اہلِ شر کے سر پر آنے والا یومِ شر مند گی !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالشُورٰی 44 تا 48 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
من یضلل
اللہ فمالهٗ من
ولی من بعدہٖ و
تری الظٰلمین لماراو
العذاب یقولون ھل الٰی
مرد من سبیل 44 وترٰھم
یعرضون علیہا خٰشعین من
الذل ینظرون من طرف خفی
وقال الذین اٰمنواان الخٰسرین الذین
خسروا انفسھم واھلیھم یوم القیٰمة
الٓا ان الظٰلمین فی عذاب مقیم 45 وما
کان لھم من اولیاء ینصرونھم من دون اللہ
ومن یضلل اللہ فمالهٗ من سبیل 46 استجیبوا
لربکم من قبل ان یاتی یوم لامردلهٗ من اللہ مالکم من
ملجاٍیومئذ ومالکم من نکیر 47 فان اعرضوا فما ارسلنٰک
علیھم حفیظا ان علیک الا البلاغ وانا اذا اذقنا الانسان منا
رحمة فرح بھا وان تصبھم سیئة بما قدمت ایدیہم فان الانسان
کفور 48
اے ہمارے رسُول ! جو انسان قُرآن کا صحیح راستہ چھوڑ کر کسی غلط راستے پر چل پڑتا ہے تو اُس کا کوئی بھی نگرانِ کار اور مدد گار نہیں ہوتا ، اِس طرح کے سر کش مسافر جب اپنے متعین کیۓ ہوئے راستے کے آخری مقام پر پُہنچیں گے تو وہ اُس مقام کی دل ہلا دینے والی ہولناکیوں کو دیکھ کر حیرت و حسرت کے ساتھ چلائیں گے کہ کیا اِس جگہ سے واپسی کا واقعی کوئی راستہ نہیں ہے جس پر چل کر ہم اپنی پہلی جگہ پر واپس جا سکیں اور پھر اسی دوران جب اُن پر اُن کو ملنے والی کُچھ سزاؤں کا ایک منظر ظاہر کیا جاۓ گا تو وہ دل میں آنے والی نجات کی ہر اُمید بھول جائیں گے اور اُس وقت اُن کا یہ حال ہوگا کہ وہ دُزدیدہ نظروں سے اپنے چاروں اَطراف میں دیکھیں گے کہ شاید اُن کو اُن کے حال پر ترس کھانے والی کوئی ہستی نظر آجاۓ اور اُس وقت قُرآن کے اُن مُنکروں کو قُرآن کے ماننے والے کہیں گے کہ افسوس کہ تُم نے ہمیشہ ہی اپنے حاضر وقت کے وقتی مفاد پر ہی نظر رکھے رکھی لیکن اپنے مُستقبل کے مُستقل نتیجہِ عمل کے وقت کو طاقِ نسیاں بنا دیا اور آج تُمہاری اِس حق کوشی اور اَنجام فراموشی کا وہی نتیجہ سامنے آگیا جو تمہیں بار بار یاد دلایا جاتا رہا ہے اور تُم بار بار اُس کو فراموش کرتے ر ہے ہو اور اِس طرح تُم خود بھی برباد ہوۓ ہو اور اپنے ساتھ اپنے ساتھیوں کو بھی برباد کر دیا ہے ، اَب تم نے ہمیشہ اپنے اسی حال اور اپنے اسی وبال میں رہنا ہے کیونکہ قُرآن کا سچا راستہ تُم نے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اور شیطان کا جھوٹا راستہ تمہیں بہت آگے لے آیا ہے لیکن اِس وقت دُنیا میں جو لوگ بدی کے اِس راستے پر گامزن ہو چکے ہیں تو آپ اُن کو آخری بار بتادیں کہ تُم جس طرف جا رہے ہو اُس طرف تُمہاری تباہی و بربادی کے سوا کُچھ بھی نہیں ہے ، جو لوگ آپ کی یہ بات نہ مانیں تو اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیں کہ آپ نے اللہ کے ایک مامور کے طور پر اِن لوگوں کو اپنی بات صرف سنانی ہے زور زبردستی کے ساتھ منوانی نہیں ہے لیکن جو لوگ ابھی سر کشی کی اُس انتہا تک نہیں پُہنچے ہیں تو آپ اُن میں قُرآنی دعوت کا کام جاری رکھیں کیونکہ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے ایسی ہستی ہے کہ جب ہم اِس کو آسائش دیتے ہیں تو یہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور جب اِس پر تھوڑی سی تنگی آتی ہے تو اِس کو خدا شناسی یاد آجاتی ہے اور خدا شناسی کے اِس خیال کے دوران وہ حق سننے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا سے پہلی 8 اٰیات میں اُن ایمان دار لوگوں کا ذکر کیا گیا تھا جو ایمان دار لوگ قُرآن کے ساۓ میں رہتے ہیں اور جو قُرآن میں بیان ہونے والی اللہ تعالٰی کی اُن کُھلی نشانیوں کو اپنی کُھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے سفرِ حیات کی منزل و سمت کو قُرآن کی اُن کُھلی نشانیوں کے مطابق متعین کرتے ہیں اور پھر عُمر بھر قُرآن کے اُسی روشن راستے پر چلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی اُس منزلِ خیر تک پُہنچ جاتے ہیں جو اللہ تعالٰی نے اُن کے اعمالِ خیر کی جزاۓ خیر کے لیۓ بنا رکھی ہے ، اُن ایمان دار لوگوں کے بعد اَب اُن نابکار لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے جادہِ منزل کی سمت ہی غلط ہوتی ہے لیکن وہ اپنے اسی شرک و معصیت کی سیاہ بارات لے کر اُسی سیاہ رات میں داخل ہو جاتے ہیں جس میں دُور دُور تک کوئی جگنُو بھی اپنی روشنی نہیں ڈالتا حالانکہ اُن لوگوں کے پاس اللہ تعالٰی کا آخری عظیم الشان نبی قُرآن جیسی عظیم الشان آخری ہدایت لے کر آچکا ہے لیکن یہ لوگ اُس ہدایت و رسُولِ ہدایت پر ایمان لانے کے بجاۓ اُن کی کوئی بات ہی سننے پر آمادہ نہیں ہیں اِس لیۓ اٰیاتِ بالا میں پہلے تو اللہ تعالٰی نے انسان کے لیۓ اپنے نبی کے ذریعے اپنا یہ اَزلی قانُون بیان کیا ہے کہ جب کوئی انسان بار بار اپنے خالق و مالک کا روشن دَر چھوڑ کر کسی اندھیر نگری کی طرف بھاگنا چاہتا ہے تو اللہ تعالٰی کی طرف سے اُس کو ایک حد تک ہی حق کے اُس حصار میں روکا جاتا ہے اور ایک حد گزرنے کے بعد اُس کو گم راہ ہونے کے لیۓ آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور جب جس انسان کو اُس کی خواہش کے مطابق اللہ تعالٰی اپنے در سے دُھتکار کر نکال دیتا ہے تو پھر اُس کو کوئی بھی گم راہی کی اُس راہ سے واپس نہیں لا سکتا ، اللہ تعالٰی نے اپنے اِس پہلے قانون کے بعد اپنا جو دُوسرا قانُونِ اَزل بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی انسان اپنی گم راہی کے راستے پر چلتا ہوا اپنے آخری اَنجام تک پُہنچ جاتا ہے تو اُس پر واپسی کا دروازہ ہمیشہ کے لیۓ بند کر دیا جاتا ہے اور اِس کے بعد وہ سزا کے جس مقام پر پُہنچ کر جس سزا سے دوچار ہوتا ہے وہ ہمیشہ اُسی سزا سے دوچار رہتا ہے ، ہر چند کہ وہ اُس سزا سے دوچار ہونے سے کُچھ دیر پہلے تک رحم طلب نظروں سے اپنی چار سمتوں میں دیکھتا ہے کہ شاید اُس کو کہیں سے رحم کی کُچھ بھیک مل جاۓ لیکن اُس وقت اُس کو دُور دُور تک خود پر رحم کرنے والا کوئی ہمدرد نظر نہیں آتا تو اُس کے بعد وہ اُسی جگہ کے ساتھ ایک جبری مفاہمت کر کے اُسی جگہ کا ہو کر رہ جاتا ہے ، بد اَنجام لوگوں کے اِس اَنجامِ بد کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو حُکم دیا ہے کہ جو لوگ جہنم کے اِس مقام کی طرف جانے کے لیۓ پا رکاب ہو چکے ہیں تو آپ اُن پر اتمامِ حُجت کرنے کے لیۓ آخری بار اُن کو اُن کے اِس اَنجامِ بد سے آگاہ کردیں ، اگر وہ آپ کی بات مان جائیں تو اِس سے اُن کا اپنا ہی بَھلا ہو گا لیکن اگر وہ آپ کی بات نہ مانیں تو بَھلائی کا جو ہر زور زبردستی کے ساتھ اُن کے دل میں اُتارنا بھی ہمارے اُس اَزلی ضابطے کے خلاف ہے جس اَزلی ضابطے کے تحت ہم نے انسان کو اُس کے آزاد ارادے اور آزاد اختیار کے ساتھ حق قبول کرنے یا قبول نہ کرنے کا حق دیا ہوا ہے لیکن جو لوگ گم راہی کی اِس آخری حد سے ہنُوز دُور ہیں اُن میں قُرآن کی سماعت و تلاوت اور کتابت کا کام حسبِ سابق اُسی طریقے سے جاری رکھا جاۓ جس طریقے کا اِس سے پہلے ذکر کیا جا چکا ہے اور اِن لوگوں کی اِس تعلیم و تربیت کے دوران انسان کی اِس اُفتادِ طبع کا بھی خیال رکھا جاۓ کہ جب کوئی انسان خوش حال ہوتا ہے تو وہ اپنی اُس خوش حالی کی بنا پد اپنی حد سے با ہر ہوجا تا ہے اور حد سے باہر ہونے کے بعد وہ خوش حال انسان اپنے مُثبت خیلات کی مُثبت حد سے بہت دُور اور اپنے مَنفی خیالات کی مَنفی حَد کے بہت قریب ہوجا تا ہے اور اُس وقت وہ اپنے تکبر کے باعث حق بات سننے کے لیۓ آمادہ نہیں ہوتا بخلاف اِس کے جب کوئی بدحال انسان اپنی بد حالی کے باعظ اپنی فطری حد سے باہر ہوتا ہے تو وہ اپنے مَنفی خیالات کی مَنفی حد سے بہت دُور اور اپنے مُثبت خیالات کی مُثبت سر حد سے بہت قریب ہوتا ہے اور اُس وقت وہ اپنے تکسر کے باعث حق بات کو سننے اور سمجھنے کے لیۓ اُس پہلے مُتکبر انسان سے زیادہ آمادہِ حق ہو چکا ہو تا ہے ، بہر حال زندگی کی آخری سانس لینے سے پہلے پہلے اِن میں سے جو انسان بھی حق پر ایمان لاتا ہے اُس کے ایمان کو قبول کیا جاتا ہے اِس لیۓ کہ اللہ تعالٰی انسان کے جذبہِ قبولِ حق کے آخری لمحے تک بھی انسان کو اپنی سزا سے بچانا اور اپنی رحمت میں لانا چاہتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457047 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More