یہ 70ء کی دھائی کے اواخر کے
سالوں زکر کا ہے۔ ہم کراچی میں کسٹم ہاوئس سے زرا سا ہی آگے موجود کے پی
ٹی گراؤنڈ کے عین سامنے والے علاقے پنجابی کلب، کھارادر میں رہا کرتے تھے۔
اکثر اپنے والد ِ مرحوم صدرالدین بھایانی کے ہمراہ انکی لال ہنڈا ففٹی
موٹرسائیکل پر سوار ہو کر قریبی واقع نیٹی جیٹی پل پر سے ہوتے ہوئے مولوی
تمیزالدین خان روڈ (ایم ٹی خان روڈ) جسے عرف عام میں اولڈ کوئینز روڈ کہا
جاتا تھا، ہمارا گزر ہوا کرتا تھا۔
والد ِ مرحوم کو نہ جانے وہ سڑک کیوں اتنی اچھی لگتی تھی کہ اکثر و بیشتر
اپنی سواری وہیں سے گزارا کرتے اور سچ پوچھیئے تو ہم کو بھی وہ سڑک اپنی
کشادگی، وہاں موجود قطار در قطار، بلند قامت، سرسبز درختوں اور سڑک کے
بیچوں بیچ قائم رنگ برنگے، دلفریب و دلکش پھولوں سے لدھے سبز قطعات کے سبب
بہت ہی بھاتی تھی اور وہاں سے ابو کے ساتھ موٹرسائیکل میں انکے پیچھے بیٹھ
کر کم و بیش ہر روز گزرنا بہت ہی بھلا معلوم ہوتا تھا۔
اکثر ہم ابو کے ساتھ اسلامیہ کالج کے عین سامنے استادہ بڑے سے گلوب اور پھر
کشمیر روڈ سے ہوتے ہوئے موٹر سائیکل میں براجمان ٹھنڈی تیز ہوائیں کھاتے
گزرا کرتے تھے۔ ہمیں وہ سب مقامات اور سڑکیں ایسے دیرینہ مہربان دوستوں کی
مانند معلوم ہوتے تھے جو ہمیشہ اپنی بانہیں وا کئے ہمیں خوش آمدید کہنے کو
تیار کھڑے ہوں اور اٌن سب خاموش مگر اپنی خاموشی میں ہی بہت کچھ کہتے سنتے
راستوں، سڑکوں اور مقامات سے گزرتے ہوئے محسن نقوی کے کہے یہ اشعار ہمارے
زہن کے دریچوں میں بازگشت کیا کرتے تھے:
اِتنی مُدّت بعد ملے ہو!
کن سوچوں میں گم رہتے ہو؟
تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟
کٌون سی بات ہے تم میں ایسی
کیوں اتنے اچھے لگتے ہو؟
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپنی کہوں اب تم کیسے ہو؟
یہ 1980ء کی بات ہے، پاکستانی فلموں کے جغادری ہدایتکار نذرالسلام (دادا)
مرحوم کی فلم ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ 21 اکتوبر کو ریلیز ہوئی۔ یہ فلم دادا نے
مشہور انگریزی فلم SUMMER OF 1942 سے متاثر ہو کر بنائی تھی اور کہا جاتا
ہے کے یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی جو لڑکپن کی حدود کو عبور کرکے نوجوانی
کی پٌر پیچ سرحدوں پر قدم دھرتے نوجوانوں کے جذباتی مسائل و کیفیات کے
موضوع پر بنے والی والین اور شاید ابتک کی آخری فلم ہے۔
ابو کو ہدایتکار نذرالسلام مرحوم کی سابقہ فلموں بطور خاص ’’آئینہ‘‘ کے
سبب بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں، لہٰذا وہ اس فلم کی ریلیز کے والین دن
ہی ہم سب گھر والوں کو کراچی کے پلازہ سنیما لے گئے لیکن وہاں لگا ’’ہاؤس
فل‘‘ کا بورڈ دیکھ کر انہوں نے اپنی موٹر سائیکل کا رٌخ موڑا اور لائٹ ہاؤس
سنیما کا طرف چل دیئے اور پھر ہم سب نے یہ فلم لائٹ ہاؤس سنیما میں دیکھی۔
اب ہمیں یہ تو نہیں معلوم کے اس فلم سے ابو کی وابستہ امیدیں پوری ہوئیں کہ
نہیں؟ البتہ وہ دن اور آج کا دن، عرصہ ِ اکتیس سال بعد بھی ہم اس فلم اور
اس فلم میں شامل اخلاق احمد مرحوم کے گائے ایک گیت کے سے سحر سے نکل نہیں
پائے۔
اٌس فلم کا ہیرؤ فیصل الرحمٰن (پاکستانی فلم انڈسڑی کے مایہ ناز سنیما ٹو
گرافر مسعود الرحمٰن مرحوم کے صاحبزادے اور بھارتی اداکار رحمٰن مرحوم کے
بھتیجے) اٌسی اولڈ کوئینز روڈ، اسلامیہ کالج کے گلوب اور کشمیر روڈ پر اپنی
بائیسائیکل پر لہرا لہرا کر یہ گیت گاتا ہےـ
سماں وہ خاب سا سماں
ملے تھے دل سے دل جہاں
کہاں لے کے چلا
مجھے یہ دل میرا
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں آتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
یہ آتے جاتے چہرے مانا کہ ہیں حسیں
ایسے تو ہیں ہزاروں تجھ سا کوئی نہیں
لگتی ہے ذندگی ادھوری
کیسے یہ دور ہوگی دوری
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں آتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
ہر پٌھول منتظر ہے کب ہو تیرا کرم
کلیوں کو آرزو ہے چٌومیں تیرے قدم
تیرے لیے تو کب سے راہیں
کھولے ہوئے ہیں اپنی باھیں
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں جاتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
وہ مہرباں نگاہیں ابتک نظر میں ہے
یہ رات دن ہمارے جن کے اثر میں ہیں
تیرے بناء تو یہ نظارے
ایسے ہیں جیسے غم کے مارے
سماں وہ خاب سا سماں
ملے تھے دل سے دل جہاں
کہاں لے کے چلا مجھے یہ دل میرا
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں جاتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
https://www.youtube.com/watch?v=5FO-_SlbR5U&feature=channel_video_title
ویڈیو: بشکریہ عرفان خان
سرور بارہ بنکوی مرحوم کے لکھے، اخلاق احمد مرحوم کے گائے اس گیت کی موسیقی
ہمارے آل ٹائم فیوریٹ مویسقار روبن گھوش نے مرتب کی تھی اور آپ اس گیت کا
ایک ایک مصرعہ پڑھ لیں، چاہیں تو اسکا کے ویڈیو کا ایک ایک منظر دیکھ لیں،
آپ کو ایسا محسوس ہوگا کے جو باتیں ہم نے اس تحریر کی ابتداء میں قلمبند
کیں ہیں وہ ہو بہو شاعر نے اپنی شاعری میں اور فلم کے ہدایتکار نے پردہ ِ
سیمیں پر کچھ اسطرح سے پیش کردیں ہیں کہ جیسے یہ گیت سرور بارہ بنکوی نے نہ
لکھا ہو، خود ہم نے ہی لکھا ہو اور اسے دادا نے نہ فلمایا ہو، خود ہم نے ہی
فلمایا ہو۔
گو کہ اس گیت سے قبل بھی ہم اخلاق احمد مرحوم کے بےشمار مقبول گیت ریڈیو
پاکستان سے سنتے اور اپنا سر دھنتے رہے تھے، لیکن اس گیت نے تو ہمیں اخلاق
احمد مرحوم کا غلام ِ بے دام قسم کا مداح بنا دیا۔ اب اخلاق احمد مرحوم کا
گایا یہ گیت تھا، ہم تھے اور ابو کی ہنڈا ففٹی کی سواری تھی، ہم جب جب بھی
ابو کے ہمراہ ان مقامات سے گزرتے، ہمارے ہونٹوں پر یہ گیت ہوتا اور ہم خود
کو فیصل الرحمٰن کی طرح کوئی ہیرؤ گردانتے ہوئے اپنے کسی خیالی محبوب کے
تصور میں غلطاں و پیچاں رہتے اور پھر قسمت کی خوبی دیکھئے کے اس بات کے کچھ
چھے ایک برس بعد ہمیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی دوسری ملازمت اِسی اولڈ
کوئینز روڈ پر بحریہ کامپلیکس کے عقب میں واقع لالہ زار ایریا میں قائم بیچ
لگژری ہوٹل کے بلمقابل ایک عمارت میں قائم دفتر میں ملی۔
بس صاحب پھر کیا تھا ہم تھے، اخلاق احمد مرحوم کا یہ گیت تھا اور ایم ٹی
خان روڈ کی وہ رومان پرور فضائیں تھی اور اب تو یہ گیت ہمارے لئے کچھ اور
ہی معنویت کا حامل ہوچکا تھا، ہماری پشہ ورانہ زندگی کا آغاز ِنو تھا اور
اب یہ گیت ہمیں مستقبل کی دبیز دھند میں اٹیں راھوں اور انپر چلکر ملنے
والیں انجان منزلوں اور نہ معلوم کامیابیوں کی نوید سنایا کرتا تھا:
تیرے لیے تو کب سے راہیں
کھولے ہوئے ہیں اپنی باھیں
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں جاتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
اور ان کیفیات تک ہماری رسائی میں ان چاروں ہی کا برابر کا تو ہاتھ تھا،
گلوکار اخلاق احمد، شاعر سرور بارہ بنکوی، ہدایتکار دادا اور اداکار فیصل
الرحمٰن۔
آج 31 برسوں بعد بھی جب ہم اخلاق احمد مرحوم کا گایا ہوا یہ گیت سنتے ہیں
