قوسِ دَرد اور خدنگِ خیال !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالشُورٰی ، اٰیت 24 تا 29 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ام
یقولون
افترٰی علی
اللہ کذبا فان
یشااللہ یختم علٰی
قلبک ویمح اللہ الباطل
و یحق الحق بکلمٰتهٖ انهٗ علیم
بذات الصدور 24 وھوالذی یقبل
التوبة عن عبادهٖ ویعفوا عن السیاٰت و
یعلم ماتفعلون 25 ویستجیب الذین اٰمنوا و
عملواالصٰلحٰت و یزیدھم من فضلهٖ انه والکٰفرون
لھم عذاب شدید 26 ولو بسط اللہ الرزق لعبادہٖ لبغوا
فی الارض ولٰکن ینزل بقدر مایشاء انهٗ بعبادهٖ خبیر بصیر
27 وھوالذی ینزل الغیث من بعد ماقنطوا وینشر رحمتهٗ وھو
الولی الحمید 28 ومن اٰیٰتهٖ خلق السمٰوٰت والارض ومابث فیھما
من دابة وھو علٰی جمعھم اذایشاء قدیر 29
اے ہمارے رسُول ! کیا یہ لوگ آپ کے انکارِ عہدہ و مال اور آپ کی طرف سے رشتہِ اخوت کے اظہارِ خیال کے بعد بھی آپ کی وحی کو آپ کی طرف سے اللہ پر عائد کیا گیا ایک جھوٹ قرار دے کر آپ کو رَنج و درد پُہنچا رہے ہیں حالانکہ اللہ چاہے تو آپ کے دل کو اِن کے پُہنچاۓ جانے والے اِس رَنج و درد کے لیۓ سر بمُہر کردے اور اِن کی زبان سے آپ کے دل تک پُہنچنے والے باطل خیالات کو بھی آپ کے دل سے محو کردے اور آپ کے دل کو صرف اپنی وحی کے لیۓ کُھلا رہنے دے لیکن انسانی خیالات پر کوئی قدغن لگانا اللہ کے عمومی قاعدے کے خلاف ہے اِس لیۓ آپ اِس رَنج و درد کو اِس لیۓ برداشت کریں کہ آپ کے دل کی کمان سے خیال کے جو تیر نکل کر اُن کے اعمال و خیال تک جارہے ہیں وہ اُن کی بُری تدبیر کو بدل سکتے ہیں اور اگر آپ کے خیالِ درد کے تیر اُن کی بُری تدبیر کو بدل دیں گے تو وہ حق کی طرف رجوع کریں گے اور اُن کے اِس رجوعِ حق کے بعد ہم اُن کی توبہ بھی قبول کرلیں گے کیونکہ ہم تو ہر انسان کے دل سے گزرنے والے خیال اور اُس سے سرزد ہونے والے سارے اعمال کو جانتے ہیں اور جو اہلِ ایمان اپنے رَنج و درد میں ہمیں پکارتے ہیں تو ہم اُن کی پکار کا برابر جواب دیتے ہیں اور جو اہلِ کفر ہماری قوتوں اور قدرتوں کا انکار کرتے ہیں تو ہم اُن کو بھی کبھی کبھی اپنی کوئی سخت سزا دے کر جھنجوڑتے رہتے ہیں جس سے وہ کبھی تو سنھبل کر حق کی طرف آجاتے ہیں اور کبھی اپنے کفر پر ہی جَمے رہ جاتے ہیں ، البتہ انسانی رزق کا معاملہ یہ ہے کہ جب ہم انسان کا رزق زیادہ کشادہ کر دیتے ہیں تو وہ زیادہ سرکش ہوجاتا ہے اِس لیۓ ہم انسان کو جو روزی دیتے ہیں وہ اپنے علم و بصیرت کے مطابق اور اُس کی ضرورت کے مطابق دیتے ہیں بالکل اسی طرح کہ جس طرح ہم زمین کے ہر تشنہ لب حصے پر اُس کی طلب کے مطابق بارش برساتے ہیں ، اگر اہلِ سوچ سوچیں تو اُن کو معلوم ہوگا کہ ہمارے اِس عالَم میں اللہ کی طرف سے انسانی رہنمائی کی بہت سی نشانیوں میں سے یہ بھی ایک نشانی ہی ہے کہ زمین و آسمان میں بہت سی جگہوں پر اُس نے اپنی جو جو جاندار مخلوق پھیلا رکھی وہ اپنی اُس ساری جاندار مخلوق کو ایک جگہ پر جمع کرنے کی بھی پُوری قدرت رکھتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے پہلے سوالیہ مُرکب جملوں کے بعد عُلماۓ روایت نے اپنی روایت کے مطابق اٰیاتِ بالا کا جو ترجمہ کیا ہے اور اُس ترجمے پر اپنی تاویلات کے جو تہہ دَر تہہ حاشیۓ چڑھاۓ ہیں اُن حاشیوں کی تفصیل میں تو ہم نہیں جاسکتے لیکن اُن کے اُن تراجم میں سے ایک مُنتخب بزرگ کا یہ مُنتخب ترجمہ پیش کیۓ دیتے ہیں کہ { اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر کردے ، وہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے فرمانوں سے حق کر کے دکھاتا ہے ، وہ سینوں کے چُھپے ہوۓ رازجانتا ہے ، وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور بُرائیوں سے در گزر کرتا ہے } اِس ترجمے پر بھی ہم کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے جس ترجمے میں باطل کو مٹانے ، توبہ کو قبول کرنے اور بُرائیوں سے در گزر وغیرہ کے سارے قرینے اُسی ذاتِ گرامی کی طرف جاتے ہیں جس ذاتِ گرامی کی ذات اور اُس پر نازل ہونے والی وحی کی کفار نے تکذیب کی تھی اور اُن کی اُس تکذیب کے بعد اُس تکذیب کی اِن بزرگوں نے جو تفصیل و ترجمانی پیش کی ہے وہ تفصیل و ترجمانی بذاتِ خود بھی اُس پہلی کافرانہ تکذیب کے بعد ایک دُوسری مومنانہ تکذیب ہے تاہم اٰیاتِ بالا کے حقیقی پس منظر