میری اگلی نسلیں بھی یہ مہندی لگانے آئيں گی، سیون شریف میں ساڑھے سات سو سال سے جاری ایک حیرت انگیز مہندی جس کا مہندی سے کوئی تعلق نہیں

image
 
لعل شہباز قلندر کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا ان کا شمار سندھ کے ان صوفی بزرگوں میں ہوتا ہے جن کے زیر اثر نہ صرف بڑی تعداد میں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ان کو پوری دنیا میں لعل شہباز قلندر کے نام سے پکارا جاتا ہے-
 
ان کے نام میں لعل سے مراد روبی کا قیمتی پتھر ہے جس کو حوالے سے کہا جاتا ہے کہ معرفت کی چمک کے سبب ان کی پیشانی سرخ لعل کی طرح روشن تھی جب کہ شہباز نام ان کو اس لیے دیا گیا تھا کہ روحانی مرتبے کے سبب ان کی روح کی اڑان ایک پرندے کی مانند تھی اور ان کی فقیرانہ طرز زندگی کے سبب ان کو قلندر کا نام دیا گیا تھا- یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا ان کو ان کے اصل نام کے بجائے لعل شہباز قلندر کے نام سے پکارتی ہے-
 
لعل شہباز قلندر کا عرس
لعل شہباز قلندر کو اس دنیا سے پردہ فرمائے ساڑھے سات سو سال گزر چکے ہیں مگر ان کے عشاق ہر سال 18 شعبان کی اسلامی تاریخ کو ان کے عرس کا اہتمام کرتے ہیں- جس کی تقریبات کا آغاز کئی دنوں تک جاری رہتا ہے اور اس میں ملک کے کونے کونے سے نہ صرف معتقدین شرکت کرتے ہیں بلکہ دنیا کے مختلف حصوں سے بھی لوگ خاص طور پر عرس کی تقریبات میں حصہ لینے کے لیے آتے ہیں-
 
لعل شہباز قلندر کی مہندی کی رسم
جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ لعل شہباز قلندر اور اس کے علاوہ دیگر صوفیا کرام نے اپنے طرز عمل اور رویے کے سبب صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو متاثر کیا- یہی وجہ ہے کہ ان کے معتقدین میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عرس کی ان تقریبات میں بڑی تعداد میں دیگر مذاہب سےتعلق رکھنے والے افراد بھی شرکت کرتے ہیں- عرس کی یہ تقریبات جو کافی دنوں تک جاری رہتی ہیں تین دن کی مہندی کی تقریبات بھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو کہ مرید اپنی منتوں کے پورے ہونے کے بعد اپنے انداز میں مناتے ہیں-
 
image
 
مہندی کی تقریب جس کا مہندی سے تعلق نہیں ہے
لعل گل نامی مہندی بردار گروہ کے متولی کا اس تقریب کے حوالے سے یہ کہنا تھا کہ عرس کے موقع پر اس تقریب کا اگرچہ نام مہندی کی تقریب ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس تقریب کا مہندی سے کوئی تعلق نہیں ہے-
 
یہ رسم ساڑھے سات سو سال سے جاری ہے اور اس میں مہندی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے دن بھی جو مہندی لے جائی جاتی ہے اس میں مہندی کے بجائے ایک چادر ہوتی ہے جس کو انتہائی احترام کے ساتھ متولی لعل شاہ اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد مزار کی جانب لے کر جاتے ہیں اور اس کو مزار پر چڑھا دیتے ہیں-
 
اس کے بعد دوسرے دن بھی اسی طرح چادر لے جائی جاتی ہے جو کہ لوگوں کا ایک بڑے گروہ کے جلوس کی صورت میں لے جائي جاتی ہے جب کہ تیسرے دن کی چادر سفید علامتی کفن کی صورت ہوتی ہے-
 
یہ چادر جب مزار پر چڑھائی جاتی ہے تو وہ چادر مستقل طور پر مزار پر چڑھی جاتی ہے اور اس کو اگلے سال دوبارہ عرس کے موقع پر ہی تبدیل کیا جاتا ہے-
 
image
 
معتقدین کی عرس کی تقریبات میں شرکت
عرس کے موقع پر مریدوں کے علاوہ عام افراد کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جن میں سے کچھ کا یہ کہنا ہے کہ وہ سالوں سے ہر سال عرس کے موقع پر اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ان تقریبات میں شرکت کے لیے آتے ہیں اور ان کا یہی ارادہ ہے کہ ان کی اگلی نسلیں بھی اسی طرح ان تقریبات کو جاری ساری رکھیں گے-
 
تاہم اس حوالے سے کچھ افراد مہندی کے نام کی مناسبت سے ان دنوں میں مہندی گھول کر بھی لاتے ہیں اور مریدوں اور دوسرے عقیدت مندوں کے ہاتھوں پر لگائی جاتی ہے اور لعل شہباز قلندر کے حوالے سے سرخ رنگ کے مہندی کے رنگ سے اپنی ہتھیلیوں کو سجاتے ہیں-
 
لیکن اس مزار کے مہندی بردارکے گروپ کے متولی کا یہ واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ لعل شہباز قلندر کی مہندی کی رسم سے عام ہاتھوں پر لگائی جانے والی مہندی کا کوئی تعلق نہیں ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: