ابھی حال ہی میں چین میں تین روزہ چائنا الیکٹرک وہیکل
فورم 2022 کا انعقاد کیا گیا۔فورم کے دوران یہ بتایا گیا کہ چین میں نیو
انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کی صنعت وسیع پیمانے پر اعلیٰ معیاری اور تیز
رفتار ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔اس وقت چین میں نیو انرجی سے
چلنے والی گاڑیوں کی کلیدی ٹیکنالوجی کا معیار بہتر ہوتا جا رہا ہے اور
صنعتی چین بھی مکمل اور مستحکم ہو رہی ہے۔ٹیکنالوجی کی اختراعی صلاحیت نیو
انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کی صنعت کی تیزرفتار ترقی میں بنیادی اہمیت کی
حامل ہے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ 2021 میں چین میں نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کی
پیداوار اور فروخت کی مجموعی تعداد 35 لاکھ سےزائد رہی ہے جو مسلسل سات
برسوں سے دنیا میں سرفہرست ہے۔تاحال چین نے نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں
کی ترقی کے لیے ساٹھ سے زائد پالیسیز متعارف کروائی ہیں اور 150 سے زائد
معیارات مرتب کرتے ہوئے اُن پرعمل درآمد کیا ہے۔ نیو انرجی سے چلنے والی
گاڑیوں کے فروغ اور حمایت کے لیے چین نے پالیسی سازی کے لحاظ سے دنیا میں
اپنی نوعیت کا جامع ترین نظام قائم کیا ہے۔
یہاں اس بات کا ادراک بھی لازم ہے کہ چین کی جانب سے 2030 تک تخفیف کاربن
کے حوالے سے "کاربن پیک" اور 2060 تک "کاربن نیوٹرل" کے اہداف کو حاصل کرنے
میں نیو انرجی وہیکل انڈسٹری اپنے کندھوں پر ایک اہم تاریخی مشن اٹھائے
ہوئے ہے۔ یہ نہ صرف اقتصادی ترقی کے لیے ایک ستون کی مانند اہم صنعت ہے
بلکہ چین کی آٹوموبائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی تاریخ کو دوبارہ رقم کرنے
اور کم کاربن کے حامل مستقبل کی تعمیر کے لیے بھی ایک بڑی طاقت ہے۔
چین دنیا کی سب سے بڑی آٹو مارکیٹ ہے، جہاں ہر سال تقریباً 30 ملین گاڑیاں
تیار اور فروخت ہوتی ہیں، لیکن ان میں سے تقریباً 90 فیصد رکازی ایندھن یا
فوسل فیول گاڑیاں ہیں جن پر غیر ملکی برانڈز کا غلبہ ہے۔ تقریباً تمام
معروف غیر ملکی برانڈز اور اعلیٰ مینوفیکچررز کے چین میں جوائنٹ وینچرز یا
منصوبے جاری ہیں۔اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے چین کی کوشش ہے کہ اب ملک میں
شفاف توانائی کو فروغ دیتے ہوئے تمام غیر ملکی برانڈز کی بھی حوصلہ افزائی
کی جائے کہ وہ نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی جانب آئیں اور چین کی
بڑی منڈی سے فائدہ اٹھائیں۔
اس وقت ویسے بھی " لو کاربن ترقی" ایک عالمی رجحان بن چکا ہے اور موجودہ
ماحول دوست کوششوں کے تناظر میں اسے ایک ناگزیر عمل قرار دیا جا سکتا ہے ،
ایک بین الاقوامی اتفاق رائے موجود ہے کہ ماحول دوست اور کم کاربن کی حامل
ترقی کا راستہ اختیار کیا جائے۔انہی حقائق کی روشنی میں یہ توقع ظاہر کی جا
رہی ہے کہ آئندہ تقریباً 10 سالوں میں، فوسل فیول والی گاڑیاں اپنے مارکیٹ
شیئر کا نصف نئی توانائی کی گاڑیوں کے لیے چھوڑ دیں گی اور 2040 تک مین
اسٹریم مینوفیکچررز فوسل فیول سے چلنے والی گاڑیاں مزید فروخت نہیں کریں
گے۔ لہذا نئی توانائی کی گاڑیاں ، خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں کی ترقی چین
کی آٹوموبائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی ترقی کے لیے نئے مواقع لے کر آئی ہے۔
چین نے اس ضمن میں ایک دہائی سے زائد عرصے تک بے پناہ کوششیں کی ہیں اور
انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ چین اس وقت نئی توانائی کی گاڑیوں کے لیے دنیا
کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔حیرت انگیز طور پر 2020 میں، دنیا بھر میں 10 ملین
سے زائد نئی توانائی کی گاڑیاں گردش میں تھیں اور ان میں سے تقریباً نصف
چین میں موجود تھیں۔اسی طرح گزشتہ سال 2021 میں بھی ، وبا کے اثرات اور چپ
کی کمی کے باوجود چین کی نئی توانائی کی گاڑیوں کی منڈی نے مثبت نمو برقرار
رکھی اور سالانہ فروخت 3.52 ملین یونٹس تک پہنچ چکی ہے، جس میں سالانہ
بنیادوں پر 1.6 گنا اضافہ ہوا ہے۔چینی حکام پر امید ہیں کہ ملک کی نئی
توانائی کی گاڑیوں کی منڈی 2025 تک مجموعی مارکیٹ شیئر کے 25 فیصد سے زائد
تک پہنچ جائے گی اور تیز رفتار ترقی کے نئے دور میں داخل ہوگی۔
دوسری جانب گلاسگو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی 26ویں کانفرنس
میں آسٹریا، ڈنمارک، فن لینڈ، سویڈن، نیدرلینڈز اور ناروے سمیت متعدد ممالک
یہ عزم ظاہر کر چکے ہیں کہ اُن کے ہاں 2040 تک یا اس سے قبل تمام گاڑیاں
صفر کاربن اخراج کی حامل ہوں گی ۔
دنیا کے معروف گاڑی ساز ادارے، جیسے مرسڈیز بینز، ووکس ویگن، بی ایم ڈبلیو
اور فورڈ، پہلے ہی فوسل فیول گاڑیوں کی پیداوار کو ختم کرنے کے لیے ٹائم
فریم تجویز کر چکے ہیں۔ کاربن نیو ٹرل کا ہدف حاصل کرنے کے لیے مارکیٹ سے
فوسل فیول گاڑیوں کا مرحلہ وار اخراج تاریخ کا ایک ناگزیر رجحان ہے۔
چین کے معاملے میں، عملی اقدامات ہمیشہ الفاظ سے کہیں زیادہ بلند نظر آتے
ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہی ہے کہ چین الیکٹرک گاڑیوں کی ترقی اور فروغ
میں پہلے ہی دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔چین کی کوشش ہے کہ ملک میں ہوا، شمسی
اور دیگر قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی بڑے پیمانے پر ترقی کو فروغ دیتے
ہوئے نئی توانائی کی گاڑیوں کو نئے پاور سسٹم میں ضم کیا جائے۔توانائی کے
نظام کے ساتھ نئی توانائی کی گاڑیوں کا انضمام اس تبدیلی کو تیز کرنے کے
لیے ایک اہم محرک ثابت ہوگا۔
|