کوئی اور نہیں ہم خود قصور وار ہیں… کامیاب نظر آنا چاہتے ہیں تو مظلوم نہیں فاتح بنیں

image
 
نیہا ایک ذہین طالبہ تھی۔ جب بھی اس سے پوچھا جاتا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنے گی تو اس کا جواب ہوتا میں ڈاکٹر بنوں گی۔ میٹرک A.one گریڈ سے پاس کیا۔ زندگی کے میدان میں کامیابیوں کی طرف گامزن تھی کہ انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں ٹائیفائڈ ہونے کی وجہ سے وہ اتنے نمبرز نہ لا سکی کہ میڈیکل میں داخلے کے لئے اہل ہو سکے۔ وہ شدید ڈپریشن میں چلی گئی اور والدین کے اسرار پر بھی دوبارہ انٹر کرنے پر راضی نہ ہوئی اور بی ایس سی کرنے کو ترجیح دی۔ اس کی دیکھا دیکھی اس کی بہن نے بھی میڈیکل کی کوشش نہیں کی کہ جب آپی اتنی ذہین ہو کر نہ کر سکی تو میں کیسے کروں گی۔ ان کا یہ ہی رونا تھا کہ پاکستان میں میڈیکل میں ایڈمیشن بہت مشکل ہیں۔ ہر آئے گئے کو یہ کہانی سنائی جاتی لیکن اگر دیکھا جائے تو ہر سال لا تعداد بچے میڈیکل میں داخلہ لے رہے ہیں ۔ بلکہ باہر ملکوں سے بھی بچے آ کر پاکستان میں میڈیکل کر رہے ہیں۔
 
ہماری زندگی میں ہماری قسمت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ بعض دفعہ اللہ نے ہمیں کسی اور مقصد کے لئے بنایا ہوتا ہے۔ ہمارے جو مقاصد ہیں ان کے حصول کےلئے بیشک ہمیں جان لڑا دینی چاہئے لیکن اگر ہم وہ حاصل نہیں کر پا رہے تو اس کے پیچھے اللہ کی حکمت کو سمجھتے ہوئے مثبت سوچ کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا چاہئے اور اپنی زندگی کے مقصد کو تلاش کرنا چاہئے کیونکہ اللہ نے ہمیں بنا مقصد نہیں پیدا کیا ہے۔ دوسروں کے لئے مظلومیت کی داستان نہیں بننا چاہئے۔
 
یہ رویہ ایک مظلومانہ رویہ ہے جو آج کل کے نوجوانوں میں ہم عموماً دیکھ رہے ہیں۔ اور اس روئیے کی وجہ سے وہ محنت نہیں کرنا چاہتے کہ ہماری محنت ضائع ہوگی۔ مظلومانہ سوچ کے لوگوں میں چند نشانیاں پائی جاتی ہیں:
 
image
 
٭وہ اپنے حالات کا قصور وار ہمیشہ دوسروں کو گردانتے ہیں ۔
٭وہ اس فلسفے پر یقین رکھتے ہیں " زندگی میرے خلاف ہے۔"
٭ وہ سوچتے ہیں دوسرے جان بوجھ کر ان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
٭وہ اپنے سانحے کی داستان بڑے شوق سے دوسروں کو سناتے ہیں۔
٭وہ اپنی ناکامیوں کا الزام اپنے پیاروں پر ڈالتے ہیں۔
٭ وہ عموماً مذموم اور مایوسی پسند ہوتے ہیں۔
٭ وہ ہر چیز میں اپنے آپ کو نیچا کرتے ہیں۔
٭ ان کو یقین ہوتا ہے کہ صرف ان کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں۔
٭وہ اپنا تجزیہ کرنے سے گریز کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو بہتر نہیں بنا پاتے۔
٭ خواہ ان کی زندگی میں کچھ اچھا بھی ہو رہا ہو یہ اس میں بھی کوئی شکایتی پہلو نکال لیتے ہیں۔
 
 یہ ڈپریشن کی ایک قسم ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کراچی کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ڈپریشن اور اینزائٹی پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والے امراض یا مسائل میں شامل ہیں جن کا سب سے زیادہ شکار نوجوان نسل ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فیصد تک نوٹ کی گئی جو زیادہ آبادی والے شہروں جیسے کراچی اور لاہور میں بلند ترین ہے-
 
 ایک اندازے کے مطابق ذہنی امراض کی شرح اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو 2050 تک پاکستان ذہنی مسائل و بیماریوں کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہو گا۔
 
image
 
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مایوسی ہے کیا ؟ اور اس سے کس طرح نمٹا جائے؟
 
مایوسی وہ احساس ہے جو ایک فرد میں پیدا ہوتا ہے جب وہ بیان کردہ خواہش کو پورا نہیں کر سکتا ۔ اور وہ اس کے ردعمل کے طور پر غصہ دکھاتا ہے ۔ اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کر لیتا ہے۔ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ جبکہ مایوسی تو کفر ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کسی مشکل میں ڈالنے سے پہلے ہی حل پیدا کر دیتا ہے بس اپنے آپ کو مضبوط رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے تحقیق کے مطابق ڈپریشن اور انزائٹی وراثتی امراض ہیں اور یہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ اگر پیدائش کے بعد دو سے تین سال کے ابتدائی عرصے میں والدین سے بچوں کی پرورش میں کوئی غفلت یا کوتاہی سر زد ہو انھیں لاڈ پیار میں بگاڑا جائے یا حد سے زیادہ سختی کی جائے تو ایسے بچے نوجوانی میں ڈپریشن یا مایوسی کا شکار ہوتے ہیں جو بعد ازاں شادی کے بعد تعلقات پر بھی براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔
 
مایوسی سے کس طرح مقابلہ کیا جائے؟
٭ اپنے ہر عمل کی دیدہ دلیری کے ساتھ ذمہ داری لی جائے۔
٭ مظلومانہ سوچ رکھنے والے لوگوں سے دور رہا جائے۔
٭ شکایت کرنے سے گریز کیا جائے۔
٭اپنی زندگی میں حاصل نعمتوں پر شکر گزار رہیں۔
٭ مثبت سوچ کے ساتھ اپنے آپ سے ہمدردی کریں۔ اور مضبوطی کے ساتھ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو تلاش کریں۔
٭ مثبت لوگوں کے ساتھ رہیں۔
 
کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہیں ہم جتنی جلدی اس بات کو سمجھ لیں اچھا ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اسے جتنا ہو سکے اتنا کارآمد بنانا چاہئے۔ گر کر اٹھنے میں جو مزا ہے وہ شاید مسلسل کامیابی میں نہیں کیونکہ وہ ایک چیلنج کی طرح ہوتا ہے۔ یہ نوجوان ہی تو ہوتے ہیں جو کسی ملک کی کایا پلٹنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اپنی اس طاقت کو سمجھتے ہوئے اپنے روئیے کو victim attitude سے winning attitude میں تبدیل کریں۔
YOU MAY ALSO LIKE: