرة من نصیب 20
ام لھم شرکٰٓؤا شرعوالھم من
الدین مالم یاذن به اللہ ولو لاکلمة
الفصل لقضی بینہم وانالظٰلمین لفی
لھم عذاب الیم 21 تری الظٰلمین مشفقین
مما کسبوا وھوواقع بھم والذین اٰمنوا وعملوا
الصٰلحٰت فی روضٰت الجنٰت لھم ما یشاءون عند
ربھم ذٰلک ھوالفضل الکبیر 22 ذٰلک الذی یبشراللہ
عباده الذین اٰمنوا وعملواالصٰلحٰت قل لا اسئلکم علیه
من اجر الاالمودة فی القربٰی ومن یقترف حسنة نزدلهٗ
فیہا حسنا ان اللہ غفور شکور 23
اے ہمارے رسُول ! فاطرِ جہان کے اِس جہانِ عمل میں انسانی عمل کے لیۓ اُس کا فطری قانون یہ ہے کہ اُس کے اِس جہانِ عمل میں جو انسان اپنے آنے والے دن کے لیۓ اپنے جانے والے دن میں بیج بوتا ہے وہ اپنے آنے والے دن اُس کا پھل پاتا ہے اور جو انسان اپنے آنے والے دن کے لیۓ اپنے جانے والے دن میں بیج نہیں بوتا ہے وہ جانے والے دن کے بعد آنے والے دن میں خالی ہاتھ رہ جاتا ہے ، اِس کی وجہ یہ ہے کہ جو انسان خالق کی فطری قانون کے بجاۓ مخلوق کے غیر فطری قانون پر عمل پیرا ہو کر خالق کے بجاۓ مخلوق کو اپنا خالق بنالیتا ہے تو وہ انسان خالق کی زمین پر خالق کی مرضی کے خلاف مخلوق کا جو غیر فطری قانون چلاتا ہے اُس غیر فطری قانُون کی بنا پر وہ خالق کی زمین میں رُسوا ہو کر رہ جاتا ہے ، اگر اللہ نے انسان کے اِس عمل اور نتیجہِ عمل کے درمیان پہلے ہی رجوع الی الحق کے لیۓ ایک مُہلت نہ رکھی ہوئی ہوتی تو اِس سرکش انسانی نسل کو بہت پہلے ہی زمین سے مٹا دیا جاتا ، اَب تو آپ نے بذاتِ خود بھی دیکھ لیا ہے کہ زمین کے جو انسان امن و سلامتی چاہتے ہیں وہ اپنے آنے والے دن کے لیۓ اپنے جانے والے دن اپنی بہترین عملی صلاحیتوں کے ساتھ مُتحرک بالعمل ہوکر اور مُتحرک بالعمل رہ کر اپنے آنے والے ہر دن کو بہشتِ بریں بنالیتے ہیں اور جو انسان اِس قانون پر عمل نہیں کرتے تو وہ جیتے جی بھی ایک آتشِ جہنم میں رہتے رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ایک آتشِ جہنم میں جلنے کے لیۓ چلے جاتے ہیں اِس لیۓ آپ سارے اہلِ زمین کو بتا دیں کہ میں تُم سے اپنی حیات میں اپنی اِس تعلیمِ حیات کے بدلے میں حیات کے ایک رشتہِ اخوت اور ایک بے لوث تعلقِ خاطر سے زیادہ کُچھ بھی نہیں چاہتا اور تُم میں سے جو انسان بھی حُسن عمل اور حُسنِ تشکر کی اِس حسیں راہ پر چلے گا تو اللہ ضرور اُس کی خطا پوشی کرے گا جس کے نتیجے میں اُس پر آنے والا ہر ایک زمانہ ایک حسیں زمانہ ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسانی حیات کا سارا دار و مدار اُس آب و دانے پر ہوتا ہے جس آب و دانے کا سارا دار و مدار انسانی جُہدِ حیات کے اُس زمانے پر ہوتا ہے جس زمانے سے وہ انسان گزر رہا ہوتا ہے اور انسان جس زمانے سے گزر رہا ہوتا ہے اُس زمانے کی رفتار انسانی رفتار سے ہمیشہ ہی زیادہ اور انسانی رفتار اُس زمانے سے ہمیشہ ہی کم ہوتی ہے اِس لیۓ قُرآن نے انسان کی انسانی اور زمان کی زمانی رفتار کے اِس عدمِ توازن کو ایک عملِ متوازن بنانے کے لیۓ اٰیاتِ بالا میں انسان کو عملِ حیات کا جو قانُون دیا ہے اُس قانُون میں انسان کو یہ ہدایت دے دی ہے کہ انسان کی بہترین زندگی کے لیۓ انسان کا آج کے کام کو آج کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ انسان پر اپنے ہر ایک آنے والے دن کے لیۓ اپنے ہر ایک جانے والے دن میں وہ پشیگی کام بھی کرنا لازم ہوتا ہے جو پیشگی کام اُس کے وسائلِ حیات کو ہمیشگی دے سکے اور اُس کی ہمیشگی اِس خواہش کی تکمیل کے لیۓ انسان پر لازم ہے کہ وہ و قت کی اِس تیز رفتار کے ساتھ پُوری تیز رفتاری کے ساتھ چل کر وقت کے ہر ایک لمحے سے اپنے حصے کی وہ روزی حاصل کرے جو اُس کا انسانی حق ہے ، انسان نے اپنے جانے والے دن میں اپنے آنے والے دن کے لیۓ جو پیشگی محنت کرنی ہے اُس پیشگی محنت کے دن کو قُرآن نے { الاٰخرة } کا نام دیا ہے جس کا معنٰی پہلے کے بعد آنے والا دُوسرا دن ہوتا ہے اور یہ دُوسرا دن چونکہ زندگی کے ہر پہلے دن کے بعد ایک دُوسرے دن کی صورت میں ہمیشہ ہی آتا ہے اِس لیۓ اِس آنے اور جانے والے دن کے دائرے میں آنے اور جانے والا ایک دن ہی نہیں آتا بلکہ اِس دن کے دائرے میں جانے والے ایک پُورے زمانے کے بعد آنے والا وہ پُورا زمانہ آجاتا ہے جس پُورے زمانے میں دُنیا کے گزرنے والے زمانے کے بعد آنے والا وہ سارا زمانہ بھی آجاتا ہے جس کو قُرآن نے اُس { الاٰخرة } کے نام سے متعارف کرایا ہے جس { الاٰخرة } کا ایک ایک لَمحہِ عمل { الدنیا } کے ایک ایک لَمحہِ عمل سے ملا ہوا ہے ، قُرآنِ کریم نے ایام و ماہ کے اِس باہم ملے ہوۓ لَمحاتِ عمل کی اِس زمانی کیفیت کو سمجھانے کے لیۓ زمین کی اُس زراعت کی مثال دی ہے جس زراعت کو قُرآنِ کریم نے سُورَةُابقرة کی اٰیت 71 ، 205 ، 223 ، سُورَہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 14 ، 117 ، سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 136 اور 138 میں{ حرث } کے نام سے مُتعارف کرایا ہے ، قُرآنِ کریم کے اِس قانونِ زراعت کا مقصد محض زراعت کا وہ عمل سکھانا مراد نہیں ہے جس عمل کو انسان اپنے ہزاروں برس کے علم و تجربے کی بنا پر خود بھی جانتا ہے اور زراعت کے اِس شعبے میں بہتر پیداوار کے بہتر راستے بھی خود ہی دریافت کرتا رہتا ہے بلکہ قُرآنِ کریم کا ایک مقصد تو زراعت کے اِس عمل و نتائجِ عمل کے پہلے دن سے آخری دن تک کے باہمی اتصال سے انسان کو انسان کے وقتِ موجُود اور وقت موعُود کے اُس اتصال کی طرف متوجہ کرنا ہے جس میں پہلا لَمحہ انسان کے عمل کا ہے تو آخری لَمحہ اُس عمل کے نتیجہِ عمل کا ہے اور وسطی زمانہ اُس مُہلت کا زمانہ ہے جس مُہلت کے زمانے میں زراعت کار وہ محنت کاری کرتا ہے جو محنت کاری اُس زراعت کار کو اُس کے اُس عمل کے اُن نتائجِ عمل تک پُہنچادیتی ہے جو نتائجِ عمل اُس کو مطلوب ہوتے ہیں اور زراعت کی اسی مثال سے قُرآنِ کریم نے دُوسری یہ بات سمجھائی ہے کہ زندگی عمل و نتائجِ عمل کے اعتبار سے وہ مشقت طلب کام ہے جس کے کُچھ نتائج زمین دار کو اپنی اُس اللہ توکلّی کی کُچھ دیر بعد ہی حاصل ہوجاتے ہیں جو اللہ توکلّی وہ زمین میں بیج ڈال کر اختیار کرتا ہے اور اُس کے کُچھ اعلٰی اعمالِ حیات کے اعلٰی اثراتِ حیات اِس حیات کے بعد ملنے والی اُس حیات میں ظاہر ہوتے ہیں جو اِس حیات کے بعد اُس کو حاصل ہوتی ہے ، انسان کا یہ عمل چونکہ ایک صبر آزما عمل ہے اِس لیۓ اِس صبر آزما عمل کی تعمیل و تکمیل کے لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو وہ قانُونِ عمل دیا ہے جس قانُونِ عمل کے تحت انسان نے اپنی خوش حال زندگی کے خوش خیال خوابوں کو ایک عملی تعبیر دینے کے لیۓ اپنے جانے والے وقت میں اپنے آنے والے وقت کے لیۓ وہ محنت طلب کام کرنا ہوتا ہے جس محنت طلب کام کی اِس کتاب میں اُس کو وہ تعلیم دی گئی ہے جس کا مُنتہاۓ مقصود اللہ کی زمین پر اللہ کے اُن اَحکامِ نازلہ کا عملی نفاذ اور نفوذ ہے جو اَحکام اِس کتاب میں درج ہیں لیکن سُوۓ اتفاق یا سازشِ بالاتفاق دیکھیں کہ اللہ تعالٰی کے اِس عظیم الشان قانُون کو اِس اُمت کا جاہل مُلا اپنے لوٹے و استنجے ، اپنے بٹے و بٹوانی اور اپنے چلے و تسبیح خوانی سے جوڑ کر صدیوں سے اِس اُمت کو یہ جاہلانہ تعلیم دے رہا ہے کہ ایک مومن و مُسلم کا ایمانی و اسلامی فریضہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ مومن و مُسلم دن رات اپنے بدبُودار جامے کے ساتھ ایک بدبُودر حُجرے کے ایک بدبُودار مصلّے پر جَم کر سجدے پر سجدے کرے اور اِس ایک لایعنی و بے معنی عمل کے سوا زندگی بھر اور کُچھ بھی نہ کرے لیکن اِس کلام کی نتجہ خیز حقیقتوں میں سب سے پہلی زمینی حقیقت یہ ہے کہ عملِ حیات کی اِس عملی دُنیا میں جو انسان اپنی چڑھتی صبح میں اپنی ڈھلتی شام کے لیۓ کُچھ نہیں کرتا تو اُس کی وہ ڈھلتی شام اُس کے لیۓ ایک موت کا پیغام بن کر آتی ہے اور جو انسان اپنے آنے والے دن کے لیۓ اپنے جانے والے دن میں کُچھ نہیں کرتا تو اُس کا آنے والا دن اُس کے لیۓ ایک حسرتناک دن ہوتا ہے اور اسی طرح جو انسان اپنی آنے والی دُنیا کے لیۓ اپنی جانے والی دُنیا میں رہ کر کُچھ نہیں کرتا تو اُس کی آنے والی دُنیا بھی اُس کے لیۓ ایک عبرتناک دُنیا ہوتی ہے اور سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت میں اللہ تعالٰی نے اہلِ کفر و اہلِ شرک کے سامنے اہلِ کفر و شرک کے ساتھ رشتہِ اخوت قائم رکھنے کا اپنے نبی کی زبان سے جو اعلان کرایا ہے اُس اعلان میں اہلِ اسلام کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اہلِ اسلام کے ساتھ اہلِ کفر و شرک کا رویہ جیسا بھی مناسب یا غیر مناسب ہو اُن کے ساتھ انسانی مقاطعہ پھر بھی نہ کیا جاۓ کیونکہ انسان کا انسان کے ساتھ انسانی مقاطعہ انسان کے اُس قولِ خیر و عملِ خیر کو بھی منقطع کر دیتا ہے جس قولِ خیر و عملِ خیر کو کسی حال میں بھی منقطع نہیں ہونا اور منقطع نہیں رہنا چاہیۓ !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457821 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More