کو سمجھنے کے لیۓ سب سے پہلے تو علمِ فلسفہ و علمِ نفسیات کا یہ اصول سمجھنا لازم ہے کہ انسانی فطرت کے عام قاعدے کے مطابق عام طور پر ہر مُثبت عمل کا ایک مُثبت رَدِ عمل اور ہر مَنفی عمل کا ایک مَنفی رَدِ عمل ہی ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی عمل اور رَدِ عمل کا یہ عمل اِس قاعدے کے خلاف بھی ہوجاتا ہے جس قاعدے کا ہم نے ذکر کیا ہے ، انسانی فطرت کے اِس قاعدے کو جاننے کے بعد ایک لَمحے کے لیۓ اِس حقیقت کو اپنی لوحِ خیال پر لے آئیے کہ قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ ماسبق میں پہلے اللہ تعالٰی کی توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے پر جو قُرآنی دلائل دیۓ گۓ تھے اُن قُرآنی دلائل کے بعد اُن ہی ماسبق اٰیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کی زبان سے اُن اہلِ شرک کو اللہ کے رسُول کے ساتھ اُن کا وہ قومی رشتہِ اخوت بھی یاد دلایا تھا جو اُن کے ساتھ موجُود تھا اور اُس رشتہِ اخوت کا تقاضا تھا کہ وہ آپ کی اُس بات کو سننے پر آمادہ ہوتے جس بات کو وہ اپنے اندھے تعصب کے باعث سننے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے اور اُن اٰیاتِ ماسبق کے بعد اِن اٰیاتِ بالا میں پہلے تو اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول سے اپنے رسُول کی نبوت اور وحیِ نبوت کے بارے میں اہلِ شرک کی اُس زبان درازی کے بارے میں سوال کیا ہے جو زبان درازی وہ کرتے رہتے تھے اور اِس استفسار کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کو تسلّی دیتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ مشرکین کے اُس بیہودہ زبانی عمل کا آپ کے دل پر کیا رَدِ عمل ہوتا ہے اور آپ اپنے سچ پر جھوٹ کا بہتان لگانے والوں کی طرف سے جھوٹ کا بُہتان لگنے کے بعد کس قدر رَنج و درد سے گزرتے ہیں ، اگر اہلِ شرک کے اُس بہتان اور آپ کے اِس رَنج کا مدوا کرنے کے لیۓ ہم چاہیں تو آپ کے دل کو اُن کے رَنج و درد سے بچانے کے لیۓ آپ کے دل کو اِس طرح سر بمہر کردیں کہ اُن مشرکین کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کا درد آپ کے دل تک پُہنچ ہی نہ پائے اور آپ کے دل میں ہمہ وقت صرف ہماری وحی کے الفاظ ہی کا سلسلہِ کلام ہہ باقی رہ جاۓ لیکن انسانی خیالات پر قدغن لگانا ہمارے اُس اَزلی ضابطے کے خلاف ہے جس اَزلی ضابطے کے تحت ہم نے انسان کو سوچنے کا اہل اور ارادہ و اختیار کا مالک بنایا ہے اِس لیۓ آپ اِس وقتی اذیت کو برداشت کریں کیونکہ آپ کو تکلیف دینے والے خود بھی یہ بات جانتے ہیں کہ وہ آپ کو تکلیف دے رہے ہیں اور آپ کو توقع رکھنی چاہیۓ کہ ایک نہ ایک دن آپ کا صبر اُن کے جبر کو فنا کر دے گا اور وہ آپ کی بات کو سننے سمجھنے اور اُس پر ایمان لانے کے لیۓ بھی تیار ہو جائیں گے اور جب وہ اِس رجوعِ حق کے لیۓ آمادہ ہوجائیں گے تو ہم بھی اُن کی توبہ کو قبول کر کے اُن کو اُس وقت رجوع الی الحق کی توفیق دے دیں گے جس وقت وہ رجوع الی الحق کی طرف دل کے عزمِ کامل کے ساتھ اُن کا آنے کا اردادہ ہو گا ، اِس سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت کا مفہوم یہ ہے کہ عالَم میں اللہ تعالٰی کی موجُود ذات کے موجُود ہونے کی بیشمار نشانیوں میں سے اُس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اُس نے زمین و آسمان کے اِس گھر کے اِس ایک زمینی گوشے کے علاوہ اِس کے دیگر گوشوں میں بھی اپنی قوت و قدرت سے وہ جاندار مخلوق پھیلا رکھی ہے جس کو وہ اپنی قدرت سے ایک جمع بھی کرسکتا ہے تاہم اِس کی تفصیلات سُورَةُالطلاق کی آخری اٰیت میں آئیں گی ، اِس مقام پر اِس موضوعِ کلام کے حوالے سے صرف یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالٰی اِن تمام جہانوں میں اپنی گوناں گوں مخلوق کو پھیلانے اور پھیلانے کے بعد اِن کو جمع کرنے کی قوت و قدرت رکھتا ہے وہی اللہ تعالٰی قُرآن کے آج دشمنوں کو بھی آنے والے کسی کَل شرک کے جہان سے نکال کر لانے اور اصحابِ محمد کے ساتھ ملانے کی بھی قوت و قدرت رکھتا ہے لیکن اُس نے کون سا کام کب کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے یہ صرف وہ جانتا ہے اُس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 454264 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More