اور کم و بیش روز ہی سنتے ہیں، تو دل و دماغ پر وہی دور ِ نوجوانی کی
کیفیات غالب آنے لگتیں ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کے اب بھی یہ گیت ہمیں
مستقبل کی دبیز دھند میں اٹیں راھوں اور انپر چلکر ملنے والیں نہ معلوم
کامیابیوں کی نوید سناتا ہے:
تیرے لیے تو کب سے راہیں
کھولے ہوئے ہیں اپنی باھیں
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
ممکن ہے کہ ہم نے اپنی ذات سے وابستہ یہ قصہ سنا کر آپ سب کو شدید کوفت
میں مبتلا کیا ہو لیکن کیا کیا جائے کہ ہم جب بھی اخلاق احمد مرحوم اور
اوپر زکر شدہ شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں، ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ قصہ
ہماری زبان پر آ ہی جاتا ہے۔
عموماْ کہا یہ جاتا ہے کہ اخلاق احمد مرحوم کی آواز سب سے زیادہ اداکار
ندیم پر سوٹ کرتی تھی اور خود ندیم صاحب کا بھی یہ ہی کہنا ہے۔ گو کہ اس
بات کی سچائی میں کوئی کلام نہیں لیکن زیل میں ہم اخلاق احمد مرحوم کے گائے
ہو ئے چند گیت پیش کررہے ہیں جو ندیم، وحید مراد مرحوم، محمد علی مرحوم،
رحمٰن، جاوید شیخ اور فیصل الرحمٰن پر فلمائے گئے تھے اور آپ خود ان تمام
نغمات کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کے اخلاق احمد اسقدر اعلیٰ پائے کے
گلوکار تھے کہ اداکار خواہ کوئی بھی ہو، انہوں نے محسوس نہیں ہونے دیا کہ
یہ گانا وہ گا رہے ہیں یا کہ وہ اداکار جس پر کہ گیت فلمایا گیا ہے۔
1. سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان ِ من تجھ کو میں دے سکوں گا, فلم ’’بندش‘‘
- ندیم
https://www.youtube.com/watch?v=l9t4I4QmDCc
2. ساتھی میرے بن تیرے، بن تیرے، کیسے بیتے گی عمریا بن تیرے، فلم ’’ذبیدہ‘‘
- وحیدمراد
https://www.youtube.com/watch?v=UBWUdmUP02A
3. تقدیر کے ہاتھوں میں کھلونا ہے آدمی، فلم ’’آدمی‘‘ - محمد علی
https://www.youtube.com/watch?v=7e4jK9pMAGA
4. ایک تھی گڑیا بڑی بھولی بھالی، فلم ’’دو ساتھی‘‘ - رحمٰن
https://www.youtube.com/watch?v=HiV83zYFkUI
5. ساون آئے ساون جائے جائے، فلم ’’دو ساتھی‘‘ - رحمٰن
https://www.youtube.com/watch?v=c7ifcYOcbzc&feature=related
6. نیلی نیلی آنکھوں میں نہ جانے کیا ہے، ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے، فلم
’’ہم اور تم‘‘
(جاوید شیخ)۔
https://www.youtube.com/watch?v=FnZhv6yEaGI
7. اس نے دیکھا میں نے دیکھا، فلم ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ - فیصل الرحمٰن
https://www.youtube.com/watch?v=yzeSp8kzPB8&feature=channel_video_title
8. لوٹا قرار میرے من کا، فلم ’’نادانی‘‘ - فیصل الرحمٰن
https://www.youtube.com/watch?v=zgvC-dzlcB8&feature=related
اخلاق احمد 8 مئی 1946 کو دہلی غیر منقسم شدہ بھارت میں پیدا ہوئے اور ان
کا انتقال 4 اگست، 1999 کو لندن میں خون کے سرطان کے سبب ہوا۔
اخلاق احمد مرحوم کے صاحبزادے آفاق احمد پاکستان سے باہر غالباْ لندن میں
ریڈیو ہوسٹ ہیں اور انکو ہمارے محترم گلوکار دوست جناب ظفر رامے صاحب کی اس
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں اخلاق احمد مرحوم کو خراج ِ تحسین پیش
کرنے کی غرض سے ’’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان ِ من تجھ کو میں دے سکوں
گا‘‘، گا کر اسکا ویڈیو تمام احباب کی نذر کیا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=ywPEka6Bb60&feature=youtu.be |